الوداع محسن کشمیر۔ پرویز مشرف


اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بالخصوص اور برصغیر میں بالعموم ایک روایت ہمیشہ سے چلتی رہی ہے اور وہ ہے ہر آنے والے کو / عروج میں ”خوش آمدید“ کہنا اور ہر جانے والے کو / زوال میں ”برا بھلا کہنا“ ۔ پر ہر شخصیت میں جہاں منفی پہلو ہوتے ہیں، وہاں مثبت پہلو بھی ہوتے ہیں۔ اب یہ دیکھنے اور تاریخ لکھنے والوں پر ہے کہ وہ کس پہلو کو اہمیت دیتے ہیں۔

آج صبح جب سابق صدر پاکستان و سابق چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کی وفات کی خبر سامنے آئی تو ایک مثبت بات، سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف و سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے وفات پر دکھ کا اظہار اور میت کو پاکستان لانے کے لیے ہر ممکن مدد کی فراہمی کا خوش آئند اعلان تھا۔

بحیثیت کشمیری، اگر پرویز مشرف مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں تو شاید الفاظ کم پڑ جائیں۔ 2005 کے ہولناک زلزلے کے بعد ، جس قدر تیزی سے اور بہترین انداز میں کشمیریوں کی بحالی کے لیے پرویز مشرف نے کام کیا، وہ شاید کسی جمہوری حکومت کے بس کی بات نہ تھی۔ سرینگر مظفرآباد بس سروس شروع کر کے پرویز مشرف حکومت نے گزشتہ 57 سالوں سے اپنوں سے ملاقات کو ترسنے والے کشمیریوں کو بہترین سہولت مہیا کی۔ انٹرا کشمیر تجارت کا ایک ایسا قدم اٹھا، جس نے ایل و سی کے دونوں جانب منقسم کشمیریوں کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔

پھر جس طرح دورہ بھارت کے دوران پرویز مشرف نے ہندوستان میں مسلمانوں اور کشمیریوں کی بات کی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف کے اقدامات سے کشمیریوں کو براہ راست ریلیف مہیا ہوا۔ انٹرا کشمیر ٹریڈ، انٹرا کشمیر ٹریول اور ستر سال سے تقسیم شدہ خاندانوں کا ویزے اور پاسپورٹ کے بغیر ایک دوسرے سے ملنا ان کے عظیم کارناموں میں ہے۔

مسئلہ کشمیر کے حل کے طور پر ”مشرف پلان“ کے پوائنٹس پر مختلف جگہوں پر متعدد بار بحث ہوئی، پر کوئی نتیجہ خیز معاملہ نہ ہو سکا۔ مشرف پلان پیش کرنا ہی اس بات کا ثبوت تھا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں پرویز مشرف حکومت کتنی سنجیدہ ہے۔

اللہ تعالٰی سے دلی دعا ہے کہ وہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور اہلخانہ سمیت تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments