علماء اہل حدیث اور برطانوی حکومت کے خلاف اعلان جہاد


Queen Victoria

با ادب با ملاحظہ ہوشیار شہنشاہ ہند تشریف لاتے ہیں۔ مغل بادشاہوں کے قلعوں میں یہ صدا اکبر جہانگیر شاہجہاں اور اورنگ زیب کے دور میں تو بلند کی جاتی تھی لیکن اسی طمطراق اور اہتمام سے لال قلعہ میں بہادر شاہ ظفر کے دور میں بھی بلند کی جاتی تھی۔ ارد گرد موجود چند تنخواہ دار ملازم جھک جھک کر سلام بھی کرتے تھے۔ اور بادشاہ سلامت بڑی بے فکری سے پر وقار انداز میں چلتے ہوئے دیوان عام یا خاص یا زنان خانے میں تشریف لے جاتے۔

اور فکر کس بات کی ہونی تھی سلطنت تو کب کی ختم ہو چکی تھی، اب تو صرف آباء کی عظمت کو نبھانے کا فرض ادا کرنا تھا۔ کیا کبھی اس بھلے مانس کو یہ خیال آیا ہو گا کہ اب تو دہلی پر بھی میری حکومت نہیں رہی۔ انگریز کب کے ملک پر قابض ہو چکے۔ لیکن عظمت رفتہ کی افیم جیسا موثر نشہ کوئی نہیں۔ اور اس نشہ کا انجام یہ ہوا کہ ایک روز بادشاہ سلامت کی سواری باد بہاری رنگون جا کر رکی۔ کیا ہم بہادر شاہ ظفر پر ہنسنے کا کوئی حق رکھتے ہیں۔ نہیں۔ کیونکہ اس سے بھی بد تر بیماری میں ہم خود مبتلا ہیں۔

جو اقوام اپنی صحیح تاریخ سے واقف نہیں ہوتیں یا انہیں ایک منصوبہ کے تحت خود ساختہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ برے بھلے کی پہچان کھو دیتی ہیں۔ خاص طور پر اگر کسی قوم کو یہ باور کرا دیا جائے کہ تمہارے آبا و اجداد تو ہمیشہ سے دنیا پر حکمرانی کرتے آئے ہیں اور ان کی ہیبت سے پوری دنیا کانپا کرتی تھی کہ اگر ان کا خون جوش میں آ گیا تو نہ جانے کیا ہو گا؟ تو اس قوم میں ایک خاص مزاج پیدا ہوتا ہے جو انہیں دنیا کی روش سے ہٹ کر محض آباء کی فرضی شجاعت اور عظمت کا مقلد بنا دیتا ہے۔

ایسی اقوام تعلیم کی طرف توجہ کریں نہ کریں، ان کی اقتصادی حالت بد سے بد تر ہوتی جائے اور وہ معمول کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی دوسروں کی طرف دیکھنے کے محتاج ہوں، پوری دنیا ان کے متعلق جتنی مرضی منفی رائے رکھے، وہ ان سب باتوں سے بے نیاز ہو کر اپنے آبا و اجداد کی عظمت کے قصے سن سن کر ان پر سر دھنتے رہتے ہیں۔

ہم بچے تھے، جوان ہوئے اور پھر بوڑھے ہو گئے۔ یہی سنتے آئے کہ جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا تو یہ فرنگی ہر وقت اس بات سے خائف رہتے تھے کہ اگر مسلمانوں کا جذبہ جہاد جوش میں آ گیا تو ہماری خیر نہیں۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ علماء کبھی ان غاصبوں کو قبول نہیں کیا تھا اور انہوں نے جو جہاد کے فتوے صادر کیے تھے وہ ہر وقت انگریزوں کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہے تھے۔ اس سے قبل خاکسار نے ایک کالم ’شہنشاہ جارج پنجم اور علمائے دیوبند کا اعلان جہاد‘ لکھا تھا کہ خود دیوبند کا ترجمان رسالہ باقاعدہ برطانوی بادشاہ کی اطاعت اور وفاداری کا اعلان کر رہا تھا۔ اس کالم میں اس دور میں نمایاں ترین اہل حدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی کے نظریات پیش کیے جائیں گے۔ یہ صاحب رسالہ اشاعۃ السنہ کے ایڈیٹر بھی تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں کئی علماء بار بار برطانوی حکومت کو اس طرف توجہ دلا رہے تھے کہ وہ علماء کو استعمال کر کے لوگوں کو اس طرف توجہ دلائے کہ اس حکومت کی اطاعت اور اس کے خلاف بغاوت نہ کرنا ان کا مذہبی فریضہ ہے۔ چنانچہ 1884 میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے ایک طویل تحریر میں حکومت سے اس بات کا شکوہ کیا کہ میں نے حکومت کی تائید میں ایک رسالہ ’الاقتصاد فی الجہاد‘ لکھا تھا لیکن حکومت نے اس طرف توجہ نہیں کی گئی اور وہ صندوق میں بند پڑا ہے۔ وہ لکھتے ہیں

’اس صورت میں حکومت کا پولیٹیکل فرض ہے وہ اس قسم کے مسائل و رسائل اور فضلاء و علماء وقت سے (جو ان کی رعایا ہیں اور بعض ان کے ملازم و پنشنر ) لکھوا کر اطراف کابل اور دیگر سرحدی ممالک اہل اسلام میں تقسیم کرائے اور مسلمانوں کو ان کے مسلمات کی شہادت و دستاویز سے اپنا دوست بنائے۔

بالجملہ مسلمانوں سے کچھ کام لینا ہے تو ان کے مذہب کے ذریعہ سے (جو موجودہ حالات میں گورنمنٹ کا موید ہے ) ان سے کام لے اور اس نسخہ مجرب کو ہاتھ سے نہ دے۔ یہ کام روپے پیسے لوہے سکے بارود گولے دعوتوں خلعتوں علانیہ خوشامدوں خفیہ سازشوں سے ہر گز نہیں نکل سکتا۔ ’
(اشاعۃ السنہ نمبر 12 جلد 7 ص 357 )

جب ملکہ وکٹوریہ کی پچاس سالہ جوبلی منائی گئی تو مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اس کو شایان شان انداز میں منانے کے لئے ایک طویل مضمون لکھا۔ اس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے۔

’جوبلی کہ موقع پر اہل حدیث وغیرہ اہل اسلام رعایا برٹش گورنمنٹ نے جو خوشی کی ہے اور اپنی مہربان ملکہ قیصر ہند کی ترقی عمر و استحکام سلطنت کے لئے جو دعا کی ہے اس کے جواز پر کتاب و سنت میں شہادت پائی جاتی ہے۔ ‘
(اشاعۃ السنہ نمبر 8 جلد 9 ص 448 )

یہ مضمون 1886 میں لکھا گیا تھا۔ اس سارے مضمون میں وہ حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی منانا شریعت کے تقاضوں کے مطابق ضروری تھا۔

اس رسالہ کے اسی شمارے کے چند اوراق پلٹیں تو ایک ایڈریس آ جاتا ہے جو کہ گورنر پنجاب سر چارلس ایچیسن صاحب بہادر کو رخصت کرنے کے لئے لکھا گیا تھا۔ اس کا عنوان تھا ’ایڈریس منجانب فرقہ اہل حدیث و دیگر فرقہ ہائے اسلام‘ ۔ اس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا تھا ’ہم ممبران فرقہ اہل حدیث و دیگر فرقہ ہائے اہل اسلام حضور والا کی خدمت میں اس موقع پر (جبکہ حضور اس صوبہ سے مرخص ہوتے ہیں ) کمال ادب و اخلاص کے ساتھ حضور والا کے خسروانہ احسانات و مربیانہ عنایات کا شکریہ ادا کرنے اور حضور کی مفارقت پر دلی افسوس ظاہر کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں۔ ‘
(اشاعۃ السنہ جلد 8 نمبر 9 ص 254 )

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا 1882 میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے حکومت سے شکوہ کیا تھا کہ انہوں نے حکومت کی تائید میں ایک رسالہ لکھا تھا لیکن حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے شائع نہیں ہو سکا۔ بہر حال دو سال بعد یہ رسالہ شائع کیا گیا اور اس کا انتساب انگریز گورنر کے نام تھا۔ جس شمارے کا پہلے ذکر کیا گیا تھا، اس سے اگلے شمارے میں ’الاقتصاد فی مسائل الجہاد‘ کا طویل فتویٰ شروع ہوجاتا ہے۔ اس طویل دستاویز کا لب لباب یہ ہے کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خلاف جہاد نہ صرف جائز نہیں بلکہ گناہ ہے۔ اس کثیر الاشاعت فتوے کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیں

’دلائل سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ملک ہندوستان باوجودیکہ عیسائی سلطنت کے قبضہ میں ہے دارالاسلام ہے‘
(اشاعۃ السنہ نمبر 9 جلد 9 ص 281 )

یہ ایک عجیب معاملہ ہے کہ فتووں کی رو سے جب ہندوستان میں برطانوی حکومت تھی تو وہ عین دارالاسلام تھا اور اس کے خلاف جہاد جائز نہیں تھا۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو کئی دہشت گرد تنظیموں نے حکومت پاکستان کے خلاف اعلان جہاد کر دیا اور پاکستان کو دارالحرب قرار دے دیا۔ ان فتووں کی رو سے ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی منانا تو فریضہ مذہبی تھا اور اس دور میں فتووں کی رو سے پاکستان کے سربراہان پر قاتلانہ حملوں کا جواز ثابت کر دیا گیا۔

اس کالم کا مقصد مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی ان تحریروں پر کوئی اعتراض کرنا نہیں ہے۔ اس وقت عام طور پر مسلمانوں کی یہی پالیسی تھی کہ برطانوی حکومت سے مکمل تعاون کیا جائے۔ اس کی کچھ دہائیوں کے بعد جب مسلم لیگ بنائی گئی تو اس کے اغراض و مقاصد میں مسلمانوں میں برطانوی حکومت سے وفاداری کے خیال کو قائم رکھنا اور اسے بڑھانا بھی شامل تھا۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ ہماری رائے کچھ بھی ہو اس پہلو کا جائزہ لئے بغیر ہم اپنی تاریخ کو نہیں سمجھ سکتے۔ جہاں نئی نسل کو محمود غزنوی صاحب کے سترہ حملوں کی لوٹ مار کے الٹے سیدھے قصے پڑھائے جاتے ہیں، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ان تاریخی حقائق کو ان سے پوشیدہ نہ رکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments