سیکولرازم سے ہندوتوا کی طرف تیزی سے بڑھتا بھارت


کوئی بھی ریاست علاقائی یا پڑوسی ریاستوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتی کیونکہ کئی حوالوں سے یہ تبدیلیاں براہ راست اس کی سلامتی، معاشی ترقی اور اندرونی استحکام پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ہمارے ارد گرد کے ممالک اور خطے میں اس وقت تیزی سے تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں جن پر گہری نظر رکھنے اور اس حوالے سے بروقت ضروری سفارتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ خواہش کے باوجود بھی ہم ان تبدیلیوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔

لیکن بدترین سیاسی اور معاشی بحرانوں کا شکار ہونے کی وجہ سے ہم اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں خاص کر بھارت اور افغانستان کی انتہا پسند حکومتوں اور ان کی وجہ سے پاکستان پر پڑنے والے اثرات سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ افغانستان اور مڈل ایسٹ کی صورتحال پر تو کسی حد تک ہماری نظر ہے لیکن ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جہاں سیکولرازم کی موت اور ہندوتوا کا جنم ہو رہا ہے جو خطے کے امن کے لئے مستقبل قریب میں سنگین خطرے کا باعث بنے گا کیونکہ اس عمل سے ایک نیا انسانی المیہ شروع ہو سکتا ہے۔

اگر حقائق اور واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ بھارتی قیادت ایک عظیم ہندو ریاست کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ہندو نیشنل ازم، قومی اور سماجی سطح پر ہندو قدامت پرستی، بھارت میں صرف ہندوؤں کی اجارہ داری، فاشسٹ بنیادوں پر ہندوتوا کا فروغ اور ہندوؤں کو سیاسی و معاشی قوت بنانے کے لئے گاندھین سوشلزم بی جے پی کے منشور کا حصہ ہیں۔

اس وقت پاکستان اور انڈونیشیا کے بعد مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں دو سو چار ( 204 ) ملین ہے جو وہاں کی کل آبادی کا 15.5 فیصد ہیں جبکہ امریکی تحقیقاتی ادارے پیو (PEW) کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی یہ آبادی 2050 تک بڑھ کر 311 ملین ہو جائے گی جس سے بھارت ایک خوف میں مبتلا ہے۔ دوسری طرف چھوٹی ذات کے دلت ہندو بھی چھوت چھات، حقوق کے نہ ملنے اور امتیازی سلوک روا رکھے جانے کے سبب اسلام قبول کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

اس پس منظر میں بھارت میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کی جا رہی ہے اور ”گھر واپسی پروگرام“ کے تحت مختلف حیلے بہانوں یا ریاستی مشینری کے استعمال سے یا تو انھیں دوبارہ ہندو بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے وگرنہ بصورت دیگر ان کی شہریت ختم کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ راتھ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے کیے جانے والے جنگی جرائم کا دفاع کرنے پر بھارت کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت جو ایک حادثے میں مارے جا چکے ہیں کو مجرمانہ سوچ رکھنے والا شخص قرار دیا تھا۔

نہ صرف بپن راوت بلکہ بعد میں آنے والے بھارتی آرمی کے سربراہوں کا رویہ در اصل مجموعی بھارتی پالیسیوں اور رویے کا عکاس ہے۔ آسام جہاں مسلمانوں کی آبادی جموں و کشمیر کے بعد سب سے زیادہ 34.2 فیصد ہے وہاں بھی مسلمانوں کے لئے مسائل کھڑے کیے جا رہے ہیں جس کی ایک مثال محمد امیر الدین کا خاندان ہے جو آسام کے ایک کانگریسی لیڈر اور وہاں کی صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہے ہیں۔ ان کے خاندان کو پہلے ووٹر لسٹ سے خارج کیا گیا، پھر انھیں فارن ٹریبونل کے ایک سپیشل بینچ کے سامنے بھارتی شہریت ثابت کرنے کے لئے کہا گیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ امیر الدین متحدہ ہندوستان کے وقت سے آسام کے رہائشی ہیں اور ان کے گھر میں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی جیسی شخصیات تک آ چکی ہیں۔ اسی طرح مقامی پولیس میں پچیس سالوں سے خدمات انجام دینے والے ایک افسر ابو اعلیٰ کو بھی بھارتی شہریت ثابت کرنے کا نوٹس ملا۔ بی جے پی کی حکومت نے شہریت کے قانون میں ایسی ترامیم اور تبدیلیاں کی ہیں جس سے مسلمانوں کو غیر ملکی ثابت کر کے انھیں بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ یا تو وہ گھر واپسی پروگرام کے تحت ہندو مذہب قبول کریں یا پھر ہندوستان چھوڑ دیں۔

ریاست میں شہریت کے نئے جابرانہ قوانین کے تحت کسی خاتون اہلکار کے بغیر رات گئے گھروں پر چھاپے مار کر مسلم خواتین کو گرفتار کر کے انھیں مجرموں کے ساتھ حراستی کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حراستی کیمپوں میں رہنے والی ایسی مسلمان خواتین کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ آسام میں پہلی بار بی جے پی حکومت کے قیام کے بعد سے وہاں کے مسلمان عدم تحفظ اور خوف و ہراس کا شکار ہیں کیونکہ بی جے پی انھیں ووٹ کے حق سے محروم رکھ کر ریاستی سیاست سے دور رکھنا چاہتی ہے۔

نیلی، چولکاوہ، مظفر نگر، کلکتہ، بھیوانڈی، ہاشم پورہ، میرٹھ، مراد آباد، ایودھیا، بھاگل پور، احمد آباد اور بمبئی سمیت بھارت کے کئی علاقوں میں فسادات کی نذر ہونے والے ہزاروں شہید مسلمانوں کو آج تک انصاف نہیں مل سکا ہے جس کی وجہ سے فرقہ پرست عناصر کو قتل و غارت کے لئے مزید شہ ملتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گجرات فسادات کا ذمہ دار نریندر مودی بھارت کا وزیر اعظم ہے اور بی بی سی جیسا ادارہ اس پہ ایک مصدقہ حقائق کے ساتھ ڈاکومنٹری بھی بنا چکا ہے۔

اس کے بعد جس طرح انڈیا میں بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے اس سے بھارتی ہندوؤں کے رویوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف دھرم جاگران سمیتی نامی ایک تنظیم نے بھارت کو مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں سے پاک کرنے کا اعلان کیا تھا اور ایسی تنظیموں کو درپردہ بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ ویشوا ہندو پریشد کے سیکرٹری جنرل چمپت رائے نے میل ٹوڈے نامی اخبار کو ایک انٹرویو میں یہ منطق بیان کی کہ ”ہمارا ماننا ہے کہ بھارت میں اصل مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے، مسلمان کمیونٹی میں رہنے والے افراد زیادہ ترنسلی طور پر ہندو ہی ہیں کیونکہ ان کے آبا و اجداد کو زبردستی مسلمان بنایا گیا تھا۔“

دھرم جاگران سمیتی کے دعووں کے مطابق ہندو دھرم میں واپسی کے پروگرام کے تحت اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے چھ لاکھ افراد کو دوبارہ ہندو مذہب میں داخل کیا جا چکا ہے۔ اس تنظیم کے اتر پردیش کے سربراہ راجیشور سنگھ کا کہنا ہے کہ ہندو دھرم میں واپسی کے پروگرام کی جو لوگ مخالفت کر رہے ہیں در اصل وہ لوگ مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں۔ دوسری طرف یو پی منسٹر اعظم خان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کا رویہ طالبان جیسا ہے جو بھارتی آئین کی عملداری پر یقین نہیں رکھتے، ان کا ایجنڈا انسان دشمن ہے۔ اسلام سے ہندو مذہب قبول کرنے والے ایک شخص قادر شیخ کا کہنا ہے کہ ہندو اللہ اکبر کی آواز کو اپنے خلاف جنگ اور قتل کا اعلان سمجھتے ہیں۔

یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) جس کی رپورٹ کو یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سرکاری طور پر جاری کرتا ہے کے مطابق 2014 کے بعد بھارت میں اقلیتوں اور دلت ذات کے ہندوؤں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور ان کے سماجی بائیکاٹ اور زبردستی تبدیلی مذہب جیسے واقعات میں انتہائی اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی سپیشل میرج ایکٹ 1954 کے مطابق اگر کوئی ہندو اسلام یا عیسائیت قبول کر لے تو وہ اپنے بچے پر گارڈین کا حق کھو دے گا۔

اسی طرح ایک ہندو شادی شدہ عورت اگر اسلام یا عیسائیت قبول کرتی ہے تو وہ شوہر کی وراثت سے محروم ہو جائے گی لیکن اقلیتوں کو ہندو بناتے وقت مذہبی آزادی کے نام پر بنائے گئے یہ ایکٹ نافذ نہیں ہوتے کیونکہ اس کی تشریح ’گھر واپسی‘ کے طور پر کی جاتی ہے۔ امریکی رپورٹ کے مطابق گھر واپسی پروگرام کے تحت مذہب تبدیل کرانے کے لئے طاقت کا استعمال، فراڈیا ترغیب قابل تعزیر جرم نہیں ہے۔ دوسری طرف گاؤ کشی کے الزامات کے تحت مسلمانوں پر تشدد اور ان کا ماورائے عدالت قتل معمول بن چکا ہے جبکہ سیاسی جماعتوں اور دیگر اداروں میں بھی ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

یو پی جہاں دیگر بھارتی ریاستوں کی نسبت سب سے زیادہ تعداد میں مسلمان ہیں وہاں ایک انتخابات میں بی جے پی نے کسی مسلمان امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا جبکہ پچھلے انتخابات میں گو ٹکٹ تو دیے گئے لیکن اپنی پالیسیوں کی بدولت بی جے پی مسلمان ووٹروں کو مائل نہ کر سکی کیونکہ کسی اعتدال پسند شخص کی بجائے وہاں وزارت اعلیٰ کا منصب ایک ہندو مذہبی راہنما یوگی ادتیا ناتھ کو دیا ہے جو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ اپنے تعصب کے لئے مشہور ہے۔

اس نے 1800 عیسائیوں کو ہندو مت میں داخل کیا جب کہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک وہ مکمل طور پر بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل نہیں کر لیتا۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ گاندھی، نہرو اور مولانا عبدالکلام آزاد کا سیکولر بھارت امیت شاہ، مودی اور یوگی جیسے بھارتیہ جنتا پارٹی کے راہنماؤں کی بدولت اب ہندوتوا کے عہد میں داخل ہو چکا ہے۔ تمام مسائل کے باوجود بھارت سیاسی استحکام کی بدولت ایک مضبوط بظاہر ایک مضبوط معیشت رکھتا ہے لیکن اگر ہندوتو پالیسی کا ارتقا جاری رہا تو ساری معاشی کامیابیاں پانی کے بلبلے میں بھی تبدیل ہو سکتی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کو اپنی تمام توجہ سیاسی استحکام اور معاشی بہتری اور پیداوار پر صرف کرنا ہو گی۔ بھارت سے معاشی تعلقات استوار کرنے سے نہ صرف پاکستان کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہو سکتی ہے بلکہ اس سے مسلمانوں کے بارے میں بھارت کے متعصبانہ رویوں کو بھی لگام دی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments