ایکسرے دکھا کر مانگنے والے بھکاری


بھیک مانگنے کے ہنر اور طریقوں پر لکھی جانے والی کوئی کتاب میرے علم میں نہیں ہے، لیکن اگر کوئی ایسی کتاب ہو تو مجھے یقین ہے کہ ایکسرے دکھا کر مانگنے کا طریقہ اس میں ضرور اولین صفحات پر ہو گا۔ اسی طرح کے دوسرے ملتے جلتے طریقوں میں ڈاکٹری نسخہ دکھا کر دوائیوں کے لئے پیسے مانگنا، مرد بھکاریوں کا اپنی پھٹی ہوئی قمیض کے نیچے سے اپنی پسلیاں دکھا کر مانگنا اور خواتین بھکاریوں کا اپنی گود میں اٹھائے ہوئے بچے کے لئے دودھ کے پیسے مانگنا وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب طریقوں کے ذریعے بھکاری آپ کے اندر کا شفیق اور رحمدل انسان جگانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔

مانگنے کا یہ طریقہ ہمارے حکمرانوں میں بھی خاصہ مقبول ہے۔ وہ بھی کبھی سیلاب زدگان کی قابلِ رحم حالت دکھا کر، کبھی زلزلے کی تباہ کاریاں دکھا کر اور کبھی اپنی عوام کی صرف غربت ہی دکھا کر بھیک مانگنے نکلے ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں کبھی بھی غربت ختم کرنے کی طرف کوئی عملی اقدام نہیں کیا جاتا، اور نہ ہی آفات سے نبٹنے کے لئے کوئی کارآمد ادارے بنائے جاتے ہیں۔ بلکہ ان آفات کو کیش کروانے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ عالمی اداروں سے امداد مانگی جاتی ہے، امیر ملکوں کے دورے کیے جاتے ہیں ان سے رحم کی اپیل کی جاتی ہے، ”جو دے اس کا بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا“ کی صدا بلند کی جاتی ہے۔ اس طرح سے کچھ امداد اور کچھ قرض مل جاتا ہے اور حکمرانوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔

پچھلے سال کے بد ترین سیلاب کے بعد بھی حکمران اپنا کاسہ اٹھا کر بیرونِ ملک مانگنے نکل گئے۔ ہر طرف سے امداد اکٹھی کی گئی، وزیر اعظم فلڈ ریلیف فنڈ بھی بنایا گیا، جس میں مخیر حضرات نے دل کھول کر حصہ ڈالا۔ مجھے علم نہیں کہ حکومتی سطح پر مجموعی طور پر کتنا فنڈ اکٹھا ہوا، لیکن خبروں سے اندازہ ہوا کہ بہت رقم اکٹھی ہوئی ہو گی۔ لیکن حکومت کی جانب سے متاثرہ علاقوں کی عوام کی مدد کے لئے کوئی خاص اقدام دیکھنے کو نہیں ملے۔ ان علاقوں میں این جی اوز اور مختلف تنظیمیں ہی زیادہ تر کام کرتی نظر آئٰیں۔ حکومتی عہدیداروں کی بس ایک ہی وڈیو دیکھی جن میں وہ قرآن پر اگلے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حلف لے کر راشن کے تھیلے سیلاب سے لٹے ہوئے مجبور لوگوں کو تھماتے ہوئے نظر آئے۔ ان لٹے ہوئے لوگوں سے حکمرانوں کو اور مل بھی کیا سکتا ہے، ایک ووٹ ہی تو ہے ان کے پاس جس کی قیمت بریانی کی ایک پلیٹ سے زیادہ نہیں۔

سیلاب کا پانی جانے کے بعد ان علاقوں کی بحالی کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آئے۔ این جی اوز اور فلاحی تنظیموں کی طرف سے متاثرہ لوگوں کے گھر بنانے کے لئے کچھ بھاگ دوڑ دیکھنے میں آئی، لیکن حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں بھی کوئی پیش رفت نہیں دیکھی۔ سیلاب کے پانی سے متاثرہ زمینوں کی بحالی بھی ایک بہت اہم مسئلہ ہے، جس کی طرف بالکل بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

میرا ایک دوست ایک متوسط طبقے کا زمیندار ہے، اس کی ضلع راجن پور میں واقع زرعی زمین پچھلے سال سیلاب کی زد میں آ گئی۔ پہاڑوں سے آئے سیلابی ریلے کو بند توڑ کر اس کے زمین سے گزارا گیا، جس کی بدولت روجھان شہر تباہی سے بچا۔

پہاڑوں سے آنے والا پانی اپنے ساتھ ریت اور پتھر لے کر آتا ہے، جس کی وجہ سے زرعی زمین قابلِ کاشت نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ، حکومت کی جانب سے، بند توڑتے وقت متاثرہ کاشتکاروں کو، سیلاب کے بعد زمین دوبارہ آباد کرنے کے لئے مدد کی یقین دِہانی کروائی گئی۔ سیلاب کے بعد سروے بھی ہوا اور نقصان کا تخمینہ بھی لگایا گیا، لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی مدد نہ مل سکی۔ میرا یہ دوست اسلام آباد تک حکومتی عہدیداروں کے پاس اپنی اور اپنے علاقے کے دیگر کاشتکاروں کی درخواستیں لے کر گیا لیکن ایکسرے کی طرح استعمال ہونے والے ان سیلاب زدگان کی کسی نے نہ سنی، تاہم گندم کی کاشت کا موسم بھی گزر گیا اور اس علاقے میں دور دور تک کوئی بھی کسان گندم کاشت نہیں کر سکا۔

یہی صورتِ حال سیلاب سے متاثرہ دوسرے علاقوں میں بھی ہے، اس دفعہ بہت سے علاقوں میں گندم کاشت نہیں ہو سکی۔ ملک میں اس وقت بھی آٹے کا شدید بحران ہے جو کہ منافع خوروں کا پیدا کیا ہوا ہے اور اب گندم کاشت نہ کرنے کی صورت میں یہ بحران اور شدت اختیار کر جائے گا۔

اگر حکومت کی طرف سے زرعی زمینوں کی بحالی کا کام سنجیدگی سے کیا جاتا تو اس ساری صورتحال سے بچا جا سکتا تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور اب اس سال حکومت کو گندم کی قلت دور کرنے کے لئے لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنی پڑے گی، جس پر زرِ مبادلہ کی ایک کثیر رقم خرچ ہو گی، جو ہمارے پاس نہیں ہے، تو یہ کیسے ممکن ہو پائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے بھکاری حکمران فاقہ زدہ عوام کو ایک بار پھر بطور ایکسرے استعمال کریں گے اور مزید امداد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، بھلا ہو ہماری مفلوک الحال عوام کا حکمرانوں کو بھیک ملتی رہے گی اور ان کے ذاتی اثاثوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

ان تباہ حال کسانوں کا کیا ہو گا۔ ان کو شاید اپنی مدد آپ کے تحت ہی کچھ کرنا پڑے گا اور معاشی مدد کے لئے مخیر حضرات اور فلاحی اداروں سے امیدیں لگانی پڑیں گی۔ میرا مشورہ ہے کہ کسانوں کو اپنی تنظیمیں بنانی چاہئیں تاکہ وہ ان مشکل حالات میں ایک دوسرے کے کام آ سکیں اور حکومتی سطح پر اپنی آواز بہتر طریقے سے پہنچا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments