پھولوں کا شہر پھر لہو لہان


ایک زمانہ ہوا کرتا تھا کہ پشاور میں ہر دوسرے روز دہشت گردی کی واقعات رونما ہو رہے تھے۔ درجنوں لوگ مختلف جگہوں پر بم دھماکوں اور خودکش دھماکوں میں قتل ہو رہے تھے۔ یہ دھماکے کبھی مسجد پر ہوتے تھے تو کبھی عوامی جگہوں پر ایسے واقعات رونما ہو رہے تھے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ حالات بہتری کی طرف چلنے لگے۔ ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہوا جیسا کہ بڑے پراجیکٹ میں بی آر ٹی منصوبہ اور ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم قابل ذکر ہے۔

کھیل کے میدان آباد ہونے لگے۔ تعلیمی اداروں میں بھی سرگرمیاں اپنی ترتیب کے ساتھ رواں دواں تھی، بازاروں میں ہر دوسرے روز نئے نئے برینڈ اوپن ہو رہے تھے کہ اچانک ایک ایسا دہشت گردی کا واقعہ رونما ہو جاتا ہے جیسے ان ساری چیزوں کی مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ پولیس لائن جو کہ ریڈ زون مطلب سب سے محفوظ مقام تصور کیا جاتا ہے اس کے مسجد کی پہلی صف بندی میں ایک خودکش بمبار پہنچ کر دھماکے سے خود کو اڑا کر ساتھ درجنوں زندگیوں کو ختم کر دیتا ہے۔

تو اندازہ لگائیں کہ اس مملکت میں ایک عام شہری کس حد تک محفوظ ہے؟ یہ دہشت گردی کی کارروائی ملک کے تمام سیکورٹی اداروں پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتا ہے، جب عوام کو تحفظ دینے والے محفوظ نہیں تو عوام کی حفاظت کا ذمہ کون لے گا؟ دنیا کے ہر ملک کی اولین ترجیح اس کی اندرونی و بیرونی دفاع اور امن و امان کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جو کہ امن و امان ہر ملک کے لئے صف اول کی ضرورت ہوتی ہے اور امن پر کوئی بھی قوم کمپرومائز نہیں کرتا لیکن مملکت پاکستان میں پشتون وہ واحد بدقسمت قوم ہے جو کہ ستر ہزار قتل ہونے کے بعد آج بھی قتل ہو رہا ہے۔ اور ایک بھی مقتول کا قاتل ابھی تک معلوم نہیں ہوا۔ جبکہ صحابی چہارم کا قول ہے کہ جس مقتول کا قاتل نامعلوم ہو تو اس کا قاتل حاکم وقت ہوتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments