پیکر خیالی


بظاہر وہ ایک تصویر تھی جس کے سحر نے مجھے بری طرح جکڑ لیا تھا۔ میں چاہ کر بھی اس سے نگاہیں نہیں ہٹا سکا۔ میری نظریں اس تصویر پر جم کر رہ گئیں۔ وہ چہرہ جو نجانے کتنے برسوں سے میرے خوابوں و خیالوں کی زینت بنا ہوا تھا۔ آج میرے سامنے تھا۔ وہ ہی آنکھیں جن کی کشش نے مجھے اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا وہ ہی خوبصورت اور ستواں ناک جیسے کوئی ریشمی تلوار ہو۔ وہ غنچہ دہن اور باریک لب، جن کی نرماہٹ میں نے اپنی انگلیوں کی پوروں پر محسوس کی تھی، وہ خم دار گردن اور تراشیدہ جسم جس کی بھول بھلیوں میں الجھ کر میں اپنا آپ بھول جایا کرتا تھا۔

وقت تھم جاتا تھا اور اب بھی جیسے وقت رک گیا تھا، میں مبہوت سا اس تصویر کو تکتا چلا جا رہا تھا۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے کیونکہ بات ہی کچھ ایسی ہے۔ لیکن یہ سچ ہے میری نظروں کے سامنے اسکرین پر جگمگاتا حسین چہرہ لگ بھگ پچھلے پچیس برسوں سے میرے خوابوں کا ساتھی رہا تھا۔ ، میں نے اپنی زندگی کے بیشتر حسین لمحات اس کے سنگ گزارے ہیں۔ میری تنہائی کو اسی چہرے نے ہمیشہ آباد کیا۔ آہ یہ چہرہ جو پچیس برسوں سے ایک تخیل تھا آج حقیقت بن کر میرے سامنے آ گیا اور اپنی چون سالہ زندگی میں کبھی میں نے اتنی بے بسی محسوس نہ کی تھی جو اس وقت محسوس کر رہا تھا۔ میں اسے چھونا چاہتا تھا۔ اس کے گرم ہونٹوں کی حدت محسوس کرنا چاہتا تھا

میں شدت سے یہ سوچ رہا تھا، کاش میں وقت کا پہیہ گھما کر ماضی میں چلا جاؤں۔ مگر ایسا ممکن نہ تھا۔ یہ چہرہ ماضی نہ تھا۔ وہ ایک جوان و حسین رعنا تھی جبکہ میں چون برس کا ایک ادھیڑ عمر شخص، کیسے ممکن تھا ماضی میں میرا اس سے ملاپ ہوتا۔ کاش میں وقت کو اپنی گرفت میں لے سکتا۔ آج میں بھی جوان ہوتا تو اپنے تخلیاتی محبوب کے ساتھ زندگی کے کچھ لمحات حقیقت میں بھی جی پاتا مگر اب ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ گزرا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔

اس سوچ کے ساتھ ہی میں نے اپنی نظر کمپیوٹر اسکرین سے ہٹائی تو بے اختیار سامنے دیوار پر جھولتے بڑے سے آئینہ پرجا پڑی جہاں مجھے اپنا عکس جھلملاتا نظر آیا اور میں ایک دم چونک اٹھا، آئینہ میں نظر آنے والا چہرہ تو کسی اجنبی کا تھا سفید بال اور چہرہ پر چھائی تھکن، وقت مجھ سے میری جوانی چھین کر جا چکا تھا، وقت اپنا قصاص اسی طرح وصولتا ہے کہ بندے کا وجود قطرہ قطرہ نچڑ جانا ہے مگر آئینہ میں نظر اتا چہرہ تو وہ تھا جو دنیا کے سامنے تھا۔ حقیقت میں تو میں آج بھی بھرپور جوانی جی رہا تھا۔ میں اپنی خیالی محبوبہ کے ساتھ جو زندگی بتا رہا تھا وہ میری کل حیات تھی۔ اس زندگی میں وقت اور عمر رک گئے تھے اور ایسے میں میرا جوان وجود جب من کرتا اپنی محبوبہ کے تراشے رنگین تصور سے خود کو سیراب کر لیتا اب بھی اس کے تصور میں کھوتے ہوئے

میں نے پھر سے لیپ ٹاپ پر نگاہ ڈالی۔ جہاں وہ تصویر میرے سامنے ہمک رہی تھی۔ مگر دیر کر دی اس نے۔ ہمارے درمیان صدیوں کا فاصلہ آن ٹھہرا تھا۔

دراصل کچھ دیر قبل مجھے فیس بک پر ایک فرینڈ ریکویسٹ آئی تھی۔ میں نے جیسے ہی ریکوئسٹ بھیجنے والی کی پروفائل چیک کی تو چونک گیا اور جلدی سے اس کی پروفائل تصویر کو مزید بڑا کر کے غور سے دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ یہ وہ ہی چہرہ تھا جو کئی سالوں سے میں نے اپنے خیالوں میں تراش رکھا تھا اب اسے حقیقت میں دیکھ کر ایک عجیب سرشاری مجھ پر طاری ہو گئی جب اس چہرہ کی مالک اسکرین سے نکل کر میرے کمرہ میں داخل ہو گئی۔

اب کمرے میں صرف ہم دونوں تھے۔ دنیا جہاں سے بے خبر ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے۔ اس کا وجود میرے اندر تحلیل ہو رہا تھا اور میں پگھلتا جا رہا تھا۔ جب اچانک دروازہ پر ہونے والی دستک نے مجھے جی بھر کر بد مزہ کر دیا۔ ایک ہی پل میں میری محبوبہ کا سراپا، عکس بن کر سامنے دیوار گیر آئینہ میں سما گیا۔ میں اپنے ہانپتے کانپتے وجود کو سنبھالتا دروازے کی سمت بڑھا اور بے دلی سے دروازہ کھول دیا سامنے میری بیوی امبر کھڑی مجھے تک رہی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں چائے کا کپ اور آنکھوں میں مچلتا سوال میں بن کہے جان چکا تھا۔ اس لئے دروازہ کھول کر ایک طرف ہو گیا وہ کمرہ میں داخل ہوتے ہی میری سمت دیکھتے ہوئے بولی ”آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟ اتنا پسینہ پسینہ کیوں ہو رہے ہیں؟ “

”ہاں۔ میں ٹھیک ہوں۔“ بمشکل اسے جواب دیتا میں خود کو سنبھال چکا تھا

”پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے، جیسے آپ صدیوں کی مسافت طے کر کے آئے ہوں ایک دم تھکے تھکے سے۔

وہ آہستہ سے بولی ”
” کچھ نہیں بس، یونہی۔ ایک کردار میں الجھا ہوا تھا۔“ میں نے سرسراتی آواز میں کہا
” کتنے کردار اوڑھیں گے خود پر۔

اس نے دھیمے سے کہا اور چائے کا کپ میز پر رکھ کر پلٹ گئی۔ میں نے ایک طویل سانس لیا اور پھر سے لیپ ٹاپ کے سامنے آ بیٹھا۔

” سر کیسے ہیں آپ؟“ میسنجر پر ایک سوال ابھر آیا

میں ہڑ بڑا گیا اور فیصلہ نہ کر پایا اسے جواب دوں یا نہیں مگر مجھے خود پر کہاں قابو تھا، میں نے جواب لکھ دیا

” میں ٹھیک ہوں۔ “
” سر مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ کیا آپ مجھے تھوڑا وقت دے پائیں گے؟

” وقت۔ وقت ہی تو نہیں رہا ہے میرے پاس۔ خیر آپ بتائیں۔“ میں نے یوں لکھ دیا جیسے لفظ بھی میرے اختیار میں نہ ہوں۔

” سر مجھے اپنے ایک ناول کے سلسلے میں آپ سے مشورہ کرنا ہے، کیا آپ سے ملاقات ہو سکتی ہے؟“ یہ لفظ میسنجر پر ابھرے تو میرے ہاتھ پیر پھول گئے۔

” اب وقت نہیں رہا۔“ میں نے تیزی سے لکھ دیا
ہے ”سر میں آپ کے وقت کا پورا معاوضہ دوں گی، بس ایک بار۔
” آپ اپنا تعارف تو کرائیں، کون ہیں اور۔“ میں نے بات بدلنا چاہی تاکہ اچھے طریقے سے اسے منع کردوں۔

” سر میں رمل ہوں یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں یہ میری تصویر ہے اس کے ساتھ ہی اسکرین پرایک تصویر ابھری۔ میں چونک گیا، وہ آئی ڈی سے ہٹ کر تصویر تھی۔ میں نے بے ساختہ پوچھا

” اور یہ آئی ڈی والی تصویر؟“
” یہ میری مما کی پچیس برس پرانی تصویر ہے مجھے اپنی مما سے بہت پیار ہے سر۔“

الفاظ کے ساتھ ہی میسنجر پر ایک ادھیڑ عمر خاتون کی تصویر آ گئی جس کے چہرے پر میری محبوبہ کی ہلکی سی بھی پرچھائیں نہ تھی۔ میں نے اطمینان کا ایک سانس لیا۔ مجھے لگا جیسے کوئی مرتے مرتے بچ گیا ہو اور ایک لکھاری کی کہانی مکمل ہو گئی ہو۔

” ٹھیک ہے جب اپ چاہئیں مجھ سے مل لیں۔
میں رمل کو اپنا سیل نمبر دے کر آف لائن ہو گیا۔

اب میں نے اطمینان سے سگریٹ سلگایا اور آنکھیں بند کر لیں۔ میری محبوبہ میرے پہلو میں آن بیٹھی تھی مجھے ان لمحات میں اس کی ضرورت تھی

وہ مست نگاہیں، غنچہ دہن میری زندگی کی تاریک راتوں میں چاند کی سی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے وجود میں مست ہو کر میں دنیا بھول جاتا تھا اور اب بھی میں دنیا بھول کر اپنے محبوب کے جسم کی بھول بھلیوں میں کھو چکا تھا

نفیسہ سعید
Latest posts by نفیسہ سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments