معاشی بحران، عمران خان کی بچھائی بارودی سرنگیں اور سیاسی استحکام


معیشت تباہ حال اور اس کو سدھارنے کے لیے ہر قربانی درکار اور یہ قربانی دینے کا ہی تصور ہے کہ گزشتہ اپریل میں حکومت کو بدترین معاشی حالات کے باوجود قبول کر لیا گیا۔ اس وقت قبول کر لیا گیا جب سابقہ حکومت کے کرتا دھرتا خود یہ تجزیہ بیان کر رہے تھے کہ عمران خان نے معیشت میں بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں۔ اس صورت حال کو جلد از جلد ماضی کی داستان بنانے کی غرض سے میں جنیوا میں جو کانفرنس منعقد ہوئی اس میں مرکزی نکتہ تو پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے امداد فراہم کرنا تھا۔

حکومت نے اس حوالے سے اچھا نتیجہ حاصل کیا اور دنیا کی طرف سے مختلف معاشی مدد کے وعدے بھی کیے گئے اور اس ضمن میں پاکستان میں قائم دوست ممالک کے سفارتخانوں نے کلیدی کردار ادا کیا کہ انہوں نے پاکستان کی حالات کی درست منظر کشی کرتے ہوئے اپنے ممالک کو پاکستان کی ضروریات سے آگاہ کیا۔ مگر اب اس سے اگلا مرحلہ درپیش ہے کہ ان معاشی وعدوں کو حقیقت کے روپ میں کیسے لے کر آنا ہیں؟ کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ پاکستان کے مشکل حالات میں دنیا اس قسم کے وعدے کر تو لیتی ہے مگر اس کے بعد ایفائے عہد کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف بن جاتا ہے۔

اگر ہم افغانستان میں سوویت مداخلت کے وقت سے شروع ہو جائیں اور پھر مشرف کی آمریت کے دوران جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بول بالا تھا تک چلتے چلے تو دیکھیں گے کہ جو وعدے ہوئے ان میں سے تمام پورے تو کیا ہونے تھے بلکہ اوپر سے ڈو مور کا عذاب بھی جھیلنا پڑ رہا تھا۔ پھر جب مشرف کی آمریت اپنے انجام کو پہنچ گئی تو فرینڈز آف ڈیمو کریٹک پاکستان کے نام سے کانفرنس ہوئی وعدے ہوئے مگر وفا نہ ہو سکے۔ جہاں پر ان ادوار میں وعدے وفا نہ ہونے کا شکوہ دوست ممالک سے کیا جاسکتا ہے وہیں پر یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ ایسے وعدوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے جو صلاحیتیں درکار تھی وہ اس وقت کی پاکستانی حکومتوں کے پاس نہیں تھی۔

اس لیے بہت ضروری ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے ہر مرحلے کی حکمت عملی کو تیار کرے دوست ممالک کے مفادات اور ضروریات کا تجزیہ کیا جائے پاکستان میں موجود ممالک کے سفارت خانوں سے لے کر ان ممالک کے دارالحکومتوں تک میں موثر لابنگ کی جائے۔ تا کہ یہ معاشی تعاون حقیقت میں ڈھل جائے۔ یہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ہیں۔ دوست ممالک یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور وہ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہیں اقدامات کریں گے کیونکہ پاکستان میں اگر دوبارہ 2018 والا ہی کوئی کردار ادا کیا گیا، عمران پروجیکٹ کو پھر دوبارہ شروع کیا گیا تو ایسی صورت میں دنیا سے تعلقات ورکنگ ریلیشن شپ تک ہی محدود ہو جائیں گے کیونکہ انہوں نے سابقہ پی ٹی آئی حکومت کا قطر اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک کے ساتھ رویہ دیکھ لیا تھا۔ چین جیسا دوست ملک منہ تکتا ہی رہ گیا تھا اور جو سی پیک کا پہلا مرحلہ 2023 میں مکمل ہوجانا چاہیے تھا اس کے سب سے بڑے منصوبہ کا سابقہ حکومت کی پالیسی کی وجہ سے ابھی تک آغاز ہی نہیں ہو سکا ہے۔ ایسے سفارتی اور معاشی رویوں کی وجہ سے دنیا عمران خان حکومت پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں تھی اور نہ ہوگی۔

اگر پاکستان کی معاشی بحالی درکار ہے تو موجودہ سیاسی تسلسل ہی اس کی ضمانت بن سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ اگر صاف شفاف انتخابات کا انعقاد ہو گیا تو ایسی صورت میں پی ٹی آئی کے پاس رونے دھونے کے سوا اور کچھ نہیں بچے گا۔

ان حالات میں موجودہ حکمران جماعتوں کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ذمہ دارانہ سیاسی رویہ اختیار کریں اور اگلے سیاسی دنگل کے لئے اپنے آپ کو مکمل طور پر تیار کر لیں۔ مریم نواز کی آمد اس سلسلے کی ایک کڑی محسوس ہوتی ہے کیونکہ حکومت میں ہونے کے سبب سے وزیراعظم شہباز شریف کے لیے تنظیم سازی اور جلسے جلوس کی طرف متوجہ ہونے کے لیے وقت نکالنا کافی مشکل ہو گا۔ نواز شریف کی وطن آمد سے قبل سیاسی اور قانونی معاملات پر تمام تیاریاں مکمل ہونی چاہیے تاکہ سیاسی فضا شفاف مقابلہ کے لئے تیار ہو۔

مسلم لیگ نون کو تنظیمی طور پر ابھی مسائل درپیش ہیں۔ بہت سارے عہدوں پر ابھی تک تقرریاں نہیں ہوئی ہیں۔ اسی لیے میڈیا محاذ پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کو بہت سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیکریٹری اطلاعات کے ہمراہ ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات اور اسی نوعیت کے عہدیداروں کی ایک پوری ٹیم موجود ہونی چاہیے جو کہ اپنے اپنے محاذ پر ڈٹ جائے۔ مریم نواز کی سیاسی مشکلات کو رفع کرنے کی غرض سے ان کی اپنی ایک پوری سیاسی ٹیم تیار ہو جانی چاہیے جو کہ تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ کیوں کہ اگلے انتخابات چاہے مرحلہ وار ہو یا یکمشت ان کا نتیجہ مثالی حاصل کرنے کے لئے مثالی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments