بھورا صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑتا


جس نہج پر ملک پہنچ چکا ہے وہ نادر شاہ کے حملوں کے بعد کے ہندوستان کا لگ رہا ہے۔ مماثلت یہ ہے کہ حکمران بے ایمان، کرپٹ، خودغرض، بے حس، نکمے، کوتاہ نظر، اور غدار ہیں۔ فرق یہ ہے کہ حملہ گھوڑوں، تلواروں اور ہتھیاروں سے نہیں بلکہ سوچ اور پیسہ کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔

دور، حالات اور ماحول سے ایسا لگ رہا ہے کہ جہاں آپ مقتدر طبقہ کے بارے خیال رکھ سکتے ہیں کہ وہ خدا، روز محشر اور حساب کتاب پر ایمان نہیں رکھتے۔ ان کا قبلہ و کعبہ صرف مال و زر ہے۔ ان کا خدا ان کی نفس ہے۔ اور ان کا مقصد حیات پیسہ اور سونا جمع کرنا ہے۔

یہ وہ طبقہ ہے جو انگریزوں کے دور میں بھی کسی نہ کسی طرح برسراقتدار تھا اور اپنے ہی عوام کو رعایا سمجھ کر اس پر ظلم کرتا تھا اور آزادی کے بعد بھی اس نے پورے نظام پر قبضہ کر لیا۔

عوام کی حالت زار جوں کی توں رہی اور اس نے مال و زر کے انبار لگا دیے، سمندر پار جزیرے و محل خریدے کاروبار بنایا اور فیکٹریاں کھڑی کی۔

اس پر ستم یہ ہوا کہ مذہب و دین جو کہ عام انسان کی عزت، دولت، غیرت، امید، ایمان، اور اس کی عزت نفس کا محافظ تھا اور اس کی زندگی گزارنے کا مقصد اور سہارا تھا اسے بھی اس طبقہ اشرافیہ نے جہاد کے نام پر ڈالر کی لالچ میں عالمی ہوس پرستوں کے ساتھ مل کر بدنام کیا۔ اسلام کا چہرہ مسخ کیا اور لوگوں کا اسی اسلام کے نام پر قتل کیا۔ جہاد جیسے فلسفہ دین کو دہشتگردوں کی پرورش اور علمائے سو کی نمائش کے لئے استعمال کیا۔

ستم ہائے ستم ہی کہیے کہ اوپر سے انقلاب زمانہ نے یک لخت کروٹ بدل لی اور علم و آگہی کے ذرائع میں بے پناہ اضافہ ہوا جس میں مذہب دور کا ایک خیال اور قدما کا محض ایک ازکار رفتہ فلسفہ لگنے لگا خدا اور مذہب صرف معاشرتی اور سماجی ضرورت کے استعمال کے لئے رہ گئے۔ وائٹ ہاؤس سے آئی ہوئی ہدایت کے مطابق جہاد کی فیکٹریاں بنائی گئیں جس کا ایندھن انسان اور لوہا بنا اور جس کا شکار طرفین میں مسلمان اور اسلام بنے۔ دین و مذہب کا ایک مسخ شدہ پرتشدد چہرہ دنیا کو دکھایا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے سے اقدار اٹھ گئیں۔ منافقت نے ایمان کی جگہ لے لی پیسہ روپیہ نے خدا کی، الحاد نے دین کی اور بے حسی، بے رحمی اور لالچ نے خوف خدا کی۔

کوئی زمانہ زمین کے سینے پر ایسا نہیں گزرا ہے جس میں حکمران طبقہ نے رعایا پر رحم کھایا ہو۔ تاریخ گواہ ہے عوام قوم صرف اور صرف اس وقت بنتی رہی ہے جب وہ اپنے حقوق کا شعور رکھتے ہیں اور اس کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں وہ قوم ترقی یافتہ قوم بننے سے پہلے کسی کے رعایا تھیں لیکن شعور و آگاہی نے ان کو جدوجہد پر ابھارا اور قربانی دے کر ہی وہ رعایا سے قوم بنی۔

یہاں مگر ستم یہ ہے کہ ہزار سال غلامی کی زندگی گزارنے کی وجہ سے عوام حق، جدوجہد، اور آزادی کے صحیح مفہوم سے واقفیت نہیں رکھتے۔ 1947 ء میں گورے صاحب چلے گئے اور ان کی جگہ ان کے گماشتے بھورے صاحبوں نے لے لی۔ گورے مال و دولت لوٹتے تھے بھوروں نے اقدار کا بھی سودا کیا۔

ملک ڈیفالٹ کر رہا ہے، غربت بڑھ رہی ہے، اشیاء ضروریہ ناپید ہیں، لوگ بھوکے ہیں اشرافیہ کو اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ملک ٹوٹ بھی جائے تو ان کو کیا فرق پڑتا ہے؟ ملک کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ گیا کیا کوئی فرق پڑا؟ نہیں ہرگز نہیں۔ جن کی دولت ڈالروں اور پاونڈز میں پہلے ہی باہر پڑی ہو ان کو مہنگائی سے کیا فرق پڑ سکتا ہے۔ جن کے بیوی بچے گھر گھرانا باہر ہو ان کو کیا فرق پڑ سکتا ہے۔

یہ تو وہی طبقہ ہے جسے گورے جاتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑ کر گئے ہوئے تھے۔ گورا صاحب تو چلا گیا مگر بھورا صاحب کبھی نہیں گیا۔ وہ لوٹ مار میں مصروف ہے۔

اور فرق یہ ہے کہ اس لوٹ مار میں مال و زر کے علاوہ دین و اقدار بھی شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments