وجاہت مسعود، ہمیں بھی یہیں رہنا ہے


عزیز بھانجی زاہدہ رزاق عمرے پر تھی۔ مدینہ جانے کے لیے جو ٹیکسی لی اس کا ڈرائیور بنگلہ دیشی تھا۔ زاہدہ ملکی و غیر ملکی حالات و واقعات سے گہری دلچسپی رکھنے والی لڑکی ہے۔ پاکستان کا دو لخت ہونا اس کا گہرا دکھ ہے۔ اور یقیناً اس ٹیکسی ڈرائیور کا سر تا پا گہری نظر سے مشاہدہ کرنے میں بھی یہی جذبہ تھا۔ اس کا اعتماد، انگریزی بولنے میں روانی، شستہ انداز سب متاثر کن تھے۔ بنگلہ دیشی ہونے کا تفاخر لہجے سے چھلک چھلک پڑتا تھا۔

اپنے احساسات مجھ سے شیئر کرتے ہوئے وہ گلوگیر لہجے میں کہتی تھی۔

”جب قومیں ترقی کی جانب رواں ہوتی ہیں تو افراد کے لب و لہجے میں اعتماد اور انداز میں غرور کا سا چھلکاؤ فطری امر ہے۔ یہ ان کا وہ مان ہے جو ریاست اپنے شہریوں کو دیتی ہے۔“ میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تھے۔

” تم ٹھیک کہتی ہو۔ کئی بار انڈیا جانے کا سوچا مگر ہمت نہیں پڑی۔ کس منہ سے کسی کو اپنے پاکستانی ہونے کا بتاؤں گی۔ آج کل جس جس انداز میں اس کی مٹی پلید ہو رہی ہے وہ ہم جیسوں کو رلانے کے لیے بہت کافی ہے۔“

دل بہلانے کے لیے موبائل کھولا ہے۔ کسی دل جلے کی پوسٹ نظر سے گزری۔ مجیب الرحمن کی تیسری نسل اپنے لوگوں کو بلٹ ٹرین کا تحفہ دے رہی ہے اور بھٹو کی تیسری نسل سندھ میں آٹے کے لیے لوگوں کو لائنوں میں کھڑا کر رہی ہے۔

ملک جس نہج پر پہنچ گیا ہے اس کا احساس کسی کو ہے کیا؟ سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے لعن طعن کرنے اور گالی گلوچ میں جتے ہیں۔

دونوں بڑے پوتے ایچی سن کے ذہین ترین طالب علم ہیں۔ بڑا والا بڑا پڑھاکو ہے۔ اس کو جس قسم کے ٹائیٹلز سے نوازا جاتا ہے انہیں کیا لکھوں۔ ملک کی ایلیٹ کلاس کے بچوں کے نمائندہ۔

دونوں ابھی سے باہر کی یونیورسٹیوں کی کھوج میں ہلکان ہیں۔ کبھی بات کروں تو سنتی ہوں۔

”ارے دادو ہماری کلاس کا ہر لڑکا باہر جانے کے لیے پر تول رہا ہے۔ جب اور جس وقت جس کو موقع ملے گا اڑ جائے گا۔“ دکھ سے بھری لمبی سانس ہی نکلنی ہے نا اندر سے۔ کہ یہ میرا ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا سنتے ہوئے کان پک رہے ہیں۔

ایسے میں وجاہت مسعود تمہارا شکریہ کہ تمہارا کالم ”میں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیوں کیا۔“ ہم جیسے مایوس اور افسردہ لوگوں کے لیے ایک امید بھرا پیغام ہے۔ سردیوں کی ہڈیوں میں اتر جانے والی ٹھنڈ جسے بجلی کی آنیاں جانیاں اسے اور ظالم بنا دیتی ہیں۔ جب چولہے ٹھنڈے پڑے ہوتے ہیں۔ طبیعت میں چڑچڑا پن اور یاس کا زور ہو ایسے میں سر جھکا کر تاریخ کے آنگن میں جھانکتی ہوں اور خود سے کہتی ہوں۔ کون سے ملک ایسے ابتر حالات سے گزرے ہیں۔

ایک قطار لگ جاتی ہے۔ دور کے ملکوں کو چھوڑ کر ہمسائیوں کو دیکھتی ہوں۔
پہلا ہمسایہ روس آنکھوں کے سامنے ابھرا ہے۔ یہ 2006 ہے۔ پی آئی اے کے جہاز سے ماسکو جا رہی ہوں۔

نوے کی دہائی میں بار بار روس آنے والی ائر ہوسٹس ثمینہ نے بتایا کہ سرد جنگ کے اختتام پر روس میں غربت کا وہ حال تھا کہ اترنے سے قبل مسافر ہم سے بچی کچھی ڈبل روٹیاں، چاول، انڈے سبھی سمیٹ کر لے جاتے تھے۔ خدا گواہ ہے ان کے تھیلے بھرتے ہوئے میں خوف سے لرز لرز جاتی تھی۔ اس زبوں حالی کی دوسری کہانی صحافی انتونینا پاکستانی انجنئیر منصور کی بیوی سوویٹ ٹوٹنے اور لوگوں کے پسنے کی کہانی سناتی ہے۔ قیامت جیسے دن تھے۔

کھانے پینے کی چیزوں کے لیے لمبی قطاریں تھیں جنہیں دیکھ کر وحشت ہوتی تھی۔ روسی ایلیٹ کلاس روبل کو ڈالرز میں تبدیل کروانے کے لیے مری جا رہی تھی۔ لندن میں جائیدادیں خریدنے کا کام زوروں پر تھا۔ گورباچوف اور یلسن کے جھگڑے فوج کے اپنے لچ۔ مغرب اور آئی ایم ایف کے ہتھکنڈے، ذلیل ترین شرائط، اس پر یلسن کے چیپڑے انداز، لمبی لمبی تقریریں، کہیں بیوروکریسی کے لتے لے رہا ہے اور کہیں فوج کو رگید رہا ہے۔ بلے بلے کے نعرے لگوا رہا ہے۔ لوگوں کو بیوقوف بنا رہا ہے۔ فوج بے چین اور مضطرب ہے۔ یلسن ان کے لیے انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ اب ملکی صورت کا موازنہ کر لیں۔

انتونینا نے مجھے کمپیوٹر پر اس وقت کی تصویریں دکھا دکھا کر گنگ کر دیا ہے۔ ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لیے سٹوروں کے سامنے کھڑے بے بس اور پریشان حال لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں آج بھی دماغ کے کونے کھدروں میں پڑی بدن میں جھرجھری سی پیدا کرتی ہیں۔

دوسری تصویر میں گہرا یار چین ابھر کر سامنے آیا ہے۔ چار سال قبل گئی تھی۔ سچی بات ہے انیسویں صدی سے بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں تک امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ملک اسے بھوکے کتوں کی طرح بھنبھوڑ رہے تھے۔ قسمت اچھی تھی پھوٹ پڑ گئی تھی لالچیوں میں۔ وگرنہ تو مشرق وسطیٰ کی طرح ٹوٹے ٹوٹے ہو جانے تھے اس کے۔

1949 میں آزادی کے بعد بھی چین نصیب نہ ہوا۔ بھوک ننگ نے پیچھا نہ چھوڑا۔ ماؤ جیسے لیڈر کی غلط پالیسیوں نے بھی غریب کو زندہ درگور کر دیا۔

پھر کہیں قدرت مہربان ہوئی اور کیا ہوئی۔

اب ذرا اپنی صورت سے موازنہ کر لیں۔ فوج، سیاسی لیڈر اور حکمران، عدلیہ سبھوں کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کو دیکھ لیں۔ بڑے لوگوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو کہیں اس کے ڈیفالٹ ہونے سے کوئی پریشانی ہے۔ ہرگز نہیں۔ ڈالر نہیں مل رہا ہے نہ ملے۔ غریب کو اس سے کیا لینا دینا۔ امیر کا ڈالر محفوظ۔ پتی مہنگی ہو گئی ہے، گھی آٹے کے نرخ بڑھ گئے ہیں، پیاز مہنگا ہو گیا ہے، ایک دو کمرے میں جلتی بتی کے ریٹ بھی اوپر چلے گئے ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ زندگی رواں دواں ہے۔

ڈھابوں، نچلے، اوپر کے درجوں والے ریسٹورنٹوں میں حسب معمول رش ہے۔ شادیوں میں، مایوں، مہندی، بارات، ولیمے سب چل رہے ہیں۔ انتہائی غریبوں کے بھی امیروں کے بھی۔

زبانی کلامی مہنگائی کے رنڈی رونے بھی ہیں۔ کہیں شکر کے کلمات بھی ہیں۔ ایک قناعت پسند عورت نے کہا ہے۔ پیاز پہلے ہانڈی میں تین چار ڈالتی تھی اب ایک ڈالتی ہوں۔

ہم جیسے حساس لکھاری جنہیں اس صورت پر بہت پریشانی ہے ان کی بھی شامیں اپنے دوستوں کے ساتھ ہنسنے، باتیں کرنے گپیں لگانے میں گزرتی ہیں۔

واہ مولا میرے ملک کے رنگ۔ یہیں رہنا ہے ہمیں تو بھئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments