آئی ایم ایف پاکستان میں پیٹرول، گیس، بجلی کی قیمتیں زیادہ کیوں چاہتا ہے؟


مہنگائی
پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط پر ’منی بجٹ‘ پیش کیے جانے کے بعد ملک میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان نے جنم لیا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے بدھ کو پیش کیے جانے والے ضمنی مالیاتی بل میں حکومت نے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے ہیں جس میں جنرل سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد اور لگژری آئٹمز پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کیا گیا ہے۔

سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں ڈیڑھ سے دو روپے فی کلوگرام اضافہ ہوا ہے جبکہ شادی کی تقریبات کے بلوں پر 10 فیصد کی شرح سے ودہولڈنگ ایڈجسٹیبل ایڈوانس انکم ٹیکس کا نفاذ بھی کیا گیا ہے۔

ابھی عوام ان تمام ٹیکسز اور ان کے نتیجے میں ماہانہ آمدن پر پڑنے والے اثرات سمجھنے کی کوشش میں تھے کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 22 روپے، گیس کی قیمت میں 112 فیصد جبکہ ایل پی جی کے گھریلو سلنڈر کی قیمت میں 26 روپے 62 پیسے اضافہ کر دیا ہے۔

یہ اضافہ پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دے گا اور ان کی ماہانہ آمدن مزید سکڑ جائے گی لیکن حکومت کی جانب سے ان تمام اقدامات کو ملک کی خراب معاشی صورتحال میں بہتری کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے نوویں مشن نے 31 جنوری سے نو فروری تک پاکستان کا دورہ کیا تھا اور حکومت کو معاشی معاملات پر مزید عملدرآمد کرتے ہوئے غیر ضروری سبسیڈیز کو ختم کرنے، مستحکم آمدن کے ذرائع اختیار کرنے سمیت مختلف اقدامات کرنے کا کہا تھا۔

پیٹرول، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر ٹیکس اور اضافے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کیوں چاہتا ہے کہ پاکستان میں ہر چیز خصوصاً پیٹرول، بجلی، گیس وغیرہ عوام کے لیے مہنگی ہو؟

بی بی سی نے اس بارے میں معاشی امور کے ماہرین سے بات کی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا واقعتاً آئی ایم ایف کی پالیسیاں سخت ہیں اور کیا ملک میں قیمتوں کا تعین وہ کرتا ہے؟

مہنگائی

آئی ایم ایف ملک میں پیٹرول، گیس، بجلی کی قیمت کیوں زیادہ چاہتا ہے؟

ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں کا تعین آئی ایم ایف نہیں بلکہ نیپرا اور اوگرا جیسے ریگولیٹر کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ریگولیٹر جن قیمتوں کا تعین کرتے ہیں حکومت اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث وہ قیمتیں صارفین تک نہیں پہنچا پاتی جس کے باعث حکومت کو سبسڈی دینی پڑتی ہیں اور حکومت کو اس مد میں خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر اوگرا نے ستمبر 2020 میں گیس کی جو قیمت مقرر کی وہ اب تک ہم صارفین کو نہیں دے سکے جس سے 1600 ارب روپے کا خسارہ پیدا ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آئی ایم ایف یہ کہتا ہے کہ آپ ریگولیٹر کی جانب سے مقرر کردہ قیمت صارفین تک براہ راست پہنچائیں تو حکومت کو اضافہ کر کے خسارے کو کم کرنا پڑتا ہے اور بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمت بڑھ جاتی ہیں۔

عارف حبیب لمیٹیڈ کی لیڈ اکانومسٹ اور ماہر اقتصادیات ثنا توفیق نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں چیزوں کی قیمتیں مہنگی ہوں۔

’ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنی معیشت کو درست سمت میں لے کر آئیں۔ کسی بھی ملک کی معیشت کو درست سمت میں لانے کے لیے جو اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں اس سے مہنگائی ہوتی ہے۔ گیس، بجلی اور پیٹرول کے نرخوں پر دی جانے سبسڈی ختم کرنے سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے حکومت کا مالی خسارہ کم ہو گا۔ مگر اس کا ملبہ عام صارف پر پڑتا ہے اور اس کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔

ثنا توفیق کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان سے کہتا ہے کہ آپ اپنی کرنسی کو فری فلوٹ پر رکھیں اور مصنوعی طور پر اس کو مت روکیں تو اس سے آپ کے روپے کی قدر میں کمی ہوتی ہے۔ اور درآمدات کی صورت میں آپ مہنگی چیزیں درآمد کرتے ہیں اور اس کا اثر بھی صارف پر پڑتا ہے۔

صحافی و ماہر اقتصادی امور شہباز رانا کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ آپ صارفین سے کسی بھی چیز یعنی، گیس، بجلی و پیٹرول کی اصل قیمت وصول کریں۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ جہاں ہم آئی ایم ایف کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ جس قسم کے ٹیکسز ابھی ضمنی مالیاتی بل میں لگائے گئے ہیں آئی ایم ایف کو یہ قبول نہیں کرنے چاہیے تھے۔

آئی ایم ایف

ان کا کہنا تھا کہ ’جی ایس ٹی کا ریٹ تو بڑھا دیا گیا لیکن تاجروں پر نئے ٹیکس نہیں لگائے گئے۔ یہ آئی ایم ایف کی مجرمانہ غفلت ہے کیونکہ ایک طرف وہ حکومت پر دباؤ ڈالتا ہے کہ مستقل اقدامات اٹھائے۔ ان کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی میں اضافے سے بہت زیادہ مہنگائی بڑھے گی۔‘

یہاں یہ سوال بھی ذہن میں جنم لیتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف پاکستان کے معاشی معاملات پر اتنا اثر رسوخ رکھتا ہے تو پاکستان کو قرض دینے میں تاخیر کیوں کر رہا ہے؟

آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں؟

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف میں اس وقت اعتماد کا فقدان ہے اور اسی وجہ سے آئی ایم ایف کے رواں پروگرام کا ساتواں جائزہ اجلاس بھی تاخیر کا شکار ہوا اور اب نوویں مشن کا جائزہ اجلاس بھی نومبر سے تاخیر کا شکار ہوتے ہوئے فروری تک آ گیا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان حکومت نے اپنے ہی کیے ہوئے معاہدے سے انحراف کیا اور معاہدے کے کلیدی نکات کے برعکس فیصلے کرتے ہوئے اس کو ماننے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کا معاہدہ تعطل کا شکار ہوا اور آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان بھروسے کے حوالے سے ایک وسیع خلیج آ گئی۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات سے آئی ایم ایف کا اعتماد بحال ہو گا اور قوی امکان ہے کہ اگلے ایک سے دو ہفتوں میں حکومت آئی ایم ایف سے سٹاف لیول مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔

ثنا توفیق کے مطابق آئی ایم ایف پاکستان کو قرض کی قسط جاری کرنے سے اس لیے ہچکچا رہا ہے کیونکہ گذشتہ برس ستمبر میں ساتویں اور آٹھویں جائزہ اجلاس کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کو معیشت کے حوالے سے چند اقدامات اٹھانے کے لیے کہا تھا جن میں گیس، بجلی پیٹرول سمیت دیگر چند سبسڈیز ختم کرنا شامل تھا لیکن حکومت نے اس اقدامات میں تاخیر کی ملکی خزانہ کے ذخائر تین ارب سے بھی نیچے آ گئے۔

ثنا توفیق کا کہنا تھا کہ حکومت نے سیاسی وجوہات کے باعث اقدامات نہیں کیے کیونکہ یہ براہ راست عوام پر اثر انداز ہونے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ پہلے آپ (پاکستان) یہ اقدامات اٹھائیں، غیر ضروری سبسڈیز کو ختم کریں اور اپنے خسارے کو کم کریں تو ہم آپ کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھا سکتے ہیں اور امید ہے کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات جو یقیناً بہت سخت ہیں، سے آئی ایم ایف کا اعتماد بحال ہو گا اور مارچ میں پاکستان کو قسط جاری ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آئی ایم ایف آخر پاکستان سے چاہتا کیا ہے

معاشی بحران: پاکستان کے لیے آئی ایم ایف امداد کتنی اہم ہے؟

ہر حکومت کی جانب سے ’چلو چلو آئی ایم ایف چلو‘ کی پالیسی پاکستان کے لیے مفید رہی یا نقصان دہ؟

معاشی امور کے ماہر قیصر بنگالی اس بارے میں کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض جاری کرنے میں ہچکچاہٹ کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔

ان کا کہنا تھا آئی ایم ایف ایک بینک ہے اور کوئی بھی بینک قرضہ دیتا ہے تو اسے یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ اس کو اپنی رقم واپس مل سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی معیشت دو بڑے مسائل سے دوچار ہے، ایک بجٹ مالی خسارہ اور دوسرا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے، ہمیں ان دونوں خساروں کو کم کرنے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وجہ سے آئی ایم ایف میں پاکستان کو قرض جاری کرنے میں ہچکچاہٹ ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا ایک پالیسی ڈھانچہ ہے اور وہ اس کے تحت ہی کسی ملک کو پرکھ کر قرض جاری کرتے ہیں۔

کیا آئی ایم ایف نے عوام کو مہنگائی سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات بھی تجویز کیے ہیں؟

ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارہ یہ ضرور کہتا ہے کہ آپ معاشرے کے غریب طبقے کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈیز ضرور دیں اسی وجہ سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے کر دیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹارگٹڈ سبسڈیز دینا ایک ٹھیک ہے لیکن زراعت کے شعبے میں ٹیوب ویلز یا کاروباری صنعت کو 118 ارب روپے کی بجلی سبسڈی دینے سے خسارہ بڑھتا ہے اور آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔

عوام

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق حکومت خود بھی کچھ اقدامات اٹھا سکتی ہیں جیسا کہ ملک میں کم از کم اجرت 25 ہزار سے بڑھا کر 30 ہزار کر دے۔ کم آمدن والے افراد کو پیٹرول کی مد میں ٹارگٹڈ سبسڈی دی جا سکتی ہے۔

اس سوال کے جواب میں ثنا توفیق کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو کسی بھی ملک کے غریب اور کم آمدنی والے طبقے کی فکر ہوتی ہے اور وہ ان کے سماجی تحفظ کے لیے اقدامات کے سلسلے میں کہتا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے لیکن ان کی سوشل پروٹیکشن پر خرچ کرے۔

ان کا کہنا تھا اسی لیے گذشتہ روز جاری ہونے والی ضمنی مالیاتی بل میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔

ثنا توفیق کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ حکومت نے جو پیسے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے خرچ کیے ہیں اس بارے میں بھی امید کی جا سکتی ہے کہ آئی ایم ایف اس حوالے سے پاکستان کو کس چھوٹ دے سکتا ہے۔

جبکہ ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ کسی ملک کی عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنے کی ذمہ داری آئی ایم ایف کی نہیں ہے بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ آئی ایم ایف پاکستانی حکومت کو سبسڈی میں کمی کرنے یا ختم کرنے کا تو کہتا ہے لیکن ملک کے دو بنیادی معاشی مسائل کی جانب توجہ کیوں نہیں دیتا۔

بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ، حکومت کی آمدن سے زیادہ اخراجات ہیں تو آئی ایم ایف حکومت کے اخراجات کم کروانے پر توجہ کیوں نہیں دیتا، دفاعی بجٹ کم کروانے پر توجہ کیوں نہیں دیتا؟

ان کا کہنا تھا کہ یہ سوالات آئی ایم ایف کے سیاسی مقاصد کے بارے میں خدشات کو جنم دیتے ہیں کہ شاید آئی ایم ایف ملک کے عوام کو تو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا رہا ہے لیکن وہ ملکی اسٹیبلشمنٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔

قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ ’ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نجکاری کی بات تو کرتے ہیں لیکن پاکستان کی فوج کے کاروباری اداروں کی نجکاری کی بات کیوں نہیں کرتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے دباؤ میں جو اقدامات اٹھائے ہیں اس سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments