یکجہتی کشمیر : یہ تری نوازش مختصر مرا درد اور بڑھا نہ دے


مسئلہ کشمیر کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انڈیا اور پاکستان کی دونوں ممالک اس خطے پر مکمل کنٹرول کے لیے تین جنگیں لڑ چکے ہیں جبکہ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر لائن آف کنٹرول کے ساتھ ’بلا اشتعال فائرنگ‘ کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔

بر صغیر کی تقسیم کے وقت تمام ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ملک کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں، یا پھر آزاد رہنا چاہیں تو آزاد رہ سکتے ہیں۔

زیادہ تر ریاستوں کے مہا راجاؤں نے اپنی آبادی کی خواہشات کی بنا پر انڈیا یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا مگر کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی مسلمان اکثریتی ریاست کے آزاد رہنے کو ترجیح دی۔

مقامی آبادی کی جانب سے بغاوت اور پاکستان کے مسلح قبائلیوں کی جانب سے دراندازی ہونے پر مہاراجہ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے عسکری امداد کی اپیل کی جو کہ انھوں نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ جب تک ریاست انڈیا سے الحاق کا فیصلہ نہیں کرتی، تب تک وہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اب متحدہ ہندوستان کے وائسرائے نہیں بلکہ انڈیا کے گورنر جنرل ہیں۔

مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947 کو اپنی ریاست کے انڈیا سے الحاق کی تحریری درخواست کی جو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اگلے دن اس شرط کے ساتھ قبول کر لی کہ در اندازوں سے ریاست خالی ہونے پر ریاست کے مقدر کا فیصلہ عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔

اس کے بعد جب انڈیا کی فوج کشمیر میں داخل ہوئی تو پاکستان کی فوج نے بھی کشمیر کے حصول کے لیے اپنی افواج یہاں داخل کر دیں جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا جو کہ 1949 تک جاری رہی۔ 1949 کی جنگ بندی کے بعد پاکستان اور انڈیا دونوں کے پاس کشمیر کا بالترتیب ایک تہائی اور دو تہائی حصے کا کنٹرول رہا اور سیز فائر لائن قائم ہوئی جسے بعد میں لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں اس مسئلے کے حل کے لیے تین مرحلہ وار نکات تجویز کیے گئے۔

»پاکستان کشمیر سے اپنے تمام شہری واپس بلوائے۔ »انڈیا کشمیر میں صرف اتنی فوج رکھے جو کہ امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہو۔

»انڈیا اقوام متحدہ کا نامزد کردہ رائے شماری کمشنر تعینات کرے جو ریاست میں غیر جانبدار رائے شماری کروائے۔

اقوام متحدہ کے اس پانچ رکنی کمیشن نے 1949 میں استصواب رائے کی شرط رکھ کر انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے کیا تھا۔ کمیشن میں کولمبیا، چیکوسلواکیہ، برما، ارجنٹینا اور بیلجیئم کے سفیر شامل تھے۔

دونوں ہی ممالک کو اس پر اعتراضات تھے جن کی وجہ سے اقوام متحدہ کا ایک نیا کمیشن قائم ہوا۔ دونوں ممالک نے اس کمیشن کی قرارداد منظور کی مگر یہ کمیشن بھی معاملے کو کسی نتیجے پر نہ پہنچا سکا اور یوں یہ مسئلہ جوں کا توں رہا۔

1965 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر پر ایک اور جنگ لڑی گئی جبکہ 1999 میں دونوں ممالک ایک مرتبہ پھر کشمیر پر کنٹرول کے لیے جنگ لڑتے نظر آئے۔ 1989 کے بعد کشمیر میں شورش کا آغاز ہو گیا۔ 2003 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر کا ایک معاہدہ ہوا اور ایل او سی کو ایک سرحد تسلیم کر لیا۔

کشمیر دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے، پاکستان کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون کی رو سے یہ پاکستان کا حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ یہ علاقہ عالمی سطح پر متنازعہ قرار دیا گیا ہے ۔ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں وادی کشمیر میں مسلمان 95 فیصد جموں میں 28 فیصد اور لداخ میں 44 فیصد ہیں۔ جموں میں ہندو 66 فیصد اور لداخ میں بدھ 50 فیصد کے ساتھ اکثریت میں ہیں۔

کشمیری بھائی بہنیں جس طرح وہاں قربانیاں دے رہی ہیں اپنی زندگی کے خواب، اپنے دل کی امنگیں، اپنے بچوں کا مستقبل، اپنے جگر گوشوں کی زندگیوں، اپنے سرکے سائبانوں کو جس طرح قربان ہوتے ہوئے دیکھ رہی اور دیکھ رہے ہیں ان کی ہمت اور یقین دیکھ کر ان پر رشک آتا ہے۔ زندگی کی تگ و دو میں جس طرح کشمیری ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستانی عوام کا دل چاہتا ہے کہ کشمیر کے آزاد ہونے کا وقت آجانا چاہیے اس کے لئے کسی بھی مدد اور حمایت کے لئے پاکستانی عوام 5 فروری کو یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم ہرحال میں کشمیریوں کا ساتھ دیں گے اور بھارت کو ان کے ظلم و ستم اور جبر و تشدد کا منہ توڑ جواب دیں گے۔

وادی کشمیر میں مسلمان اکثریت میں تھے اور وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے مگر اسی وقت سے اس خطے میں سازش اور بد امنی کے بیج بو دیے گئے اور قیام پاکستان کے دو ماہ بعد ہی جموں کشمیر پر جابرانہ قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی دوران 12 اگست 1948 اور 1949 کو سلامتی کونسل میں دو قراردادیں منظور ہوئیں جن کے مطابق کشمیر میں جنگ بندی اور اقوام متحدہ کے ذریعے ریفرنڈم کا مطالبہ کیا گیا تا کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔

کشمیری عوام غاصب ہندوستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ہندوستان نے اپنی تقریباً ًسات لاکھ فوج کشمیریوں پر مسلط کی ہوئی ہے اور ہزاروں کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈال کر ان پر وحشیانہ تشدد کیا جا رہا ہے اور نوجوانوں کو چن چن کر ان کا قتل عام جاری ہے۔ وادی کشمیر جنت نظیر کو مسلمانوں کا قبرستان بنانے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ آگ اور خون کے اس کھیل کو تقسیم ہند سے اب تک ہمیشہ اور ہر ہندوستانی حکومت کے اقتدار میں جاری رکھا گیا ہے۔

لیکن عالمی طاقتیں انسانی حقوق کے ان سنگین واقعات کے باوجود خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی ذمہ داری ہے کہ ایک غاصب ملک سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کروائیں۔ تاہم یہ بڑی طاقتیں جو دنیا میں امن و سلامتی کی علمبردار بنتی ہیں وہ کشمیر یوں کو ان کے حق رائے کا موقع میسر دینے میں مکمل ناکام ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے باعث پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس پورے خطے میں اس وقت تک پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک یہ مسئلہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل نہ ہو۔ اقوام متحدہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے

ہوئے ہندوستان سے کشمیریوں پر مظالم بند کر وائے جبکہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں اس مسئلے کو حل کروانے کے لئے عالمی طاقتوں کو ہندوستان پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ 370 اور 35 Aکے آرٹیکل کے خاتمے کے بعد مودی سرکار کے جاری ہتھکنڈوں میں تیزی آ چکی ہے اور باقاعدہ ایک مذموم سازش کے تحت بے گناہ کشمیری عوام کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ کشمیریوں سے ان کی جائیدادیں چھین کر تیزی سے ہندو آبادکاری کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا سکے۔

ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی اور 35 اے کے تحت کوئی بھی غیر کشمیری کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا تھا، نریندر مودی نے باقاعدہ منصوبے کے تحت ان دونوں کو ختم کیا تاکہ وہ طے شدہ منصوبے کے مطابق اپنے اہداف حاصل کرسکے۔ مودی سرکار اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزیاں کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر آبادی کے تناسب کو تبدیلی کرنے کے لیے غیر ریاستی انتہا پسند ہندوؤں کو ہندوستان کے مختلف شہروں سے لاکر کشمیر میں آباد کر رہی ہے تا کہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلا جائے، ہندوستانی قیادت کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ کسی بھی وقت عالمی دباؤ میں آ کر اگر کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا رائے شماری کے ذریعے حق دینا پڑے تو اس سے قبل کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کر کے فیصلہ ہندوستان کے حق میں کرایا جائے۔

ہندوستان کو کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کا راستہ اسرائیل نے دکھایا ہے، اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیورڈ بین گورین نے اپنے پہلے نشری خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان نظریاتی ملک ہے جو اسرائیل کا نظریاتی حریف ہے، پاکستان کے پڑوس میں ایسا ملک تلاش کرنا ہو گا جو پاکستان کا دشمن ہو اس کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنا ہے، تب سے لے ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم ہیں، ابتدائی طور پر ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات خفیہ رکھے اس لیے کہ عرب اور اسلامی ممالک ناراض ہوجائیں گے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے اسرائیل سے تعلقات طشت از بام کر دیے۔

اب ہندوستان اور اسرائیل گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جب بھی جنگ ہوئی تو اسرائیل نے کھل کر ہندوستان کی مدد کی جیٹ طیارے، پائلٹ اور جنگی ساز و سامان فراہم کیا، مقبوضہ کشمیر کے اندر آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے اسرائیلی فوجی ہندوستانی فوجیوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ اسرائیل ہندوستان کو جنگی حکمت عملی آزادی کی تحریک کو کچلنے کی مشاورت بھی فراہم کر رہا ہے۔

نریندر مودی نے 5 اگست 2019 کے بعد تسلسل کے ساتھ یہ متعصبانہ اقدامات کیے۔
» مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے فارغ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
مسلم تشخص ختم کرنے کے لیے مساجد اور مدارس
» دینی درس گاہوں کے ساتھ ساتھ مزارات پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔

»اسکول، کالجز، جامعات، شاہراہوں سمیت ہر وہ تاریخی جگہ جو مسلمانوں کے نام سے منسوب تھیں ان کو ختم کر کے ان کی جگہ ہندو نام رکھے۔

کالے قوانین اور آئینی ترامیم کے ذریعے کشمیریوں کی لاکھوں کنال زمین پر قبضہ کیا جا رہا ہے، تاکہ وہاں ہندو بستیاں آباد کی جائیں۔

»کشمیریوں کے جنگلات کاٹے جا رہے ہیں۔
»اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے والوں کے گھر کو مسمار اور عزت تار تار کی جاتی ہے۔

» نوجوانوں کو لاپتا کیا جاتا ہے اس وقت تک 8 ہزار نوجوان لاپتا ہیں، نوجوان لڑکیاں بھی لاپتا کی جا رہی ہیں۔

»ایک رپورٹ کے مطابق 40 لاکھ غیر کشمیری انتہا پسند ہندوؤں کو ڈومیسائل جاری کیے جا چکے ہیں، تاکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلا جائے۔

»وہ کشمیری جو مزاحمت کا حصہ ہیں یا رہے ہیں ان کے گھروں اور ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ »کشمیریوں کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے لیے ان کے باغات اور فصلیں تباہ کی گئیں جو بچ گئیں انہیں منڈی تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔

» جموں میں انڈین آرمی ویلفیئر کالونی، سمیت درجنوں کالونیاں قائم کی جا رہی ہیں، جس میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی آفیسرز آباد کیے جائیں گے، انہیں ڈومیسائل بھی جاری کیے جائیں گے۔

» انتہا پسند ہندو آباد کاروں کی حفاظت کے لیے ویلج ڈیفنس گارڈز کے 36 ہزار نٹ ورک قائم کیے ہیں، ان ڈیفنس گارڈز کو جدید اسلحہ سے لیس کیا جا رہا ہے۔ مودی مقبوضہ کشمیر میں ایک بڑے قتل عام کی تیاری کر رہا ہے۔ اس قتل عام کی رپورٹ عالمی ادارے کرچکے ہیں۔ ہندوستان کی مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم کی فہرست طویل ہے عالمی اور اسلامی برادری بڑے قتل عام سے قبل مودی کو روکے اور کشمیریوں کو ان کو حق دلائے، کشمیر کی آزادی ہندوستان میں پسی ہوئی درجن ریاستوں کی بھی آزادی کا عنوان بنے گی۔

2016 میں انڈین فوج کی جانب سے جب 22 برس کے برہان وانی کو شہید کر دیا گیا تو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ برہان وانی کے واقعے کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندی کی نئی مہم شروع ہوئی۔ سرینگر سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر برہان وانی کے جنازے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔

کشمیریوں کو ہمیشہ سے یہ خدشہ تھا کہ اگر انڈیا کے آئین میں موجود آرٹیکل 35 اے اور 370 کی حفاظتی دیوار گر گئی تو وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے کیونکہ پھر یہاں غیر مسلم آباد کاروں کے بسنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ بد قسمتی سے ہمارے حکمران خصوصاً گزشتہ دور حکومت میں مودی کے اقدامات پر صرف زبانی جمع خرچ کیا گیا۔ یوم یکجہتی کشمیر مناتے وقت ہمارے حکمرانوں کے طرز عمل پر کشمیری زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں :

میرے داغ دل سے ہے روشنی اسی روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
مجھے چھوڑ دے مرے حال پر ترا کیا بھروسا ہے چارہ گر
یہ تری نوازش مختصر مرا درد اور بڑھا نہ دے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments