استعماری فوج سے قومی ادارے تک کا سفر! (8)


بہاولپور حادثے کے بعد چیئرمین سینٹ نے صدر مملکت اور جنرل بیگ نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔ ملک میں نئے انتخابات کا اعلان ہوا۔ انتخابات کے نتیجے میں سویلین وزیر اعظم کے منتخب ہو جانے کے بعد وردی پوش حکمرانی کی جگہ ’اقتدار کی تکون‘ نے لے لی۔ نوے کی دہائی کی تاریخ ابھی کل کی بات ہے، لہٰذا یہاں دہرائے جانے کی محتاج نہیں۔ تاہم سیاسی بے یقینی، لوٹا کریسی، مالی بدعنوانی، خام ریاستی پالیسیوں اور ان سب کے نتیجے میں زندگی کے ہر شعبے میں رونما ہونے والے زوال کو سامنے رکھتے ہوئے اس عشرے کو جب ’عشرۂ زیاں‘ کہا جاتا ہے تو ایسا کچھ بلا وجہ نہیں ہے۔

سیاسی رہنماؤں کی جانب سے جمہوری اصولوں اور سیاست میں اخلاقیات کی پامالی، مالی لوٹ مار اور مافیا طرز حکمرانی کو فروغ دینے کی بناء پر اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔ اس امر پر ضرور دو آراء ممکن ہیں کہ ایسا ہونا سیاست دانوں کی اپنی ناکامیوں کا نتیجہ تھا یا کہ اسٹیبلشمنٹ شعوری طور پر اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ واضح برتری کے باوجود بے نظیر بھٹو کو پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پراعتماد کا ووٹ لینے کی دعوت اسی وقت ملی جب وزارت خارجہ سمیت اہم عہدوں پر فائز ہونے والوں کے کہیں اور سے دیے گئے نام انہوں نے قبول کر لئے۔

بے نظیر بھٹو کو اقتدار تو سونپ دیا گیا تاہم ان کے ساتھ برتاؤ میں بھروسے کا فقدان نمایاں رہا۔ منتخب وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد لائے جانے کے لئے باقاعدہ آپریشن کے ذریعے خفیہ منصوبہ بندی کی گئی۔ اس باب میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر میاں نواز شریف پر اسامہ بن لادن سے فنڈز وصول کیے جانے کا الزام آج بھی دہرایا جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بے نظیر کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لئے نواز شریف ہی کی سربراہی میں آئی جے آئی بھی ’انجنیئر‘ کی گئی تھی۔

جنرل اسلم بیگ کے طرزعمل کی بناء پر ہی سیاسی حکومت نے کامیاب چال چلتے ہوئے ان کی ریٹائر منٹ سے کئی ماہ قبل نئے آرمی چیف کا تعین کر دیا۔ جنرل آصف نواز سینڈ ہرسٹ کے گریجوایٹ اور عسکری پس منظر رکھتے تھے۔ ان کا پہلا فرمان امروز فوجی روایات کی طرف لوٹنے کی ان کی خواہش کا مظہر تھا۔ فوج کو نمائشی مظاہروں، پروٹوکول اور سٹاف ڈیوٹیز میں اپنائے جانے والے ’زیرو ایرر سنیڈروم‘ کی بجائے Realism پر مبنی ایسی پیشہ وارانہ قابلیت کے حصول کی ضرورت پر زور دیا گیا کہ جس میں انسانی غلطیاں نہ صرف قابل قبول ہوں بلکہ بالآخر مقامی کمانڈرز ان کی ذمہ داری بھی خود قبول کریں۔

سیاسی معاملات سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ شہری سندھ میں حکم ملنے پر ایک بے لاگ آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کی کمر توڑ دی گئی۔ آپریشن کے ثمرات بعد ازاں سیاسی مصلحتوں ہی کی نذر ہو گئے۔ افغان سیکیورٹی پالیسی کو ازسر نو استوار کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پاک، بھارت افواج کے مابین پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں والے ان تعلقات کو بحال کرنے کی شعوری کوششوں کا آغاز ہوا جو متحارب مگر پروفیشنل افواج کے مابین معمول کی بات سمجھے جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے دوسری جانب ہماری سیاسی قیادت سپہ سالار کو نا صرف سیاسی الجھنوں میں الجھاتی رہی بلکہ دام میں پھنسانے کے لئے انہیں رشوت پیش کرنے جیسی بھونڈی حرکتیں بھی دیکھی گئیں۔ فوج میں ’اپنے بندوں‘ کی ترقیوں کے لئے سفارشوں تک سے اجتناب نہ کیا گیا۔

جنرل آصف نواز کے اچانک انتقال کے بعد آنے والے آرمی چیفس نے سیاسی رہنماؤں کی باہم چپقلش، مالی کرپشن کی داستانوں اور ایک دوسرے کو گرانے کی کوششوں کے باوجود سیاست میں ’براہ راست‘ مداخلت سے گریز کیا۔ جنرل کاکڑ کا نام تاریخ میں ہمیشہ ایک پروفیشنل سپاہی کے طور پر لیا جائے گا۔ تاہم ہم ان کے دو رکے واقعات کو دہرانے سمیت، جنرل کرامت کے نا مناسب استعفے، جنرل مشرف کی تعیناتی، کارگل جنگ اور بعد ازاں جنرل مشرف کے مارشل لاء اور ان کے دور اقتدار کی روداد جیسے معاملات سے صرف نظر برتتے ہوئے اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہیں کہ یہیں سے پاکستان آرمی کی ایک نئی نسل وجود میں آتی ہے۔

جری، مستعد، سر فروش اور عشروں سے ادارے پر لگنے والے دھبوں کو اپنے خون سے دھونے والی نسل۔ سوات اور دیگر قبائلی علاقوں میں جب طالبان دہشت گردوں نے نوجوان افسروں اور جوانوں کے گلے کاٹنے اور لاشوں کی بے حرمتی کا سلسلہ شروع کیا تو پاک فوج کے نوجوان افسروں نے پسپا ہونے کی بجائے، آگے بڑھ کر جنگ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ دنیا کی عسکری تاریخ ایسی کسی بھی بے چہرہ جنگ میں ریاستی افواج کی متحیر کر دینے والی قربانیوں اور کامیابیوں کی خیرہ کن داستان سے خالی ہے۔

یہ داستان مگر شہیدوں کے خون سے لکھی گئی تھی۔ ہر دس شہید ہونے والوں میں ایک نوجوان افسر شامل تھا۔ کئی ایک زندہ رہتے تو آج جرنیل ہوتے۔ جنرل ہارون اسلم جیسے کمانڈرز سفاک دہشت گردوں سے لدی وادیوں میں اترنے والے ہراول دستوں کا حصہ تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں پاک فوج کا کوئی ایک جرنیل، افسر اور جوان ایسا نہیں کہ جو گزرے بیس برسوں میں آگ اور خون کے دریا کو تیر کر نہ گزرا ہو۔ ملک کے اندر کوئی قبرستان ہی ایسا ہو گا کہ جہاں کوئی شہید ابدی نیند نہ سو رہا ہو۔

کوئی خاندان ہی بچا ہو گا کہ جس کا تعلق کسی غازی سے نہ جڑتا ہو۔ بیرونی محاذ پر پاک افواج نے سفاک دشمن کے خلاف جنگ یوں جیتی کہ دنیا ششدر رہ گئی۔ ملکوں ملکوں عسکری اداروں میں جسے نصاب کے طور پڑھایا جاتا ہے۔ دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں سے نبرد آزما افواج پاکستان کو اسی دور میں مگر ایک اور بے چہرہ دشمن کا بھی سامنا تھا۔ یہ بے چہرہ دشمن کوئی اور نہیں، معاشرے کے ہر شعبے میں موجود ففتھ جنریشن جنگ کے ’ففتھ کالمنسٹ‘ اور ’جمہوریت پسندی‘ کا نقاب اوڑھے مغربی طاقتوں کے مقامی کارندے تھے۔

یہ بے چہرہ جنگ بالآخر ہم نے جیتی یا ہاری، اس کا فیصلہ تاریخ کو کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھتر برس پہلے برٹش انڈین آرمی سے ٹوٹ کر عشروں پر محیط مد و جزر کا سفر طے کرنے کے بعد پاک آرمی ایک جری لڑاکا فورس اور ایک قومی ادارے کا روپ دھار چکی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ ایک قومی ادارہ کب تک قومی امنگوں سے لاتعلق رہ سکتا ہے؟ لہو سے رقم ہماری تاریخ ہمیں کیا سبق سکھاتی ہے؟ وقت کچھ ایسا آن پڑا ہے کہ دور حاضر پر جس قدر کم لکھا اور بولا جائے، ایک از کار رفتہ سپاہی کے حق میں اتنا ہی بہتر ہے۔

موسم بہار، موسم بہار کے بعد چلچلاتی گرمیوں، گرمیوں کے بعد لہو جما دینے والی سردیوں کی طویل تر ہوتی چلی جانے والی راتوں، اور ان تاریک سرد راتوں کے اندر عوام کو ایک بار پھر حق رائے دہی سے محروم رکھے جانے کی خاطر بنی جانے والی سازشوں کی دل دوز داستان، پچاس برس بعد تو کوئی لکھے گا۔ ہم کہانی یہیں ختم کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments