سب رنگ پاکستان، ثقافتی تقریب


دنیا بھر میں ترقی یافتہ اقوام کی اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام اقوام نے اپنے کلچر، تہذیب، رسم و رواج، زبان اور نظریہ سے پیار کیا۔ یہ اقوام ہماری طرح آدھا تیتر آدھا بٹیر نہیں بنیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ماڈرن ہونے سے مراد دوسری اقوام کا لباس، زبان اور تہذیب اپنانا ہے۔ ہم اپنی تہذیب پر فخر محسوس کرنے کے بجائے نام نہاد ماڈرن ہونے کو فوقیت دیتے ہیں۔ یہ حال صرف اہل پاکستان کا نہیں بلکہ بنگلا دیش اور ہندوستان کا بھی یہی المیہ ہے کہ دوسروں کے رسم و رواج کو خود سے بہتر سمجھنا قابل فخر سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ ذہنی غلامی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

کچھ عرصہ قبل کلچرل ڈے منانے کا آغاز ہوا۔ یہ آغاز سندھ کی ثقافت کو اجاگر کر کے کیا گیا بعد میں پختون، اردو بولنے والوں، ہزارے وال، سرائیکی، پنجابی، بلوچی اور دیگر اقوام نے بھی اپنے اپنے ثقافتی دن منانے شروع کیے ۔ یہ امر قابل تعریف ہے لیکن اگر اس میں اجتماعیت کو شامل کر لیا جائے اور پورا ملک ایک ہی دن مل کر تمام اقوام کا مشترکہ ثقافتی دن منائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ ساتھ ہی اگر تفریح، ریلیوں اور اجتماعات کے ساتھ نئی نسل کو اپنے اجداد، ماضی اور قربانیوں کے متعلق بھی روشناس کیا جائے تو سونے پر سہاگا ہو جائے لیکن نہ اس قوم کو کوئی ایک ہونے دیتا ہے اور نہ یہ خود ایک ہونا چاہتی ہے۔

گزشتہ دنوں کراچی کے چند تعلیمی اداروں نے اس بات کا بیڑا اٹھایا۔ کراچی میں واقعہ ان تعلیمی اداروں نے ثقافتی دن کی تقریب کا انعقاد کیا۔ تقریب کا مقصد پاکستان کے تمام صوبوں سمیت گلگت بلتستان اور جنت نظیر وادی کشمیر کی تہذیب اور رسم و رواجوں کو اجاگر کرنا تھا۔ تعلیمی اداروں کی جانب سے مختلف ہالوں کو سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخوا، کشمیر اور گلگت کا نام دیا گیا تھا۔ صوبوں کی نمائندگی کرتے ان ہالوں میں روایتی لباس، طرح طرح کے کھانے، برتن اور دیگر سامان سجایا گیا۔

سب سے خاص بات یہ تھی کہ جس صوبے کا نام ہوتا وہاں موجود ننھے بچے اسی علاقے کے روایتی لباس میں نظر آتے۔ ہمیں وہاں پشاور کی شال، سندھ کی اجرک، سرائیکی وسیب کی نیلی اجرک، پشاوری چپل، بلوچوں کی شان ان کی پگڑی، پٹھانوں کی کراکلی ٹوپی، پنجاب کی پگ اور لنگی، کشمیر کی گرم چادر اور گلگت کے روایتی کوٹ سب ہی دکھائی دیے۔ طلبہ کو ان لباسوں کے بارے میں معلومات بھی دی گئی۔ آپ جس طالب علم سے اس کے لباس کے متعلق پوچھیں تو بتاتا تھا کہ میرا تعلق کس صوبے سے ہے اور میرا لباس کیا ہے ہمارے ہاں مرد کیا پہنتے ہیں بچے کیا پہنتے ہیں، خواتین کیسے سنگھار کرتی ہیں غرض یہ بچے آج پاکستان کے سب رنگ بکھیرتے نظر آرہے تھے۔

ثقافتی دن کی اس تقریب میں ہر صوبے کے روایتی کھانوں سے سجا دسترخوان بھی موجود تھا۔ ان دسترخوانوں پر کوئی ولایتی کھانا، فاسٹ فوڈ یا چائنیز نظر نہیں آیا۔ پاکستان کے دیسی و خوبصورت کھانے ان دسترخوانوں کی زینت بنے ہوئے تھے۔ کہیں چپلی کباب، پلاؤ، نمکین روش، پکوڑا کڑی، کلچے، پکوان اور قہوہ مہمانوں کو پیش کیا گیا تو کہیں بھنے، ساگ، مکئی کی روٹی، بریانی، شامی کباب اور پان نظر آئے۔ بچوں نے سجی، سویوں، کھیر، مچھلی، پکوڑوں، دال چاول اور لسی ستو سے بھی مہمان نوازی کی۔ آپ جس بھی صوبے کے ہال میں جائیں وہاں موجود بچے، اساتذہ اور منتظمین وہیں کے انداز اور علاقائی زبانوں میں خوش آمدید کہتے تھے۔ ان ننھے پھولوں کی زبان سے وش آتکے، ہر کدے آؤ، پخیر رغلے اور بھلی کرے آیا کیا ہی خوب لگ رہا تھا۔ یقین جانیں یہ دن اور تقریب حب الوطنی کی عظیم مثال پیش کر رہے تھے۔

اس تقریب میں تصویری نمائش کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جہاں تحریک آزادی کے رہنماؤں اور ہر صوبے کے نامور سیاستدانوں، شاعروں، کھلاڑیوں اور شہدا کی تصاویر آویزاں تھیں۔ دیواروں کو قائداعظم محمد علی جناح، شاہ عبدالطیف بھٹائی، ہوشو شیدی، پیر صبغت اللہ شاہ راشدی سوریا بادشاہ، پیر صاحب پگارا پیر مردان شاہ، بے نظیر بھٹو، بلے شاہ، میجر عزیز بھٹی شہید، کیپٹن کرنل شیر خان شہید، ایم ایم عالم، انور مسعود، انور مقصود، میر ظفراللہ خان جمالی، زبیدہ جلال، جان شیر خان، شاہد خان آفریدی و دیگر کی تصاویر ست سجایا گیا تھا۔ ان تصاویر کے ساتھ ساتھ ان کے متعلق معلومات بھی درج تھی جو کہ طلبہ کو زبانی یاد تھی۔ مزے کی بات یہ تھی کہ تصویری نمائش میں موجود طالب علم کشمیر کے حریت رہنماؤں یاسین ملک، سید علی گیلانی، برہان وانی شہید اور میر واعظ عمر فاروق کی تاریخ و خدمات سے بھی بخوبی واقف تھے۔

بلا شبہ اس دور میں نئی نسل کو اپنے حقیقی کلچر اور اصل ہیروز سے روشناس کرانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں کام کرنے والے افراد اور تعلیمی ادارے داد کے مستحق ہیں۔ حکومت کو ایسے اداروں کے سرپرستی کرنا چاہیے تاکہ نوجوانوں اور بچوں میں اپنی تاریخ، اپنے رسم و رواج اور اپنے اکابر کی محبت کو اجاگر کیا جا سکے۔ ایسی تقریبات کو کسی ایک علاقہ یا چند مخصوص اداروں تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ایسی تقریبات کا انعقاد تمام تعلیمی اداروں میں ہونا چاہیے اور حکومت کو ان کی سرپرستی بھی کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments