آل پارٹیز کانفرنس: قومی اتحاد کا ناکام تجربہ ثابت ہوگی


وزیر اعظم شہباز شریف نے آئندہ منگل کو اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں تحریک انصاف سمیت تمام پارٹیوں کے قائدین کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اگرچہ عمران خان یا تحریک انصاف نے یہ سطور لکھے جانے تک اس دعوت کا باقاعدہ جواب نہیں دیا تھا لیکن پارٹی کے قائدین شاہ محمود قریشی اور اسد عمر نے یہی تاثر دیا ہے کہ عمران خان اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔ اگرچہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے فیصلہ پارٹی اجلاس میں کیا جائے گا۔

اس سے پہلے وزیر اعظم نے تحریک انصاف کی قیادت کو آج پشاور میں ہونے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی تھی۔ تاہم جس ماحول میں حکومت کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس میں عمران خان کو مدعو کیا گیا اور حکومت اور سابق حکمران جماعت کے درمیان جو معاندانہ رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ملکی سیاست دان ابھی بلوغت کی اس سطح تک بھی نہیں پہنچے کہ اہم معاملات پر اتفاق رائے تو بہت دور کی بات ہے، وہ ایک کمرے یا ایک میز پر بیٹھ کر ایک دوسرے کی بات سن ہی سکیں۔

یہ سوال اپنی جگہ پراسرار اور ناقابل فہم ہے کہ شہباز شریف کو اچانک براہ راست عمران خان کو سیاسی مکالمہ کی دعوت دینے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ تو طے ہے کہ یہ اقدام نہ تو اتحادی حکومت میں شامل سیاسی پارٹیوں کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے اور نہ ہی اس بات کا امکان ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے اس مکالمہ کا اہتمام کرنے کا ڈول ڈالا ہے۔ وگرنہ عمران خان 2014 کی طرح ’تاحیات‘ دیے جانے والا دھرنا ختم کر کے قومی دھارے میں شامل ہونے پر آمادہ ہونے میں دیر نہ لگاتے۔

عمران خان موجود حکومت اور اس کی قیادت کے خلاف نفرت و حقارت پر مبنی شدید رویہ رکھتے ہیں اور اسے جعلی یا درآمد شدہ حکومت قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے متعدد مراحل پر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں اور ان سیاست دانوں کے ساتھ مکالمہ نہیں کریں گے جنہیں وہ خود اپنے الفاظ میں ’چور لٹیرے‘ سمجھتے ہیں۔ یہ افسوسناک سیاسی رویہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں نفرت کی فضا پیدا ہوئی ہے اور باہمی مواصلت و مفاہمت کے امکانات ختم کیے گئے ہیں۔ تاہم دوسری طرف وزیر اعظم اگرچہ پہلے ’میثاق معیشت‘ کی بات کرتے رہے ہیں اور سیاسی ڈائیلاگ کے اشارے بھی دیتے رہے ہیں لیکن شہباز حکومت نے تحریک انصاف کے قائدین اور ان کے حامی صحافیوں کے ساتھ ریاستی طاقت کو استعمال کرنے کا ہر طریقہ بھی استعمال کیا ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے فواد چوہدری کی رہائی کے بعد شیخ رشید کی اچانک گرفتاری سے یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت تحریک انصاف اور اس کے حامیوں کو زچ کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ شہباز گل، اعظم سواتی سے لے کر فواد چوہدری تک سب لیڈروں کو عدالتوں سے ریلیف ملتا رہا ہے۔ شیخ رشید کو بھی غالباً جلد ہی ضمانت دے دی جائے گی۔ شاید اسی لئے انہیں اب کراچی کے ایک مقدمہ میں نامزد کر کے وہاں منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان سب حرکتوں سے حکومت کی نیک نیتی کی بجائے بدنیتی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اور کوئی سیاسی مکالمہ بدنیتی، بداعتمادی اور نفرت و اشتعال کے ماحول میں ممکن نہیں ہوتا۔

بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم آل پارٹیز کانفرنس میں پارٹی قائدین کو مدعو کرنے سے پہلے اعتماد سازی کے اقدامات کرتے اور کم از کم حکمران جماعتوں کی حد تک یہ تاثر قوی کرنے کی کوشش کی جاتی کہ ملک کو معاشی بحران کے علاوہ دہشت گردی کے حوالے سے جس خوفناک چیلنج کا سامنا ہے، اس میں قومی مکالمہ ہی اتحاد و یک جہتی کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔ تاہم ایک طرف عمران خان کو ایسے تمام قومی لیڈروں کے ساتھ بات چیت کے لئے مدعو کیا جا رہا ہے جنہیں وہ تمام قومی مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف ہر سطح پر کردار کشی کی مہم دیکھنے میں آ رہی ہے۔

بدنصیبی سے خود وزیر اعظم اس مہم جوئی میں پیش پیش رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے حالیہ نویں جائزہ کے لئے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور دیگر سخت معاشی فیصلوں تک کی ذمہ داری براہ راست تحریک انصاف پر عائد کی جاتی ہے۔ وزیر اعظم، وزیر خزانہ، وزیر اطلاعات اور وزیر داخلہ کے علاوہ اب مریم نواز نے بھی اپنی سیاسی مہم کا آغاز عمران خان پر حملہ آور ہو کر کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) عمران خان پر یہ الزام تو عائد کرتی رہی ہے کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد بھی ’کنٹینر پر ہی کھڑے رہے تھے‘ لیکن خود موجودہ سیاسی قیادت کا یہی عالم ہے کہ وہ اپنی ہر ناکامی کا الزام سابقہ حکومت پر عائد کر کے، کسی بھی طرح سرخرو ہونا چاہتی ہے۔ شہباز شریف حکومت کے سربراہ ضرور بن گئے لیکن ان کا لب و لہجہ اور طرز تخاطب بدستور اپوزیشن لیڈر والا ہے جو مخالف فریق کا احتساب چاہتا ہے لیکن اپنی غلطیوں کا حساب دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔

آج ہی ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کی جو تقریر رپورٹ ہوئی ہے، اس میں کسی ٹھوس قومی حکمت عملی، طریقہ کار اور حکومتی اقدامات کا تو کوئی نشان نہیں ملتا لیکن انہوں نے اس سوال پر اصرار کیا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے خیبر پختون خوا حکومت کو 417 ارب روپے دیے گئے تھے، ان کا کیا بنا۔ وزیر اعظم کے بقول اگر ان میں سے نصف رقم بھی انسداد دہشت گردی کے کام پر صرف کی جاتی تو صوبے کے لوگ محفوظ ہوتے۔

شہباز شریف کا یہ بیان سیاسی الزام تراشی سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اے پی سی میں تحریک انصاف کے قائد کو شرکت کی دعوت دینے والے وزیر اعظم ایپکس کمیٹی جیسے اہم قومی فورم پر صوبے میں تحریک انصاف کی قیادت پر شدید مالی بدعنوانی کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وفاقی حکومت واقعی یہ سمجھتی ہے کہ صوبائی حکومت نے ایک خاص مد میں فراہم کیے گئے وسائل خرد برد کرلئے تھے تو وفاقی حکومت کے پاس متعدد ایسے قانونی ادارے اور ذرائع موجود ہیں جنہیں بروئے کار لاکر ایسے معاملہ کی تہ تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اور قومی حفاظت کے معاملہ میں غفلت برتنے والے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ لیکن جب حکومتی سربراہ ایسے سنجیدہ مسئلہ پر بھی لفاظی سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو خیر سگالی کی فضا کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔

خیبر پختون خوا کی حکومت پر بالواسطہ الزام تراشی کے علاوہ وزیر اعظم اور ان کے ساتھی پشاور سانحہ کے بعد تسلسل سے عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت پر دہشت گردوں کے ساتھ ساز باز کرنے اور مذاکرات کے بہانے انہیں ملک میں واپس لانے کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ ایسے ہی جوابی الزامات عمران خان کی طرف سے موجودہ حکومت پر عائد کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ دونوں کو معلوم ہے کہ اسلحہ بردار جنگجو گروہوں کے ساتھ معاملات طے کرنے، مواصلت یا ان کی سرکوبی کا فیصلہ کرنے کے تمام اختیارات کسی سیاسی لیڈر کے پاس نہ کبھی رہے ہیں اور نہ ہی اب موجود ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ پشاور سانحہ کے بعد پارلیمنٹ ایک بے بس ادارہ بنا ہوا ہے جس میں کبھی وزیر دفاع الفاظ سے جعلی تصویر کشی کرتے ہیں اور کبھی پیپلز پارٹی کے قائدین کسی بھی طرح سابقہ سیاسی قیادت پر ذمہ داری ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ اس پالیسی کو تیار کرنے میں جن فوجی افسروں کا کردار رہا ہے، ان کا احتساب کیا جائے اور جواب طلب کیا جائے۔ خواہ وہ اس وقت وردی میں خدمات سرانجام دے رہے ہوں یا پھر اپنے عہدوں سے ریٹائر ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد ان سیاسی لیڈروں کی بات کی جائے جو سیاسی مفادات کے لئے فوجی قیادت کے سامنے سرنگوں رہتے ہیں۔

ملک کو دہشت گردی کے حوالے سے جس صورت حال کا سامنا ہے، اسے حل کرنے کے لئے بنیادی حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ کو نہ صرف با اختیار فورم بنانا پڑے گا بلکہ سیاسی پارٹیوں کو اپنے ارکان کی علمی و عملی تربیت بھی کرنا پڑے گی تاکہ وہ حساس موضوعات پر مسائل کو علاقائی اور عالمگیر تناظر میں پرکھ کر ملک و قوم کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرسکیں۔ کیا شہباز شریف بتا سکتے ہیں کہ کئی درجن افراد پر مشتمل ان کی کابینہ اور قومی اسمبلی و سینیٹ میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو دفاعی و سلامتی امور پر دسترس رکھتے ہیں اور خطرات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ایسے میں معاملات کی خرابی کی ساری ذمہ داری عسکری قیادت پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ جب سیاسی پارٹیاں نا اہل لوگوں کا گروہ بن جائیں گی اور سیاست کا مقصد مختلف شعبوں میں استعداد کی بجائے عہدوں کا حصول ہو کر رہ جائے گا تو پھر ایسی سیاسی قیادت سے کسی بہتر نتیجے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی لیڈر ان سیاسی لیڈروں کو زیر نگین رکھنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔

حکومت کی سب خرابیوں و کمزوریوں کے باوجود تمام سیاسی لیڈروں کو ایک جگہ جمع ہونے کی دعوت دینا بجائے خود اہم فیصلہ ہے۔ بدقسمتی سے یہ فیصلہ کسی درپردہ مجبوری کی بنا پر کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود دہشت گردی اور معاشی بحران ایسے سنگین قومی مسائل ہیں کہ تمام سیاست دانوں کو ہمہ قسم اختلافات کو بھلا کر ان مسائل پر سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ عمران خان اگر واقعی اس اجلاس میں شرکت سے انکار کرتے ہیں تو اس کی ذمہ داری محض شہباز حکومت کی پی ٹی آئی دشمنی پر عائد کرنا مناسب جواب نہیں ہو گا۔ اگر حکومت تحریک انصاف کے خلاف ناروا ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے تو بھی ایک بڑی پارٹی ہونے کے ناتے تحریک انصاف اور عمران خان اپنی قومی ذمہ داری سے منحرف نہیں ہوسکتے۔ تحریک انصاف کی طرف سے اے پی سی کا بائیکاٹ کیا گیا تو اس کا ایک ہی مطلب اخذ کیا جائے گا کہ عمران خان بدستور یہی چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومتی مذاکرات ناکام ہوں اور ملک ڈیفالٹ کی طرف چلا جائے تاکہ شہباز شریف کی حکومت ناکام ہو اور انہیں ایک بار پھر اقتدار سنبھالنے کا موقع ملے۔ یہ سوچ بچگانہ اور افسوسناک ہوگی۔ معاشی تباہی کا ذمہ دار بن کر عمران خان کو قوم سے کسی حمایت کی امید نہیں کرنی چاہیے۔

ملک اگر تباہی کی طرف بڑھتا ہے تو سارے سیاست دان اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ موجودہ حالات میں انتشار پیدا کرنے یا معاشی دیوالیہ ہونے کو اپنی کامیابی سمجھنے کی منفی سوچ کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔ اب وقت ہے کہ تمام سیاست دان اس دھرتی سے اپنی محبت اور وفاداری کا عملی ثبوت فراہم کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments