مہنگائی، نااہلی اور حکومتی بے حسی کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی


آخری نشان بلیک اینڈ وائٹ دور کی ایک پاکستانی فلم تھی جس میں ہیرو اپنے باپ کے قاتلوں کو ایک ایک کرکے قتل کرتا ہے اور ان کے خون سے باپ کی قبر کے کتبے پر نشان لگاتا رہتا ہے۔ یہی کام، جب سے پاکستان بنا ہے ہمارے کرتا دھرتا اپنی ‘شاندار پالیسیوں’ کی افتتاح کے وقت قوم کے جسم پر قربانی کا نیا داغ لگا کر کرتے ہیں۔ فلم میں تو آخری نشان لگا کر انتقام پورا ہوگیا تھا لیکن ہمارے ساتھ یہ کب تک ہوگا معلوم نہیں۔ جس طرح چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر۔ نقصان خربوزے کا ہوتا ہے۔ اسی طرح ٹیکس بڑوں پر لگے یا ہم چھوٹوں پر نقصان اور وصولی دونوں ہمارے حصے میں آتی ہے۔ جس نازک موڑ سے ہمیں گذرنے کا عندیہ ملتا رہتا ہے پتہ ہونا چاہیئے کہ ہم کہیں جا بھی رہے ہیں یا صرف اس نازک موڑ کے درمیان ڈرائیونگ کرنے کی مشق کر رہے ہیں۔
جمہوری سیاست، عوامی حمایت کے بل پر وسائل اور وژن کے ذریعے قومی مسائل کے حل اور عمومی سہولیات ہر کسی کو پہنچانے کا فن ہے۔ اگر ایک سیاسی پارٹی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو الیکشن کے ذریعے دوسری سیاسی پارٹی کو ان مسائل کے حل کیلئے حکومت دیدی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں مسلسل عیر سیاسی مداخلت کاروں نے سیاست کو اتنا گندہ اور ناکارہ بنا دیا ہے کہ انتخابات ہونے کے بعد بھی کسی پارٹی کے پاس مسائل کا کوئی حل نہیں تبھی تو گزشتہ حکومت کی طرح آج کی حکومت بھی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے، ان کی کرپشن کے سکینڈلز اچھالنے اور لیک آڈیو ویڈیو کے ذریعے عوامی منورنجن کے علاؤہ کچھ نہیں کیا جاتا۔
سارے سیاستدان ایک ساتھ بیٹھیں گے بھی تو بلیم گیم کی وجہ سے حالات میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی سیاست بچی رہے عوام ملک اور اقتصاد کا کچومر نکلتا ہے تو ان کی بلا سے۔عمران ہو شہباز ہو زرداری یا مولانا، سب قربانی کا تقاضہ عوام سے کرتے ہیں۔
 قرض دینے والے ادارے جانتے ہیں کہ لینے والے قرضے کہاں اور کن مدات میں خرچ کئے جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کہاں پر اور کتنی کٹ لگا کر بہتری اور ریکوری کی گنجائش بن سکتی ہے لیکن جو جو طاقت اور مقبوضہ اختیارات کے ساتھ جہاں جہاں پر براجمان ہوچکا ہے وہ اپنے حاصلہ اختیارات اور حصے سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہے۔ آئین ان کیلئے محض ایک کتابچہ اور قانون طاقتوروں کے منہ سے نکلی ہوئی فرمان ہے۔ جس طرح بادشاہوں کے سامنے بات کرتے ہوئے پہلے جان کی امان مانگی جاتی تھی اسی طرح جان کی امان مانگنے اور پھر بات کرنے کی صورتحال بنتی جا رہی ہے۔
عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف بجلی گیس تیل اور اشیائے صرف پر ٹیکسز لگانے کی شرائط عائد کرتی ہے تب قرض دیتی ہے لیکن یہ شرائط کا دوسرا حصہ ہے، اصل حصے پر کوئی بات کرسکتا ہے نہ اسے عمومی پریس اور متعلقہ فریقین ظاہر کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے آئی ایم ایف پاکستانی عوام کی دشمن نمبر ون اور بربادی کی ذمہ دار ہے اور وہ ہمیں ٹیکسز میں جکڑ کر زندہ درگور کرنا چاہتی ہے، جب کہ اس سے تو ساری دنیا کے ضرورت مند ممالک قرضے لیتے ہیں اور ان قرضوں کے خاطر خواہ نتائج نکلتے ہیں۔ اصل مسئلہ ہمارے نظام اور مخصوص حلقوں کے دیرینہ مقاصد کا ہے جو بار بار حاصل کردہ قرضے غیر ترقیاتی مدات اور کرپشن میں ضائع کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرح سود نسبتاً کم ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں کے بنائے گئے ذہنی ماحول میں اصل ولن آئی ایم ایف اور قرض دینے والے ادارے سمجھے جاتے ہیں ان سے قرض لینے والے اور اسے اپنی مرضی سے استعمال کرنے والے نہیں۔
مریل عوام سے مزید 170 ارب کی چربی نکالنے کی بجائے جرنیلوں ججز اور سیاستدانوں کو مل احساس کرنا ہوگا کہ شاید مائی لارڈ مائی گارڈ اور وی آئی پیز کا دور گذر گیا۔ سب سے پہلے انہیں اپنی زندگی عام انسانی لیول پر لانا چاہیئے۔ انہیں اپنے اخراجات مراعات سہولیات اور عوام دشمن اختیارات سے دستبرداری کا اعلان کرنا ہوگا۔ انہوں نے مقدس اور ناگزیر ہونے کا جو لبادہ پہنا ہوا ہے اس میں وہ برہنہ ہوگئے ہیں۔ ان کی نااہلی اور حرص کی وجہ سے جگہ جگہ عوام کی توہین ہو رہی ہے ڈر ہے کہیں وہ مزید قرضوں کی ادائیگی کے بدلے میں اپنی توہین آپ کو منتقل نہ کردیں۔
حکومت اور حزب اختلاف کے نعروں وعدوں تقریروں بیانات اور ترجیحات سے لگتا ہے کہ ان کو عوامی مسائل کا ادراک ہے نہ ان کے پاس کوئی حل۔ پہلے حکمرانوں کو پانچ سال کا وقفہ دیا جاتا تھا لیکن اب پانچ سال پر محیط صبر اور جج کرنے کا عوامی پیمانہ چند مہینوں تک محدود ہوگیا ہے۔ کل عمران ناقابلِ برداشت تھا آج شہباز ناقابلِ برداشت ہے۔ کل ریٹائرڈ ججز اور جرنیلوں کا عوامی مواخذہ پانچ چھ سال کے بعد شروع کیا جاتا تھا لیکن آج ریٹائرمنٹ کے آخری مہینے میں حساب کتاب شروع کردیا جاتا ہے۔ چربی نکالنے کے ماہرین کی آنکھیں کھلنی چاہیئے، ڈر ہے کہ تقدیس اور صبر کی یہ ونڈو مزید کم نہ ہوجائے۔ مانتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسی بڑی جیل بنتا جا رہا ہے جہاں پر قیدیوں کو اپنے کھانے پینے کا بندوبست بھی خود کرنا پڑتا ہے آپ تنقید پر نئی سزائیں مقرر کر کے سب کو جیل میں ڈالو گے تو پھر قانوناً کھانا پینا بھی آپ کے ذمے ہو جائے گا۔
ظالمانہ ٹیکسز اور تنقید پر سزائیں دلانے کی بجائے طاقتوروں نے طاقت اختیار مندوں نے اختیارات وی آئی پیز نے اپنی ملکوتی حیثیت اور مراعات یافتہ نے اپنی مراعات سے بخوشی دستبرداری کا ثبوت دینا ہوگا تاکہ عوام کی نظروں میں آپ کی طاقت اختیارات حیثیت مراعات اور سہولیات کا بھرم برقرار رہے۔ حل نہیں ہے تو جواب دیں۔ جواب نہیں تو پھر حساب دینا پڑے گا۔ یہ بڑی بڑی تاریخی محلات مضبوط قلعے اور شاہانہ مقابر اپنے وقت کے طاقتوروں اختیار مندوں حیثیت مداروں اور مراعات یافتہ لوگوں کی یادگاریں ہیں، عوام کل بھی عام اور بے نام تھے آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ نام تو نامیوں کے مٹ جاتے ہیں، جاگ جاؤ، عوام آخری قربانی کیلئے تیار ہیں۔
شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments