موجودہ سیاسی تقسیم کا صحافت پر غلبہ


جب الیکشن کا طبل بجتا ہے یا میدان لگتا ہے تو گلیوں محلوں میں چھوٹے چھوٹے سیاسی دفاتر بنائے جاتے ہیں یہ دفاتر ایسے چوک چوراہوں میں بنائے جاتے ہیں جہاں زیادہ تر لوگوں کا گزر ہو۔ دفاتر میں چائے پانی کا بندوبست کر کے سیاسی کیمپوں کو مزید متاثرکن بنایا جاتا ہے اگر ایک پارٹی 10 دفاتر بناتی ہے تو دوسری جماعت اس پر سبقت لے جانے کے لئے 12 بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں ان دفاتر کو چلانے والوں کو روزانہ کا خرچہ بھی دیتی ہیں۔

بہرحال ان دفاتر کا اولین مقصد یہ ہوتا ہے کہ عام ووٹرز کو اپنی سیاسی پارٹی کے بیانیے سے زیادہ سے زیادہ متعارف کرایا جائے بدقسمتی سے پاکستان میں 2014 میں عمران خان کے آزادی مارچ کے بعد سے پاکستانی میڈیا کی غیرجانبداری بھی ایسے ہی اپنے اپنے بیانیوں کر لے کر تقسیم ہونا شروع ہوئی کہ جو آج تک جاری ہے۔

عمران خان نے شروع میں اسے مک مکاؤ کی سیاست کا بیانیہ اپنایا تو اسے خاصی مقبولیت ملی لیکن جب پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں ایک طرف ہو گئیں تو عمران خان کو انقلابی سیاستدان کے طور پر جانا جانے لگا۔

ویسے تو پاکستانی سیاست میں یہ تقسیم صرف جماعتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اداروں اور محکموں میں حتی کہ گھروں میں بھی ایک فرد روایتی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ہے تو دوسرا عمران خان کے ساتھ۔ ذاتی نوعیت کے کسی کے ایک بولے جانے وا لے جملے سے لوگ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی حمایت عمران خان کے ساتھ ہے یا فضل الرحمان، زرداری یا نواز کے ساتھ ہے۔

آتے ہیں اپنے نقطے کی طرف کہ اس سیاسی تقسیم یا سیاسی بیانیوں کے فرق نے میڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کسی بھی خبر کو اپنے زاویہ نظر کے الفاظ کے ساتھ پیش کرنا صحافت میں کوئی جرم ہی نہیں رہا۔

اگر ایک بڑا میڈیا ہاؤس پی ڈی ایم کے بیانیے کو پروموٹ کرنے میں لگا ہے تو دوسرا اسی پائے کا چینل یا میڈیا ہاؤس عمران خان کے ساتھ ہے اور اب یہ پہچان اتنی واضح ہے کہ صرف میڈیا ہاؤس کا نام لینے سے کوئی بھی عام سا شہری فٹ سے بتا دیتا ہے کہ یہ چینل یا اخبار کس طرف ہے۔

ماضی کی صحافت پر نظر ڈالی جائے یا آج ہمارے صحافتی ضابطہ اخلاق کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں ایسی جانبداری کی کوئی گنجائش نہیں۔ پورے پورے میڈیا ہاؤسز کی بات تو الگ ہے صحافیوں خصوصاً اینکرز کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے کہ فلاں کی صحافت کا جھکاؤ کس طرف ہے اور فلاں کی تحریر کس کے بیانیے کے تحفظ کی ضمانت بنی ہوئی ہے۔

یہاں یہ بھی حقیقت ہے اب غیر جانبدار صحافی یعنی با اصول صحافی کو ہومیو پیتھک صحافی کہا جاتا ہے یعنی اس کی بات میں وہ شدت نہیں جس کی قارئین اور ناظرین کو عادت پڑ چکی ہے۔ لہذا اب اصل صحافت کو کوئی دیکھنا بھی نہیں چاہتا اور اگر ناظرین نہیں دیکھتے تو ریٹنگ نہیں آتی اور اگر ریٹنگ یا ٹی آر پی نہ آئے تو اشتہارات اتنے نہیں ملتے یعنی یہاں ریاست کے اس چوتھے کہلائے جانے والے ستون پر بھی کاروبار غلبہ پا گیا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ صحافت کے کتابی اصول اور ضابطے اور ہیں اور ریٹنگ کے ضابطے اور قوانین اور ہیں۔

میرے تجربے میں یہ چیز بھی بڑی واضح آئی ہے کہ اب سیاستدانوں نے بھی اپنے بیانیوں کی حفاظت اور پروموشن کے لئے اپنے میڈیا ہاؤسز چن رکھے ہیں ہر اینکر کسی بھی سیاستدان بلا کر اپنی مرضی کے سوالات نہیں پوچھ سکتا سیاستدان کا وقت تب ہی ملے گا جب آپ اس کی مرضی اور حمایت کے سوالات پوچھیں اور اگر کوئی سوال اپنی مرضی یا حقائق پر مبنی پوچھ لیا جس کا سیاستدان یا آپ کے مہمان کے پاس جواب نہیں تو بس اگلی بار اس چینل یا پروگرام کا بائیکاٹ ہو جاتا ہے اور یہ پروگرام کا انعقاد کرنے والے پروڈیوسرز ہرگز نہیں چاہتے کہ ہمارے پروگرام میں ایک ہی سائیڈ کی آواز سنی جائے لہذا صحافتی اصولوں کی نفی تو یہاں بھی ہوجاتی ہے

میں نے ایک وزیر سے سوال پوچھا کہ آپ کے پاس وقت کم ہوتا ہے لیکن آپ بہت زیادہ ایک مخصوص چینل پر نظر آتے ہیں تو انھوں نے واشگاف الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ پارٹی پالیسی ہے

اب بات اور بڑھ گئی ہے پہلے کسی میڈیا ہاؤس پرایک خاص طرح کی مہم چلانے کا الزام لگتا تھا بلکہ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ اس چینل یا میڈیا ہاؤس نے اشتہارات کے علاوہ بھی پیسے لے لئے ہیں مگر اب تو بڑے واضح چینل ہی خریدے جا رہے ہیں اب کوئی ایکٹیو سیاسی شخصیت یا ایک نظریہ رکھنے والی بڑی کاروباری شخصیت چینل یا میڈیا ہاؤس خریدتی ہے تو اس سے غیر جانبداری کے اصولوں کی توقع کرنا ایک مذاق ہو گا۔ ذرا سوچئے کہ ان میڈیا مالکان کے ماتحت صحافی کیسے اپنے صحافت کے ضابطوں کی پیروی کر سکتے ہیں

ایسے میڈیا اپنا وقار کھو بیٹھے گا کیونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے ہر انسان کو خبر دینے اور جاننے کی رسائی موجود ہے لہذا اصل حقائق کو چھپانا ہرگز ٹھیک نہیں ہو گا۔ ہم الیکشن کے سال میں اگر سیاسی پارٹیوں کے دفاتر کی طرح کام کرنے لگے تو یہ پروفیشنل۔ ڈس اونیسٹی۔ ہوگی اور رائے عامہ بنانے والے ادارے گمراہی پھیلانے والے ادارے کہلائیں گے ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہو گا میڈیا سے نفرت کرنے لگیں گے اور عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).