پاپولر ادیب، شاعر، فنکار کی مجبوریاں اور عقابی آنکھ


نارسائی، گمنامی، فقر، دھتکار، پھٹکار قدرت کی طرف سے ایک تحفہ ہے، جسے پورے دل سے قبول کر لیں تو اپنی ذات پر اعتماد بڑھ جاتا ہے۔

پھر آپ کسی بزرگ فقرے باز کے چند پھکڑ جملے جو فوج اور حکومت کی طرف اچھالے گئے، اس کی پاپولر رہنے کی مجبوری سمجھ کر، سوزش دل کی طمانیت اور جن کا آپ کچھ نہیں بگاڑ سکتے ان پر ٹھٹھا اڑا کر بے جان بے ربط فقرے کو ہوا میں بکھیر دیتے ہیں۔ اور بزرگ فقرے باز اگلی باری کے لیے مزید چند لائنیں اختراع کر لیتا ہے۔

اگر بڑے میاں اتنے ہی دبنگ ہیں تو ساتھ کھڑے حامل ستارۂ امتیاز کو صرف نظر بھر کے ہی دیکھ لیتے۔

ایک ہوتی ہے تن خواہ، جو تن کے اندر باہر کار خیر کرتی ہے۔ اس کار خیر کے لیے تنخواہ دینے والے کی غلط پالیسیوں اور ادارے کے غلط رجحانات پر لب سیے رہتے ہیں لیکن ادارے کی حدود سے باہر نکل کر سب ہی ادارے کے سربراہ کے لیے مغلظات بک کر اپنے دل کی تشفی کا سامان کرتے ہیں۔ یہ بھی بڑی اچھی تھراپی ہے بھڑاس نکلنا بہت ضروری ہے۔

مگر ہمارے ہاں ایک قوم ایسی ہے جو آپس میں مل کر بھی غائب کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں۔ بات نہ پہنچ جائے۔ کرسی پر لگے ٹیگ کی تعداد کم نہ ہو جائے۔

ایک ادیب اور شاعر کو پیسے سے نہیں خریدا جا سکتا لیکن اسٹیج پر رکھی کرسی پر اس کے نام کا ٹیگ لگانے کا اطمینان دلا کر آپ اسے اپنا غلام بنا سکتے ہیں۔ وہ ادیب، شاعر، دانشور ’درویش، فلسفی اب مائیک سنبھالے گی / گا۔ عورتوں، ملازموں کے ساتھ صنفی امتیاز پر تقریر کرے گی /گا۔ غریبوں کے حال، بڑھتی مہنگائی پر آواز رندھے گی

اسٹیج کے سامنے کسی بیورو کریٹ شخصیت کے منہ پر زباں دراز کر کے تالیاں بجانے والوں پر رعب طاری کر دے گی/ گا

فقروں پر فقرے گڑھے جائیں گے تالیاں نہ رکیں گی۔ تالیاں سلامت رہیں۔

مگر تقریر کے اختتام پر حامل ستارہ امتیاز کی مدح سرائی میں جگالی ضرور ہو گی، نہ کی تو طرم خان /خانم کو لگتا ہے کہ اس کی کرسی پر لگا ٹیگ دھندلا جائے گا۔

ذاتی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے جب یوں سامنے بالکل سیدھ میں کرسی کے ٹیگ پر نظر ہو مگر آنکھوں کے ڈیلے کسی اور طرف ہوں تو چشمہ لگائیں، بال رنگیں، وگ لگائیں یا فیس لفٹ کریں۔ بھینگے پن، لقوہ زدہ، بے بال و پر، اسٹیج، مائیک اور شہرت کی ہوس نے ان کی شکلیں بگاڑ دی ہیں۔

عقابی خونی آنکھ (جسے زندہ شکار پسند ہے) ایسے حریصوں کا شکار کرنے میں کامیاب ہے۔ اسے معلوم ہے کون ”پاپولرز“ اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ( انہیں لکھاری کہنا ادب کی توہین ہے۔ )

مائیک پر نام کے پکارے جانے کا نشہ ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ کیوں کہ جو نظر آتا ہے وہی نظر آتا ہے۔ نظر آنا ہی پاپولیرٹی ہے۔ معاشرے میں یہ بے چارے ادیب اور شاعر عوام سے جڑے رہنے کے لیے ایسی کٹھنائیاں برداشت کرتے ہیں، کرسی پر لگے ٹیگ اور دعوت نامے کے کارڈ اور تقریب میں تقدیم و تاخیر کی فکر میں گھلے جاتے ہیں، عوام کے دکھ ان کے کاغذ اور زبان پر مچلتے ہیں، جنہیں عوام تک پہنچانے کے لیے بقول انور مقصود یہ مرے جاتے ہیں۔

پس تحریر یہ کہ فن کی ترویج پنجاب میں بہت پہلے سے ہے، ہوتی رہے گی لیکن احمد شاہ کو اتنا کشٹ اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور پنجاب کی آرٹس کونسل نے کس مصلحت یا آشیر باد کے تحت قبول کیا۔ کراچی آرٹ کونسل کو صوبوں میں جانے کے بجائے سندھ کے سارے شہروں میں جا کر وہاں کے شاعروں ادیبوں کی کتب اور ادب کی ترویج کے لیے جانا چاہیے۔ مگر کراچی کے ”پاپولر“ ادیبوں کو لے جانے کی ضرورت نہیں۔

پھر اس بے ہنگم اجتماعی ستائش باہمی کے فروغ کے بجائے جس غرض سے گرانٹ ملتی ہے یعنی ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کے فن، سخن کو مہمیز اور ان کی زندگی کے مسائل کو کم کرنے لیے کام کیجیے۔ بے شک اس کام کے لیے ساتھ بینڈ باجے والوں کو بھی لے جائیے۔ مگر پھر وہی بات کہ ایسے کام کا کیا فائدہ جو نظر نہ آئے۔ اب یہ میلے ٹھیلے نظر آتے ہیں، تو جیو بھی خبر دیتا ہے۔ حامد میر بھی خبر لیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments