جگت و خطاب سے سرگوشی تک


اس صدی کی پہلی دہائی کے آخر میں کچھ عرصہ غم روزگار کے لئے لاہور کے مضافات میں ایک بین الاقوامی کمپنی سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔ فنی زندگی کو شروع ہوئے دو سال بیت چکے تھے تو کام والی سمجھ بوجھ جاگ چکی تھی لیکن پلپلی مہارت (سافٹ سکلز) والا میدان ابھی تک چٹیل ہی تھا اور اس میں سیکھنے اور آگے بڑھنے کی ابھی بہت ضرورت باقی تھی۔ وہیں ایک صاحب سول انجینئر تھے ’اپنے کام کا وسیع تجربہ رکھتے تھے اور اپنے کام کے علاوہ بھی وہ متعلقہ دیگر چیزوں پہ اپنے افسران کو سہولت سے قائل کرنے کی صلاحیت سے لیس تھے۔ اور کبھی کبھار ان کے کہے ہوئے برجستہ ذومعنی جملے محفل میں نگینے کی مانند فٹ ہوتے تھے۔

ایسے ہی ایک دن دوپہر کے کھانے کے بعد افسران بالا کے ساتھ پیدل ہی سائیٹ تک کا سفر کرنا پڑا۔ سفر تھوڑا لمبا تھا تو افسر بالا ہی بالا (یعنی سب سے بڑے افسر) نے عام روزمرہ کی باتوں سے ہٹ کے کچھ بات چیت شروع کی کہ سفر بھی کٹ جائے اور بیزاریت کا بھی شکار نہ ہوں۔ کافی وقت گزرا تو صاحب کو احساس ہوا کہ وہ اکیلے ہی بولے جا رہے ہیں اور باقی احباب مہاوت کی طرح لگے بندھے سے ساتھ آ رہے ہیں تو خفت کم کرنے کی غرض سے بولے کہ مجھے بھی باتیں کرنے کا بہت شوق ہے ’آپ بھی سمجھتے ہوں گے بس ہر وقت بولتے ہی رہتے ہیں۔

تو ہمارے سول انجینئر صاحب کی مخصوص جگتی رگ پھڑکی‘ موصوف نے برجستہ گرہ لگائی کہ جناب بولتا وہی ہے جس کے پاس بولنے کو کچھ ہو۔ صاحب نے کن اکھیوں سے گھوری ڈالی کہ تعریف کی ہے یا لپیٹ کے ماری ہے۔ لیکن تیر تو کمان سے نکل چکا تھا۔ سب نے ہاں نے ہاں ملانا ضروری سمجھا کہ اس جملے کو تعریف ہی کے زمرے میں لیا جائے۔

بولنا ’گفتگو کرنا‘ سامعین سے فی البدیہ خطاب جیسے کام آج کل باقاعدہ فن (سائنس) کا درجہ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی اناڑی سا شخص اٹھ کے ’منہ تیانے‘ یہ سب نہیں کر سکتا۔ بلکہ اس کے لئے باقاعدہ تربیتی ادارے ہیں جو ایسی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ انسان چند سال ہی میں الفاظ بولنا سیکھ جاتا ہے لیکن کون سا لفظ کہاں بولنا یہ سیکھتے سیکھتے عمر لگ جاتی ہے۔ الفاظ محض بات چیت کا ذریعہ ہی نہیں ہیں بلکہ گفتگو کے دوران الفاظ کا انتخاب ’لہجے کا اتار چڑھاؤ‘ موقع کی مناسبت اور گفتگو کا محل کہے گئے الفاظ میں جان ڈال دیتا ہے۔ شاید اسی لئے تلوار کی مناسبت سے قلم یا الفاظ کی کاٹ جیسی اصطلاحات نے جنم لیا۔

اسی طرح کے کئی اور بھی محاورے وجود میں آئے جس میں گفتگو کی نزاکت اور الفاظ کے چناؤ کی اہمیت اجاگر کی گئی۔ عملی زندگی میں بھی تربیت کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کیسے کسی کو مخاطب کرنا ہے ’اپنا مدعا کیسے بیان کرنا ہے۔ روزمرہ کی رسمی محافل ہوں یا بے تکلف دوستوں کی بیٹھک‘ کار سرکار کی کوئی عرضی ہو یا کسی دلربا کے نام خط ’سبھی میں الفاظ اور ان کے انتخاب کا معاملہ نہایت اہم ہوتا ہے۔ یہ تمام کار جہاں اپنی جگہ لیکن ایک در ایسا بھی ہے جو ان روایتی اور رسمی الفاظ کی حاجت سے مبرا ہے۔

اس بارگاہ عالی میں الفاظ سے زیادہ نیت اور دل کے خلوص کی اہمیت ہے۔ وہ ذات عالی واحد ہستی ہے جو اپنے بندے کی بات اور اس کے پلٹنے کا شدت سے انتظار کرتی ہے۔ ساری عمر کفریہ الفاظ بولنے والا اگر بے خیالی میں ہی اس کا نام پکار لے تو وہ رحیم مولا اس کی اس پکار پہ بھی جواب دیتا ہے۔ وہ کسی بھی ملمع زدہ ’مرصع اور بناوٹی الفاظ کا مشتاق نہیں ہے‘ وہ تو محض نیک نیتی اور خلوص دل کا متمنی ہے۔ وہ الفاظ کے باطن میں چھپے اخلاص کو دیکھتا ’پرکھتا اور پھر اس کے مطابق عطا کرتا ہے۔ اپنے بندے کی بات سننے کے شوق کا اندازہ لگانے کو یہ اک جملہ کافی ہے کہ:

سجدے میں کئی گئی سرگوشیوں کو بھی وہ اپنے عرش پہ سنتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments