​معاشی مشکلات کا ذمہ دار


موجودہ حکومت اپنے زیادہ تر معاشی مشکلات کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہراتے ہیں۔ تحریک انصاف نے پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اسے پورا کرنے میں ناکام رہے۔ سیاست دانوں اور معاشی ماہرین کی بڑی تعداد کے الزامات مکمل طور پر بے بنیاد نہیں ہیں تاہم یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ پانچ سال سے بھی کم عرصے میں موجودہ تمام معاشی مسائل کا ذمہ دار صرف عمران خان کو ہی ٹھہرانا مناسب معلوم نہیں ہوتا، معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے دور میں پاکستان کی معیشت کو نقصان اٹھانا پڑا لیکن یہ بحران ایک بڑے ناقص نظام کی وجہ سے پیدا ہوا۔

پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے سکڑتے جار ہے ہیں، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو مصنوعی طور روکا گیا جس نے ابتر صورت حال میں اضافہ کر دیا اور غیر قانونی طریقے سے ترسیلات زر ہونے لگی۔ حکومت کو زر مبادلہ ملنے کا ایک ذریعہ بیرون ملک سے تارکین وطن کی جانب سے بھیجے والا زر مبادلہ ہے لیکن جب ڈالر اور روپے کی قدر میں بڑا فرق پیدا ہوا تو زیادہ منافع حاصل کرنے کے تناظر میں ہنڈی کے ذریعے زر مبادلہ بھیجے جانا لگا جس نے زر مبادلہ ذخائر میں مزید کمی ہوئی۔ برآمدات رک گئیں تو دوسری طرف حکومت نے زر مبادلہ بچانے کے لئے ایل سیز بند کیں جس سے ساڑھے 8 ہزار کنٹینر بندر گاہ میں پھنس گئے اور شپنگ کمپنیوں کے چارجز میں مسلسل اضافے سے بھی تاجروں میں ایک نئی تشویش ابھر کر آئی ہے۔

سال 2020 میں حزب اختلاف کی جانب سے حکومت کی معاشی پالیسیوں کی بد انتظامی پر احتجاج شروع ہوا اور ملک کی معاشی صورت حال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جانے لگا قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا، امور حکومت چلانے کے علاوہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے ماضی کی برطرف حکومت نے بڑے پیمانے پر قرض لیے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان کے ٹیکس کا نظام دولت مند طبقے کو ٹیکس دائرے میں لانے میں قریباً ناکام رہا ہے، صرف ایک فیصد پاکستانی ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ملک کا شمار دنیا میں سب سے کم ٹیکس ادا کرنے والے ممالک میں کیا جاتا ہے۔ اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ اشرافیہ کی پر تعیش درآمدات نے کھربوں ڈالر کے خرچ ہونے کا بوجھ غریب عوام پر پڑا۔

عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل ٹیکس چوروں اور بد عنوانیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ برطرف ہونے تک معاشی نظام میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے ان کے مالیاتی مشیر بار بار تبدیل ہوتے رہے اور بالآخر آئی ایم ایف سے رجوع کر لیا، یہ وہی عمران خان تھے جو ماضی میں کہتے رہے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ خود کشی کرلوں گا، لیکن آئی ایم ایف کے پاس جانا ان کی انتہائی مجبوری بن گیا، معاشی بحران کو حل کرنے کے لئے تاخیر کرنا معیشت پر ایک بھاری پتھر ثابت ہوا اور جب انہیں اس امر کا اندازہ ہوا کہ ان کے اقتدار کو خطرہ ہے تو عوامی مقبولیت کے حصول کے لئے آئی ایم ایف کی شرائط سے وعدہ خلافی کر کے نئی حکومت کے لئے دوہرے مشکلات کھڑے کر دیے۔

ادھر اتحادی حکومت کے بھی تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور مالیاتی بحران کو قابو کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں انہوں نے یہ کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ معاشی حالات اس قدر خراب ہوتے چلے جائیں گے۔ عمران خان کے دور حکومت میں کرونا نے تباہی مچائی اور اتحادی حکومت کو روس، یوکرین جنگ سے دنیا بھر کے ممالک کی طرح متعدد بحران کا سامنا ہوا۔ مہنگائی، افراط زر اور توانائی کے حصول کے لئے قلیل المدت پالیسی کے تحت ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح دوست ممالک سے قرضے حاصل کیے اور کسی نہ کسی طرح امور مملکت کو چلانے کی کوشش کی، لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے معاشی بحران کے اصل خطرے کا ادراک نہیں کیا اور فیصلہ سازی میں تاخیر سے کام لیا، جس کے نتیجے میں آج صورت حال یہ ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں، عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط کا بوجھ غریب اور متوسط طبقوں پر منتقل ہو گا۔

مہنگائی، افراط زر اور صنعتوں کی بندش سے بے روزگاری بڑھے گی۔ ان حالات میں بھی اشرافیہ کی عیاشیاں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی، کچھ وقت کے لئے حکومت نے پر تعیش اشیا کی درآمدات پر پابندی لگائی تھی لیکن بعد ازاں پابندی ہٹا دی گئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق خوردنی اشیاء کی درآمدات میں اضافہ ہوا، گزشتہ چھ ماہ میں 4 ارب 91 کروڑ خرچ ہوئے۔ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران موبائل فونز کی درآمدات کا حجم، 29 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ رہا۔

علاوہ ازیں 48 کروڑ ڈالر کی گاڑیاں درآمد کی گئیں صرف نومبر 2022 میں ایک اعشاریہ دو ملین کی 54 گاڑیاں درآمد کی گئیں، جس میں 8 لیکسس اور 46 لینڈ کروزر اور پراڈو شامل ہیں اعداد و شمار کے مطابق ابتدائی 6 ماہ کے دوران 193 نئی کاریں درآمد کی گئیں، ان میں سے 25 گاڑیاں 1000 سی سی سے 1800 سی سی کی تھیں جبکہ 4 گاڑیاں 1800 سی سی کی تھیں۔ جولائی اور دسمبر 2022 کے درمیان 164 لگژری الیکٹرک گاڑیاں درآمد کی گئی سب سے زیادہ اضافہ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں 3 برس پرانی لگژری گاڑیوں کی درآمدات میں دیکھا گیا، جولائی اور دسمبر 2022 کے دوران ایسی قریباً ایک ہزار 990 گاڑیاں درآمد کی گئی۔

سابق حکومت نے بھی ایمنسٹی پروگرام دیے لیکن اس کے اثرات بھی مفید ثابت نہیں ہوئے۔ کالا دھن کو سرمایہ کاری میں لگنا چاہیے تھا لیکن بدعنوانیوں اور کرپشن سے جمع کالا دھن کو قانونی بنا لیا گیا۔ یہ اشرافیہ کے لئے ایک ایسا این آر او تھا جس نے مملکت کے معاشی نظام مزید کمزور کیا پاکستان اپنی کمزور معیشت میں طاقتور معاشی اشرافیہ کے چکر میں پھنس گیا ہے، اشرافیہ کے مفادات غریب عوام پر بھاری ہوچکے ہیں۔ ملک مسلسل قرضوں میں ڈوب رہا ہے اور آہستہ آہستہ تباہی کی جانب جا رہا ہے۔

ترسیلات زر کے لئے حوالہ اور ہنڈی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا ہو گا۔ ڈالر کو مصنوعی طریقے سے منجمد کرنے کے روایتی طریقوں کو ترک کر دینا چاہے اس کا نقصان پوری مملکت کو ہوتا ہے۔ پر تعیش اشیا کی درآمدات پر پابندی عائد کی جائے، مہنگی گاڑی یا موبائل سے کسی کا شوق تو پورا ہو سکتا ہے لیکن جان بچانے والے ادویات و ضروری طبی آلات کی کمی سے انسانی قیمتی جانوں کا نا قابل تلافی پورا نہیں کیا جا سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments