ن لیگ کو نون لیگ سے خطرہ


مشرف دور میں جب شریف خاندان جدہ چلا گیا تو ایسا لگا کہ اب مسلم لیگ (ن) ختم ہو جائے گی لیکن اس وقت چوہدری نثار مسلم لیگ (ن) کو ختم ہونے سے بچا لیا اور مشرف کی آمریت میں بھی مسلم لیگ (ن) کو پارلیمنٹ کے اندر بطور اپوزیشن لیڈر زندہ رکھا۔ چوہدری نثار پھر نواز شریف کے واپس آنے کے بعد بھی پیپلز پارٹی کے دور میں مسلم لیگ نون کی طرف سے اپوزیشن لیڈر رہے۔ مشرف دور کے بعد قمر باجوہ کے دور میں مسلم لیگ (ن) کی ایسی تیسی پھیر دی گئی۔

جو لیگی ہتھے چڑا وہ سیدھا جیل گیا یا اس کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ کچھ جیلوں میں چلے گئے کچھ وفاداریاں تبدیل کر گئے۔ جبکہ جنوبی پنجاب کے لال، پیلے اور نیلے گھوڑوں کو نون لیگ سے نکال کر الگ پریشر گروپ بنا دیا جس کو جنوبی پنجاب محاذ کا نام دیا۔ اس گروپ کو بظاہر خسرو بختیار لیڈ کر رہے تھے لیکن پیچھے فیض حمید تھے۔ اس بات کا میں چشم دید گواہ ہوں کیونکہ اس گروپ کے لئے مجھے بطور میڈیا ایڈوائزر کام کرنے کی آفر ہوئی تھی لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اس گروپ کو لاہور کینٹ میں ایک فوجی افسر کا گھر بھی بطور دفتر دیا گیا۔ اس دفتر کو چوہدری اکرم چلاتے تھے جو بعد میں بزدار کابینہ میں بطور مشیر وزیراعلیٰ بھی کام کرتے رہے۔

خیر باجوہ ڈاکٹرائن کا دور گزر گیا۔ اب آتے ہیں موجودہ لیگی پوزیشن کی طرف۔ شہباز شریف کا اچکن پہننے کا خواب پورا ہو گیا تو نواز شریف نے دیکھا اب ہمیں الیکشن کی طرف چلے جانا چاہیے۔ نواز شریف نے شہباز شریف کو کہا دسمبر میں قوم سے خطاب کریں اور الیکشن کروانے کا اعلان کریں۔

جیسے ہی یہ بات آصف زرداری کے کانوں میں پڑی انہوں نے شہباز شریف کو اپنے کنٹرول میں کر لیا اور ساتھ انہوں نے اسمبلی کی مدت پوری کرنے پر قائل کر لیا۔ شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے مشورہ کیا وہ بھی جلد الیکشن کے حامی تھے۔ شہباز شریف نے دونوں اتحادیوں کی تجاویز نواز شریف کے سامنے رکھنے کی بجائے میاں نواز شریف کو کہا اتحادی قبل از وقت الیکشن کے حامی نہیں۔ نواز شریف بھی اتنے بے خبر نہیں تھے۔ آپ کو یاد ہو گا ان دنوں میاں نواز شریف بار بار آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن سے رابطے کرتے تھے وہ دونوں کو الیکشن کے لئے ہی قائل کرتے تھے۔

خیر جیسے تیسے کر کے دسمبر گزر گیا شہباز شریف نے پاؤں جما لیے۔ اب شہباز شریف الیکشن کروانے کا نام بھی نہیں لے رہے۔ شہباز شریف کے طرز حکومت سے لگ رہا ہے وہ بیس سال کے لئے وزیر اعظم بن کر آئے ہیں۔ مہنگائی اور ڈوبتی معیشت پاکستان کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کی سیاست اور اس کے مستقبل پر گہرے بادل لا کھڑے کر دیے ہیں۔ دوسرا فیصلہ نواز شریف نے کر دیا۔ ایک طرف نواز شریف خود پاکستان واپس آنے کی تیاریاں کر رہے ہیں دوسری طرف اچانک مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بنا دیا۔

مریم نواز کے چیف آرگنائزر بنتے ہی سب سے پہلے شاہد خاقان عباسی نے سینئر نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ نواز شریف کے اس فیصلے کے خلاف پھر خواجہ سعد رفیق بولے پھر مہتاب عباسی بھی بول پڑے، کیپٹن صفدر نے یوتھ ونگ کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ کیپٹن صفدر نے گزشتہ دنوں نے طلال چوہدری اور پرویز رشید کے کردار پر بھی کھل کے تنقید کی۔ یہ دونوں شخصیات آج کل مریم نواز کی ٹیم کے اہم رکن ہیں۔ مفتاح اسماعیل کی تو خیر وہ مسلم لیگ (ن) پر ویسے ہی بوجھ ہیں اور مس فٹ ہیں۔

مریم نواز شریف پاکستان واپس آتے ہی پارٹی میں اپنے انداز میں تبدیلیاں شروع کر دیتی ہیں پہلے سیف کھوکھر کو لاہور کا صدر بنایا پھر نوشین افتخار کو وومن ونگ پنجاب کا صدر بنا دیا۔ جبکہ ان دونوں کا کوئی سیاسی بیگ گراؤنڈ نہیں تھا۔ سیف کھوکھر کو صرف پیسے کی وجہ سے لاہور کا صدر بنایا جبکہ نوشین افتخار کو مریم نواز ذاتی طور پر پسند کرتی ہیں۔ سیف کھوکھر کو لاہور کا صدر بنانے کی وجہ سے سعد رفیق، روحیل اصغر اور ایاز صادق خوش نہیں ہیں جبکہ رانا مشہود اور بلال یسین بھی بیک فٹ پر چلے گئے ہیں۔

عنقریب شاید خواجہ عمران نذیر کو بھی لاہور کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے ہٹا دیا جائے اس کے لئے دو نام مزید زیر غور ہیں جن میں خرم روحیل اور غزالی سلیم بٹ شامل ہیں۔ مریم نواز ملتان جاتی ہیں تو صرف کانجو گروپ استقبال کے لئے موجود ہوتا ہے عبدالغفار ڈوگر گروپ منظر سے ہی غائب ہوتا ہے۔ پھر مریم نواز ایبٹ آباد جاتی ہیں تو وہاں بھی صرف امیر مقام ہوتا ہے جبکہ مہتاب عباسی غائب، اس سے قبل مریم نواز بہاولپور جاتی ہیں تو سعود مجید ہوتے ہیں اقبال چنڑ غائب ہوتے ہیں۔

سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مریم نواز ان تینوں غائب لوگوں کا پوچھنا تک گوارا نہیں کرتی۔ لیڈرشپ کا کام جوڑنا ہوتا ہے توڑنا نہیں۔ کوئی نہیں آتا تو نہ آئے اگر یہ سوچ لیڈرشپ کی ہوگی تو پھر ایسے لیڈروں کا بھی اللہ حافظ ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ پریشان وہ امیدوار ہیں جنہوں نے آئندہ الیکشن مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر لڑنا ہے ان کو تاحال معلوم نہیں ہم نے کس کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ الیکشن لڑنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو پرویز مشرف، راحیل شریف اور قمر باجوہ نہیں توڑ سکے فی الحال ایسے ہی لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو شہباز شریف اور مریم نواز نے ہی توڑ دینا ہے۔ اگر نواز شریف واپسی میں تاخیر کرتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کو مسلم لیگ (ن) سے ہی خطرہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments