پاکستان : اگست 1947ء سے دسمبر 1947ء کی خبریں


ہمارے یہ ہاں عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ اخبار اگلے دن پرانا ہوجاتا ہے۔ مگر گرامی قدر محمد سعید نے نہایت محنت کے ساتھ انھی پرانے اخبارات سے جن خبروں کا انتخاب کیا ہے، آج انھیں پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسی دور میں رہے رہے ہیں۔ محمد سعید صاحب ایک ریٹائرڈ سرکاری سی ایس ایس افسر ہیں۔ روایت یہ ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری افسران اور خاص کر سی ایس ایس افسران اپنی یادداشتیں لکھتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کا بڑھا چڑھا کر کرتے ہیں، یا پھر کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر اپنے ماضی کے تجربات کی روشنی میں حال کے مسائل کا حل تجویز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

مگر محمد سعید صاحب نے منفرد کام یہ کیا ہے کہ یکم اگست 1947 ء سے لے کر 31 دسمبر 1947 ء تک کے اخبارات سے خبروں کا انتخاب کر کے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ اس کتاب کی تدوین کا جذبۂ محرکہ سعید صاحب اس خیال کو بتاتے ہیں جو ان کے ذہن میں 2014 ء میں آیا کہ قیام پاکستان کے دنوں میں پاکستان سے شائع ہونے والے اخبارات کا مطالعہ کر کے یہ جاننا چاہیے کہ تقسیم ہند اور اس سے متعلقہ مسائل سے متعلق (پاکستان اور انڈیا) کے سیاسی رہنماؤں، مقامی آبادی اور مہاجرین کی سوچ کیا تھی۔ اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے National Archives اسلام آباد کا رخ کیا جہاں دو سو سال پرانے اخبارات، رسائل و جرائد موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خبروں کے انتخاب میں تنوع کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ سیاسی خبریں بھی ہیں، بازاروں کے نرخ بھی ہیں، عمارتوں کے کرائے کے اشتہار ات بھی موجود ہیں، فلموں کے اشتہارات بھی ہیں اور ایڈیٹر کے نام خطوط تو خاصے دلچسپ ہیں۔

کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست اور معیشت تب بھی ویسے ہی تھیں جیسی کہ آج ہیں۔ غالب ؔ تو اپنے بارے میں کہہ گئے کہ: شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے، مگر محمد سعید صاحب خبروں کے انتخاب سے سرخرو ہوئے ہیں۔ جس سلسلے کا آغاز سعید صاحب نے کیا ہے میری رائے تو یہ ہے کہ اگر ہم ان پرانے اخبارات کا مطالعہ ہی کر لیں تو ماضی بعید اور ماضی قریب کے بہت سے بت ٹوٹ جائیں گے اور ہمیں اندازہ ہو گا کہ سیاست پر قابض طبقات نے کس طرح ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا ہے۔

طالب علم کو کتاب کے مطالعے کے دوران جن خبروں نے متوجہ کیا ان میں سے چند کالم کے تنگ دامانی کے لحاظ سے پیش ہیں :

مسٹر عبد الجلیل صدر کانپور جمعیت علمائے ہند (انڈیا) نے کہا ہے کہ اگرچہ تقسیم ہند کے فیصلے سے ہم سب دکھی ہیں تاہم یہ ذہن نشین رہے کہ یہ ایک عارضی فیصلہ ہے جو کہ برطانوی حکومت نے کیا ہے۔ ایک دن انڈیا پھر United ہو جائے گا۔

پاکستان کا نیا پرچم:ڈیلی گزٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں مسٹر جمشید نسروان جی نے کہا ہے کہ مجوزہ پاکستانی پرچم کے ڈیزائین میں چاند اور ستارے کے ساتھ سورج کا بھی اضافہ کر لیا جائے تو اس کا عالمی احترام بڑھے گا اور یوں یہ پرچم اختلافات سے بالا تر ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چوں کہ سورج روشنی اور زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اس لیے دنیا بھر کے تمام مذاہب کے پیروں کاروں کے لیے یہ پرچم قابل احترام قرار پائے گا۔

مسٹر جناح کا سیکریٹریٹ ایک سیکرٹری، ایک ملٹری سیکرٹری اور تین ADCs پر مشتمل ہو گا جو کہ بری، بحری اور فضائی افواج سے ہوں گے۔ تاہم ابھی تک اے ڈی سیز کے ناموں کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

انڈیا کے سوشلسٹ لیڈر مسٹر جئے پرکاش نارائن نے کہا ہے کہ سوشلسٹ پارٹی پاکستان میں بھی قائم رہے گی اور کام کرے گی۔

با خبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی پرچم میں ایک تہائی سفید پٹی شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔

ڈیرہ اسماعیل خان کی ہندو کمیونٹی نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب سے اپیل کی ہے کہ حالیہ فسادات میں ان کی کمیونٹی کے جلائے گئے مکانات اور دکانوں کی تعمیر نو کے لیے ایک کروڑ روپے کے فنڈز منظور کیے جائیں۔

لیٹر ٹو ایڈیٹر :

جناب والا! مغربی پنجاب کے دارالحکومت کے لیے لاہور، راولپنڈی اور ملتان کے بارے میں تجاویز سامنے آ رہی ہیں۔ میں نے بھی اس معاملے پر بہت غور کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ موزوں ترین شہر لائل پور ہے جسے پنجاب کا دارالحکومت بنا دیا جائے۔ (نذیر احمد انسپکٹر سینٹرل ایکسائز جھنگ) ۔

جناب والا! پاکستان کے صوبوں میں انگریز گورنروں کا تقرر؟ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ یہ پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے۔ (عبدالوحید۔ بہار شریف) ۔

جناب والا! جب سے ( 1940 ء) قرارداد پاکستان منظور ہوئی مسلمان یہ توقع کر رہے ہیں کہ اب وہ ہندؤں کی سرمایہ دارانہ ذہنیت سے معاشی اور معاشرتی طور پر آزادی پائیں گے۔ اب جب کہ ملک آزاد ہونے جا رہا ہے میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے گزارش کروں گا کہ وہ ضروری اقدامات کرے۔ کیونکہ فیوڈل ازم اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اگر اس تجویز پر عمل نہ کیا گیا تو پھر اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ (بشیر حسین ظفر۔ لاء کالج۔ لاہور) ۔

آج نئی دہلی میں جنرل ہیڈ کوارٹرز میں انڈین آرمی کی طرف سے پاکستان آرمی کے لیے الوداعی تقریب منعقد ہوئی۔ انڈین آرمی کے جنرل کری آپا نے امید ظاہر کی ہے کہ دونوں فوجیں مل کر اپنے دونوں ممالک کا دفاع کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ دوستو ہم نے اکٹھے کام کیا ہے۔ اکٹھے رہیں ہیں۔ اکٹھے کھیلے ہیں اور اکٹھے ہی دشمن سے لڑیں ہیں۔ جنگی میدانوں کے ہمارے یہ احساسات اور جذبات برقرار رہنے چائیں۔ اگر ہم یہ بات سمجھ لیں کہ ہم نے بیرونی جارحیت کا باہم مقابلہ کرنا ہے تو ہمارے لیڈر پوری توجہ کے ساتھ اپنے اپنے ممالک کی فلاح اور بہتری کے لیے کام کرسکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments