قصہ دو سو پچاس ڈالر کا


ہم عام انسان ہیں اور ہمارے چھوٹے سے پراجیکٹس ہیں۔ پاکستان کی حکومت کی نقصان دہ پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا بیٹھے بٹھائے 15 ہزار روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس طرح کاروباری نہیں چلتی ہے۔ لکشمی دیوی کی کافی پوجا کرنی ہوتی ہے، اس کو خوش کرنے کے لیے بہت سارے چڑھاووں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جو لوگ دروازے پر آئی لکشمی کو باہر سے ہی بھگا دیں وہ ترقی کیا کر پائیں گے؟

دو دن سے ایک مخمصے کا شکار ہوں۔ ایک معمولی سی رقم یعنی کہ صرف دو سو پچاس ڈالر انڈیا سے پاکستان بھیجنا انتہائی مشکل کام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انتہائی مالدار اور طاقت ور افراد کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔ یہ سارے مسائل ہماری طرح کے عام آدمی کے لیے ہیں۔ ہر شہری پر یہ لازم ہے کہ وہ سوال اٹھائے کہ ہماری زندگیوں میں یہ مسائل کیوں ہیں؟ اور کب تک رہیں گے؟

ہم پیدائش کے لحاظ سے پاکستانی سندھی ہیں جو ملک چھوڑ کر بہتر زندگی کے لیے عرصہ ہوا جا چکے ہیں۔ ملک سے باہر نکلنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی ابتدائی تعلیم سوڈو سائنس، مذہبیت اور تعصب کا پروپیگنڈا ہے جس نے ہماری سوچ کو مفلوج بنا رکھا ہے۔ سندھ اور پنجاب میں حالیہ سیلابوں سے کافی آفت آئی ہے۔ ان مناظر کی تصاویر اور خبریں نہایت افسوسناک ہیں۔ ایک عام انسان بنیادی ضروریات کے پورے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی اور معاشی میدانوں میں ترقی نہیں کر پا رہا ہے۔ ایک عالمی گاؤں کے شہری ہونے کے ناتے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ نہ صرف خود کو اعلیٰ تعلیم یافتہ کریں اور اپنی محنت سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوں بلکہ دوسرے انسانوں کی مدد بھی کریں۔ مدد کی ضرورت کسی کو بھی پڑ سکتی ہے۔ اگر ہمیں بھی مدد کی ضرورت پڑے تو طلب کرنے میں ہچکچانا نہیں چاہیے۔

پاکستانی روپے کی دگرگوں حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ آج سے چالیس سال پہلے ایک ڈالر نو روپے کے برابر تھا اور پاکستانی روپیہ کی ویلیو انڈین روپے سے زیادہ تھی۔ جب ہمارے رشتہ دار انڈیا سے پاکستان آتے تھے تو ان کو ایکسچینج میں کم پاکستانی روپے ملتے تھے۔

میری اینڈوکرائن کی آن لائن کلاس میں کئی ممالک کے اسٹوڈنٹس پڑھتے ہیں۔ ان اسٹوڈنٹس سے فیس خود لینے کے بجائے ان سے انسانی مقاصد پر خرچ کروا دیتی ہوں۔ اگر وہ مجھے پیسے بھیجیں گے تو وہ میری آمدن میں شامل ہوجائیں گے اور مجھے ان کا حساب کتاب بھی رکھنا پڑے گا اور اس پر انکم ٹیکس بھی لگے گا۔

دو دن سے ہماری کلاس کے ایک اسٹوڈنٹ ڈاکٹر نے انڈیا سے لاہور میں ایک کتاب خانے کو پیسے بھیجنے کی کوشش کی، جن سے تعلیمی کتابیں خرید کر ہم مفت میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک کے اندر لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہو لیکن دونوں ممالک انڈیا اور پاکستان کے اصول و ضوابط کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس اسٹوڈنٹ نے پہلے مجھے پے پال سے 250 ڈالر بھیجے جن کو یہاں تک پہنچانے میں پے پال نے 12 ڈالر کاٹ لیے۔ اس کے بعد اس پر 15 فیصد انکم ٹیکس لگ گیا اور پھر جو 200 ڈالر بچے ان کو اس کتاب کے اسٹور بھیجنے پر منی گرام  نے پانچ ڈالر اور کاٹ لیے۔

ملک میں بے روزگاری، روپے کی گرتی ہوئی اہمیت اور غیر یقینی مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے یہی وقت ہے کہ عام شہری اور کاروباری افراد اپنی حکومت سے یہ مطالبہ کریں کہ بقایا دنیا کی طرح ان کو بھی نارمل طریقے سے بھارت کے ساتھ تجارت اور پیسے کی لین دین کی اجازت ہو۔ ماضی میں پھنسے رہنے سے آنے والے وقت یا نسلوں کے لیے کوئی بہتری ممکن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments