حاجی نواز کھوکھر اور مصطفی نواز کھوکھر کی سیاست


وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کی سیاست کے بے تاج بادشاہ حاجی نواز کھوکھر کو ہم سے جدا ہوئے دو سال ہوئے ہیں۔ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا سیاسی خلا تاحال پر نہیں ہوا انہوں نے اپنی زندگی میں ہی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور اپنے بڑے صاحبزادے مصطفی نواز کھو کھر کو اپنا سیاسی جانشین بنا دیا تھا جن کا شروع دن سے ہی سیاست کی طرف رجحان تھا۔ انہوں نے اپنے والد محترم کی زندگی میں پارلیمانی سیاست میں کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔

سینیٹر کی حیثیت سے انہوں نے انسانی حقوق کے حوالے بڑی شہرت حاصل کی دو سال قبل حاجی نواز کھوکھر کی وفات سے پیدا ہونے والا سیاسی خلا تو پورا نہیں ہو سکا لیکن انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنے والد کا نام سربلند رکھا اور دنوں میں پارلیمنٹ کی شان بن گیا۔ جب تک حاجی نواز کھوکھر زندہ تھے، پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے چیئرمین آصف علی زرداری اسلام آباد میں حاجی نواز کھوکھر سے ملے بغیر کراچی واپس نہیں جاتے بلکہ ان کی زرداری ہاؤس میں حاجی نواز کھوکھر سے طویل نشستیں ہوا کرتی تھیں۔

حاجی نواز کھو کھر ایک سیا سی ذہن رکھنے والی شخصیت تھی۔ وہ آصف علی زرداری سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھتے تھے لیکن حاجی نواز کھو کھر کے آنکھ بند ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کا رویہ ہی تبدیل ہو گیا پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کو ان کی انسانی حقوق بارے میں سوچ پسند نہ تھی۔ وہ کبھی کبھی پارٹی کی پالیسی پر تنقید رہتے جو پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لئے نا قابل برداشت تھی۔ آج کل مصطفی نواز کھوکھر نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کے ساتھ مل کر ایک غیر سیاسی فورم ری امیجنگ پاکستان کے نام سے نیا فورم بنا لیا معلوم نہیں مصطفی نواز کا آئندہ سیاسی لائحہ عمل کیا ہو گا۔ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

مصطفی نواز کھو کھر کی بلاول بھٹو زرداری سے گاڑھی چھنتی تھی۔ ان کو مصطفی نواز پر اس حد تک اعتبار تھا۔ انہوں نے مصطفی نواز کو اپنا ترجمان بنا دیا تھا لیکن بہت جلد ان کی پیپلز پارٹی کی قیادت سے نہ بنی ان سے یہ منصب واپس لے لیا گیا اختلاف رائے ناقابل برداشت ہو گیا تو ان سے سینیٹر کے عہدہ سے استعفا دینے حکم آ گیا ایسا دکھائی دیتا ہے۔ سینیٹر مصطفی نواز پہلے پیپلز پارٹی کا قرض اتارنے کے لئے بیٹھے تھے۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ چیئرمین سینیٹ کو اپنا استعفاٰ پیش کر دیا۔

ویسے تو حاجی نواز کھوکھر سے کم و بیش روزانہ ہی فون پر بات ہوتی رہتی تھی لیکن کورونا وبا کے دوران ہر روز ان سے ٹیلی فون پر گپ شپ ہوتی۔ ان کا شمار پاکستان کے باخبر سیاست دانوں میں ہوتا تھا جب میں ان سے کوئی خبر پوچھتا تو وہ یہ کہہ کر طرح دے جاتے حاجی صاحب! میں ریٹائرڈ سیاست دان ہوں میرے پاس کہاں سے خبر آئی لیکن میں ان سے باتوں باتوں خبر اگلوا لیتا کیونکہ ان کا ملک کے بڑے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔

انہوں نے اپنے سیاسی کیریر کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی سے کیا وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی میں اسلام آباد تنظیم کے جنرل سیکریٹری تھے۔ وہ تین بار قومی اسمبلی کے رکن رہے ڈپٹی سپیکر اور وفاقی وزیر کے منصب پر فائز رہے ایف 8۔ میں ناظم الدین ناظم پر ان کی رہائش گاہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہی۔ ان کی رہائش گاہ پر ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جنم لیا انہوں نے اس وقت کے صدر غلام اسحق کے دباؤ کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے تاسیسی کنونشن کے لئے جگہ دی اگر یہ کہا جائے کہ میاں نواز شریف کو پارٹی کا صدر بنانے میں جہاں راجہ محمد ظفر الحق، چوہدری نثار علی خان، راجہ محمد افضل اور دیگر رہنماؤں کا عمل دخل ہے وہاں الحاج محمد نواز کھوکھر کا بھی کلیدی کر دار تھا تو غلط نہ ہو گا۔ انہوں ں ے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قیام کو یقینی بنا دیا لیکن زیادہ عرصہ تک وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ نہ چل سکے مجھے یاد ہے۔ وہ 2002 کے انتخابات سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) میں واپس آنا چاہتے تھے۔ میں نے ان کا پیغام جدہ میں میاں نواز شریف تک پہنچایا میاں نواز شریف ان کو پارٹی میں لینا چاہتے لیکن اس وقت جو لیڈر ان کی واپسی کی راہ میں حائل ہوئے وہ آج خود پاکستان مسلم لیگ (ن) میں نہیں

میں ان کو خود نوشت لکھنے کا مشورہ دیتا رہتا تھا۔ اس کے ساتھ انہیں قلمی معاونت کی پیش کش بھی کی وہ کورونا سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہے لیکن کورونا کی شکل میں موت ان کا تعاقب کرتی رہی بالآخر وہ کورونا کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے وہ اپنی یادداشتیں بھی اپنے ساتھ لے گئے

مجھے یاد ہے جنرل پرویز مشرف کے دور میں روزنامہ نوائے وقت کے اشتہارات بند کر دیے گئے ادارہ نوائے وقت مالی مشکلات کا شکار ہوا تو الحاج محمد نواز کھوکھر جناب مجید نظامیؒ کے پاس جا پہنچے اور ان کو فوری طور پر ایک کروڑ روپے کا چیک پیش کیا اور باقی رقم بعد ازاں دینے کی پیشکش کی تو جناب مجید نظامیؒ نے معذرت کرلی اور شکریہ کے ساتھ چیک واپس کر دیا البتہ 2003 میں سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کے ولیمہ کے لئے مختص 20 لاکھ روپے بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی امداد کے لئے ایک پروقار تقریب میں جناب مجید نظامیؒ کے سپرد کر کے ایک اچھی مثال قائم کی الحاج محمد نواز کھوکھر کی وفات سے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کی سیاست کا ایک باب ختم ہو گیا اسلام آباد کی سیاسی تاریخ حاجی نواز کھوکھر کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔

وہ اسلام آباد کی سیاست کے کم و بیش چار عشروں تک بے تاج بادشاہ تھے۔ عمر بھر سفید شلوار قمیض ان کا پیرہن رہا پارلیمنٹ ہاؤس کے خطیب مولانا احمد الرحمنٰ کا ان سے عرصہ دراز سے ذاتی تعلق تھا۔ انہوں نے جنڈ میں ایک زیر تعمیر مسجد کا 15 مارچ 2021 کو افتتاح کرنا تھا لیکن موت نے انہیں افتتاح کرنے کی مہلت نہ دی اسلام آباد ایف 6 / 1 میں محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی ہدایت الحاج محمد نواز کھوکھر کی سرپرستی میں بچیوں کے لئے مدرسہ بنات الاسلام چل رہا ہے۔

وہ رضا کارانہ طور سیاست سے ریٹائر ہو گئے تھے۔ تاہم وہ اپنا زیادہ وقت بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کی رفاقت میں گزارتے تھے۔ باقی وقت موٹر وے پر فارم ہاؤس میں گزارتے تھے۔ جہاں انہوں باغبانی کا شوق پورا کیا وہاں انہوں مچھلیاں بھی پال رکھی تھیں باغ سے اترنے والے پھل اور مچھلی میں اپنے دوستوں کے لئے حصہ رکھتے تھے اور کھوکھر ہاؤس کے ترجمان راجہ صابر کے ہاتھوں دوستوں میں سوغات بھجواتے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اس فارم میں فرصت کے لمحات گزار چکے ہیں۔

وہ پیپلز پارٹی میں ہوں یا مسلم لیگ نون میں انہیں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی قربت حاصل رہی اور ذاتی سطح پر تعلقات قائم رکھے ایک جرات مند لیڈر کے طور جیل کاٹی گھر سے ان کے لئے کھانا جیل میں آتا تو اس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں عباس شریف اور حمزہ شہباز کا حصہ بھی ہوتا وہ جب تک جیل رہے الحاج محمد نواز کھوکھر ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے، وہاں وہ ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھے۔ کاروبار اور لین دین کے کھرے تھے۔

کسی شخص نے ان کے لین دین کے بارے میں شکایت نہیں کی، وہ حد درجہ کھلے دل کے مالک تھے۔ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن تھے۔ مسلم لیگ نون میں تھے تو نواز شریف کے وفادار رہے، مگر جب مسلم لیگ (ن ) سے الگ ہوئے اور پیپلز پارٹی میں واپس آئے تو عمر بھر پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے، وہ وضع دار شخص تھے۔ 1997 میں پیپلز پارٹی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے رہے اور آخری وقت تک پارٹی کا ساتھ نبھایا، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے الحاج محمد نواز کھوکھر کے سیاسی جانشین ہونے کا حق ادا کر دیا ہے اور دنوں میں اپنے آپ کو قومی سطح پر متعارف کرا دیا جب کہ افضل کھو کھر حلقے کی سیاست کر رہے ہیں۔

الحاج محمد نواز کھوکھر کی وفات اور مصطفی نواز کھو کھر کے پیپلز پارٹی سے الگ ہونے کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد میں بڑی حد دھچکا لگا ہے۔ 1997 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو انتخابی شکست ہوئی تھی۔ پنجاب میں اس کی دور دور تک کوئی نشست نہیں تھی۔ سندھ میں اسے کامیابی ملی تھی۔ یوں اس طرح پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں ایک چھوٹی پارلیمانی جماعت بن کر رہ گئی انتخابات کے نتائج کے دو چار روز بعد الحاج محمد نواز کھوکھر نے اپنی رہائش گاہ ایف ایٹ ناظم الدین روڈ میں افطار ڈنر دیا، محترمہ بے نظیر بھٹو، حامد ناصر چٹھہ اور دیگر سیاسی اتحادی رہنما اور میڈیا کے لوگ بھی افطار ڈنر میں موجود تھے۔

انتخابی عمل میں مداخلت سے متعلق حامد ناصر چٹھہ نے کہا کہ انہوں نے ٹھپے لگائے ہیں۔ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی۔ اسی پس منظر میں ان سے میڈیا نے سوال کیا کہ سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے۔ آپ کتنے عرصے کے لیے پارٹی میں رہیں گے۔ الحاج محمد نواز کھوکھر نے جواب دیا تھا۔ کہ اب پکا فیصلہ کر لیا ہے کہ زندگی کی آخری سانس تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہوں گا اور کسی اور طرف جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا الحاج محمد نواز کھوکھر کا یہ جواب محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے خاصا حوصلہ افزا تھا۔

حوصلہ افزا اس لئے کہ ملک میں سیاسی منظر نامہ ایک سو اسی کے زاویے کے ساتھ تبدیل ہوا تھا۔ چند ہفتوں کے بعد نو منتخب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، الہی بخش سومرو قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے، سپیکر شپ کے لیے ان کے انتخاب نے پیپلز پارٹی کے لئے بہت سے سوالات رکھ دیے تھے۔ مگر نہایت چھوٹی سی پارلیمانی پارلیمانی پارٹی کے ساتھ اس وقت کی لیڈر آف اپوزیشن بے نظیر بھٹو نے کہا کہ حکومت اپنا رویہ تبدیل کرے، یہ ابھی ابتدا ہے۔ اگر یہی ماحول اور رویہ رکھا گیا تو آپ زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکیں گے۔ بے نظیر بھٹو نے یہ چیلنج دو تہائی اکثریت والی پارٹی کو دیا تھا اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ دو تہائی اکثریت والی نواز شریف حکومت محض دو اڑھائی سال کے بعد ہی بارہ اکتوبر 1999 میں بر طرف کردی گئی۔ آئی جے آئی کے زمانے میں الحاج محمد نواز کھوکھر نواز شریف کے ساتھ تھے۔ ملک میں سیاسی کشمکش بھی عروج پر تھی۔

یہ وہی زمانہ ہے کہ جب ملک کی کچھ سیاسی شخصیات کے لئے من و سلوی اتارا گیا۔ الحاج محمد نواز کھوکھر اس من و سلویٰ کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔ یہی کیس بعد میں اصغر خان کے ذریعے سپریم کورٹ تک پہنچا، بڑے بڑے سیاسی نام ان کی پیٹیشن میں لئے گئے۔ یہ سب کچھ سچ تھا۔ یہ سچ کبھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ من و سلوی ان سیاسی رہنماؤں کے گھروں تک کس طرح پہنچایا گیا تھا۔ ایک سیاسی جماعت نے اعلی عدلیہ میں لکھ کر تحریری جواب میں کہا کہ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جب کہ سچ سچ ہی ہوتا ہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے، یہ سب کچھ ہماری سیاسی زندگی کا ایک ایسا سچ ہے جسے کوئی بھی بیان نہیں کرسکے گا۔ یہ سب حقائق نواز کھوکھر اپنے ساتھ ہی لے گئے ہیں۔ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔ عام لوگوں کے لئے وہ ایک سیاستدان تھے۔ لیکن ان کی زندگی کا آخری وقت یاد اللہ میں گزرتا وہ ایک دینی شخصیت بن چکے تھے۔ ان کی زندگی کے اس پہلو کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ وہ عشق رسولﷺ سے سرشار تھے۔ غریبوں میں اپنی دولت لٹاتے رہتے تھے۔

ان کے ملک کے ہر بڑے سیاسی خاندان سے ذاتی مراسم تھے۔ وہ انتہائی شفیق ملنسار تھے۔ کھوکھروں جیسا دبدبہ نہیں تھا۔ الحاج نواز کھوکھر عاجزی سے گفتگو کرتے تھے۔ پیر بہا الحق نے حاجی نواز کھوکھر کے بارے میں لکھا ہے۔ کہ عام لوگوں کے لیے حاجی نواز کھو کھر ایک سیاستدان تھے۔ لیکن میرے نزدیک وہ پاکستان کے اہم سیاسی واقعات کے عینی شاہد تھے۔ عام لوگ انہیں ایک امیر آدمی سمجھتے تھے۔ لیکن ان یتیموں بیواؤں اور طلبہ ایک لمبی فہرست تھیں جن کی کفالت وہ انتہائی خاموشی سے کیا کرتے تھے۔

ان کی عوامی شہرت ایک دنیا دار انسان کی تھی لیکن میں نے ان کی آنکھوں میں محبت رسولﷺ کی سرشاری دیکھی۔ کچھ لوگ تو چیک بک کے علاوہ کوئی کتاب نہیں دیکھتے لیکن میں نے انہیں، ضیا القرآن اور ضیا النبی کا مطالعہ کرتے دیکھا، حاجی نواز کھوکھر ایک سچے عاشق رسول ﷺ۔ حاجی نواز کھوکھر اپنی ذاتی زندگی میں اللہ سے ڈرنے والے ایک عاجز بندے اور آقائے دو عالم ﷺ سے محبت رکھنے والی خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ سیاست ایک بے رحم کھیل کا نام ہے۔

اس کھیل میں اپنے دامن بچا کر رکھنا اور اس سے نکل جانا کسی معجزہ سے کم نہیں۔ انہوں نے زندگی اپنے طے کردہ اصولوں کے مطابق گزاری۔ یوں تو سیاستدانوں کا جیل میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ لیکن حاجی نواز کھوکھر نے جس انداز میں جیل کا وقت گزارا وہ بھی ایک الگ داستان ہے۔ 1999 میں نیب نے حاجی نواز کھوکھر کے خلاف ایک ریفرنس بنایا۔ حیرت انگیز طور پر حاجی نواز کھوکھر نے از خود گرفتاری دے دی

وہ ایک متمول اور مالدار انسان تھے۔ لیکن وہ مال کی محبت میں گرفتار نہ تھے۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں اس کی مخلوق کو شریک کرتے تھے۔ ان کے گھر کا دسترخوان بہت وسیع تھا اور اپنے آنے والے مہمانوں کی عزت و تکریم میں کبھی کوتاہی نہ کرتے۔ ان کے گھر کے دروازے ہر امیر غریب کے لیے ہر وقت کھلے رہتے اور وہ لوگوں کو ملنے کے لیے ہمہ وقت اپنے ڈیرے پر دستیاب رہتے۔ اللہ نے حاجی نواز کھوکھر کو تین صاحبزادے عطا فرمائے۔ ملک عثمان نواز کھوکھر ملک حسین نواز کھوکھر اور مصطفیٰ نواز کھوکھر۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی مصطفی نواز کھوکھر کو اپنا سیاسی جانشین نامزد کر دیا تھا اور وہی ان کے سیاسی معاملات کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کے خاندان کا اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قوت کے طور پر شمار ہوتا ہے لیکن جب پارٹی کی قیادت کو ان کی حاجی نواز کھوکھر زندہ تھے تو ان کا اسلام آباد میں آصف علی زرداری کے قیام کے وقت بیشتر وقت ان کے ساتھ گزرتا۔ ان کی وفات کے بعد کھوکھر خاندان اور آصف علی زرداری کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کا آغاز ہو گیا کافی عرصہ سے پیپلز پارٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کو بوجھ تصور کرنے لگی کیونکہ وہ ان کی آزاد منش سیاست کی متحمل نہیں ہو سکتی

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے یونیورسٹی آف بکنگھم میں بین الاقوامی قانون کی تعلیم حاصل کی جاگیر دارانہ پس منظر ہونے کے باوجود فیوڈل پالیٹکس کو نہ اپنا سکے مصطفیٰ نواز کھوکھر کی سیاسی تربیت برطانوی معاشرہ میں ہوئی وہ وہی سوچ فکر لے کر پاکستان آئے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بننے کی کوشش کی۔ 2011 میں انہیں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں مشیر برائے انسانی حقوق بنایا گیا ان کا طرز سیاست پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لئے ناقابل برداشت ہو گیا انہیں سینٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کا چیئرمین بنانا پارٹی کے لئے مشکلات کا باعث بن گیا فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے۔

؂ نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments