خواہشات بے لگام یا پھر مہنگائی بے حساب


اچھا حقیقت تو یہ ہے کہ مہنگائی تو ہو گئی ہے، بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ جو لوگ روپے میں کماتے ہیں ان کے لئے مہنگائی تو بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن جو لوگ ڈالرز میں کماتے ہیں یقیناً ان کے معاشی معاملات ابھی بھی بہت سو سے بہت بہتر ہیں۔ مہنگائی اپنی جگہ، ضروریات زندگی اپنی جگہ، خواہشات اپنی جگہ، لیکن گزشتہ 15، 20 سالوں میں اجتماعی طور پر ہماری زندگی میں بھی کافی تبدیلی آئی ہیں۔ یعنی ہماری طرز زندگی میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہوئیں، جس کی وجہ سے معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔

غور کریں پہلے گھر کا ایک بندہ کماتا تھا اور 10 لوگ کھاتے تھے، زندگی میں سکون بھی تھا، رات کو نیند بھی سکون سے آتی تھی، پیٹ پر چربی بھی کسی کسی کے ہوتی تھی اور امور خانہ داری کے تمام معاملات کے بعد پیسے کی ماہانہ بچت بھی ہوجاتی تھی۔ لیکن اب ایسا کیا ہوا کہ گھر کے 2، 3 افراد کماتے ہیں پھر بھی بچت نہیں ہو پاتی اور انزائٹی، ڈپریشن الگ بڑھ گیا ہے۔ جب کے نیند بھی کمزور ہونے لگی ہے۔

چلیں غور کرتے ہیں 15، 20 سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ معاملات ہاتھ سے نکل گئے۔ ذرا اپنے حافظے کا استعمال کریں کہ آج سے 20 سال پہلے آپ کے گھر ٹھنڈا پانی پینے کے لئے کولر استعمال ہوتا تھا یا پھر ڈسپنسر۔ آپ کے بچپن میں گھر والوں کے کپڑے برینڈ سے آتے تھے یا پھر عام سی دکان سے خرید لئے جاتے تھے۔ آپ کے بچپن میں ہفتے میں ایک بار یا مہینے میں دو بار باہر سے کھانا کھانے کا رواج تھا یا پھر ہر دوسرے دن باہر سے کھانا منگوایا جاتا تھا اور پچھلے زمانے میں تو روٹیاں گھر میں ہی بنتی تھی۔

آپ بچپن میں جو پانی پیتے تھے وہ ٹونٹی سے بھرتے تھے یا پھر کمپنی کا منزل واٹر ہوتا تھا؟ غور کریں کہ آپ خود کن اسکولوں میں پڑھتے تھے اور آج جن اسکولوں میں آپ کے بچے پڑھتے ہیں ان کی فیس کیا ہے؟ پہلے بیمار ہونے پر احتیاط ہوتی تھی اور گلی کے ڈاکٹر سے دوائیں لے لی جاتی تھی اور دو دن بعد دوبارہ فٹ فاٹ، اب بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں اور علاج کروانا بھی اسپیشلسٹ سے ہے۔ بچپن میں مشکل سے ایک کمرے میں ونڈو اے سی یا کولر ہوتا تھا، اب گھر میں 2 یا تین اے سی ہوتے ہیں اور کچھ کچھ تو پورا پورا دن آن رہتے ہیں سوچیں بل کتنا آئے گا۔

بچپن میں گھر میں ایک ٹی وی ہوتا تھا، اب ہر کمرے میں الگ ٹی وی موجود ہوتا ہے اور چلتا بھی خوب ہے۔ پہلے تھوڑے فاصلے پر جانا ہوتا تھا تو پیدل چلنے کو ترجیح دی جاتی تھی مگر اب گلی کے نکڑ پر بھی بائیک پر جایا جاتا ہے۔ لیپ ٹاپ، گیجٹ، اور سب سے بڑھ کر اسمارٹ فون کا خرچہ تو آپ کو پتا ہے، جب کے پہلے صرف ایک فون ہوا کرتا تھا تار والا وہ بھی ڈرائینگ روم میں، جس کو بہت احتیاط سے استعمال کیا جاتا تھا۔

پہلے سر پر تیل لگتا تھا اور سادہ سا کوئی شیمپو تھا اور منہ کے لئے خوشبو والا صابن، لیکن اب سر اور منہ پر استعمال کرنے کے لئے 10 قسم کی چیزیں آتی ہیں جس میں سے کچھ امپورٹڈ ہوتی ہیں۔ پہلے سادہ سا عطر ہوتا تھا یا معمولی سا پرفیوم، اب باڈی اسپرے الگ، پرفیوم بھی الگ اور نہ جانے کیا کچھ استعمال ہونے لگا ہے۔ پہلے سبزی اور دال کا زمانہ ہوتا تھا گوشت ہفتے میں ایک یا دو بار بنتا تھا، اب سبزی یا دال ہوتی ہے اور وہ بھی دو یا تین بار اور اس پر بھی گھر کے جوان بچے باہر سے آرڈر کر کے کچھ منگوا لیتے ہیں کیونکہ دال اور سبزی ان کو پسند نہیں۔

پہلے گھر میں دو قسم کے بل آتے تھے، اب گھر میں کئی قسم کے بل آتے ہیں، جیسے انٹرنیٹ کا بل، کیبل ٹی وی کا بل، مینٹیننس کا بل، کچرے والا کا بل، پانی کی بوتلوں کا بل اور نہ جانے کون کون سے بل آتے ہیں۔ پہلے نومولود بچوں کے لئے صرف تقریب میں جانے کے لئے پیمپر استعمال ہوتا تھا مگر اب پورا پورا دن پیمپر کا استعمال، اس کے علاوہ امپورٹڈ دودھ اور نہ جانے کیا کچھ استعمال ہونے لگا ہے۔ پہلے سال کی ایک پکنک ہوتی تھی اور اب مہینے میں دو یا تین بار آؤٹنگ ہوتی ہے اور آئسکریم وغیرہ کے معاملات کے خرچے تو چھوڑ ہی دیجئے۔

اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ نے خود یہ درجنوں تبدیلیاں یاد کرلی ہوں گی اور پھر مہینے میں ہونے وا لے اضافی خرچے کی بھی جمع تفریق کرلی ہوگی۔ اندازہ لگائیں کہ کئی گنا زیادہ پیسے کمانے کے بعد ہاتھ ٹائٹ کرنے کی وجہ پچھلی دو دہائیوں میں اضافہ ہونے والی یہ چیزیں ہیں۔ یقیناً طرز زندگی بہتر بنانے میں کوئی قباحت نہیں البتہ خواہشات اگر بے لگام ہوجائیں تو یہ بے چینی اور اضطراب لے کر آتی ہیں۔ ایک محاورہ تھا کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں، یقین جانیے اس محاورے پر عمل کریں سکون میں رہے گا اور اگر مشکل ہے تو چادر کا سائز بڑھا لیجیے اور اس کے لئے وسائل بڑھانے پڑیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments