نیوٹن، آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ کی سائنسی خدمات – 2


معزز قارئین! اردو کتاب : ’مذہب سائنس اور نفسیات‘ کی دوسری قسط، اقتباس کی صورت حا ضر ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ مضامین دو سائنسدانوں نے ایک دوسرے کو خطوط کی صورت میں لکھے تھے۔ مکمل اردو کتاب پاکستان میں طباعت کے مراحل میں ہے اور قوی امید ہے کہ کتاب امسال مارچ کے نصف تک دستیاب ہوگی۔ دوسری قسط کا آغاز خالد سہیل کے ایک سوال سے ہوتا ہے :

خالد سہیل : اب بطور طبیعیات داں اور سائنسداں، آپ سے ایک سوال، کیا ایک عام آدمی کی زبان میں آپ ہمیں عظیم سائنسدانوں، نیوٹن، آئن سٹائن اور ہاکنگ کی دریافتوں اور سائنسی خدمات کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ ان عظیم سائنسدانوں کی کاوشوں سے انسانی طرز زندگی اور سوچ کے دھارے میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں؟

سہیل زبیری : سر آئزک نیوٹن اور البرٹ آئن سٹائن جیسے سائنسداں کبھی دنیا میں آج تک پیدا نہیں ہوئے۔ ماسوائے ارسطو کے کوئی دوسرا سائنسداں ایسا نہیں گزرا، جس نے ان کے مقابلے میں، قوانین فطرت سمجھنے میں بنی نوع انسان کی اس قدر مدد کی ہو۔ سوچ پر دیرپا اثرات چھوڑے ہوں اور سائنسی سوچ کے ارتقاء اور ترویج کو چار چاند لگا دیے ہوں۔ لیکن سٹیفن ہاکنگ کو ان میں شامل کیے بغیر بات نہیں بنتی۔ یہ تینوں سائنسداں بلا شبہ جدید سائنسی علم کے مینار ہیں۔

نیوٹن، 1642 ء میں یتیم پیدا ہوئے۔ ان کا متنوع سائنسی کام اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ 1666 ء میں جب نیوٹن کی عمر چوبیس برس تھی اور وہ کیمبرج یونیورسٹی کے طالب علم تھے، برطانوی جزائر پر طاعون کی وبا پھیل گئی۔ برطانوی یونیورسٹیاں ایک سال کے لئے بند کر دی گئیں اور طلباء کو ان کے آبائی مقامات پر بھیج دیا گیا۔ نیوٹن بھی اپنے گاؤں چلے گئے مگر اپنی تحقیق کا کام جاری رکھا۔

اس دوران نیوٹن نے کشش ثقل دریافت کر کے دنیا کو سائنس کے جدید دور میں داخل ہونے کی نوید سنائی۔ اس دریافت سے جو سائنسی انقلاب برپا ہوا وہ آج تک جاری و ساری ہے۔ نیوٹن نے دریافت کیا کہ کائنات میں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کمیت رکھنے والے اجسام کے درمیان ایک کشش کی قوت ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ یہ کشش ثقل ان اجسام کی کمیت کے راست متناسب اور ان کے درمیان فاصلے کے معکوس متناسب ہوتی ہے۔

اسی وجہ سے، نیوٹن کے کشش ثقل کے قانون نے جہاں یہ بتایا کہ اشیاء زمین پر اس لئے گرتی ہیں کہ زمین ان کو اپنے مرکز کی طرف کھینچتی ہے۔ وہاں اسی قانون کو لے کر ”کیپلر“ نے سورج اور اس کے گرد گھومنے والے سیاروں کی گردش سے متعلق تجرباتی فارمولے وضع کیے ۔ بلاشبہ یہ ایک روشن اور دلکش قانون فطرت تھا۔

انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ایسا قانون فطرت دریافت ہوا جو سیب جیسی صغیر اشیاء کے زمین پر گرنے سے لے کر اجرام فلکی جیسے قوی الجثہ کروں کی خلا میں گردش اور مداروں کی ہیئت کی یکساں تشریح کرتا ہے۔ ایک ہی قانون اپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس سے قبل کی معلوم انسانی تاریخ میں ایسا قانون کبھی دریافت نہیں ہوا۔

نیوٹن کے کشش ثقل کے قانون نے سائنسی حلقوں میں یہ مثال بھی قائم کی کہ سائنسی قوانین کس طرح بنائے جانے چاہئیں۔ اور یہ کہ قانون کا درجہ وہ تھیوری رکھتی ہے جو عالم گیر ہو۔ یعنی وہ قانون، ہر وقت، ہر جگہ اور ہر حال میں یکساں نتائج پیدا کرے۔

اس دریافت کے بعد نیوٹن اگر کوئی اور کارنامہ انجام نہ بھی دیتے تب بھی ان کا نام انسانی تاریخ میں آتی صدیوں تک ایک عظیم اور ذی اثر سائنس دان کے طور پر زندہ رہتا۔ مگر انھوں نے اس کے علاوہ حرکت کے تین قوانین بھی وضع کیے ۔ جو ایک چھوٹے سے چھوٹے ذرے سے لے کر دیو ہیکل فلکی اجسام کی، قوت محرکہ کی موجودگی میں، حرکات کا احاطہ کرتے ہیں۔

نیوٹن نے ریاضی کی شاخ، ”کیلکولس“ کی بنیاد بھی رکھی جو سائنس کی تمام شاخوں میں، مشکل ترین اور گمبھیر سائنسی سوالات حل کرنے کی استعداد بڑھا دیتی ہے۔ جرمنی کے سائنسداں ”گوٹ فرائیڈ لیبنیز“ نے بھی تقریبا اسی اثناء میں اپنے طور پر کیلکولس دریافت کیا اور کام بھی کیا مگر نیوٹن کے کام کی افادیت اپنی جگہ اسی طرح قائم ہے۔

نیوٹن نے سائنس کی دنیا سے باہر بھی اپنا لوہا منوایا۔ ان کے قوانین نے صدیوں پرانے رازہائے سر بستہ کا پردہ چاک کیا۔ جو ہزار ہا سال سے مبہم اور انسانی سمجھ سے بالا تر تھے۔

نیوٹن کی دریافتوں نے جن سائنسی دور کا آغاز کیا ان کی بنیاد یہ بات تھی کہ ہر فطری مظہر کی سائنسی توجیح ہونی چاہیے۔ اور یہ کہ اگر ہمیں فطرت کی طاقتوں کا پتہ چل جائے تو ہم کائنات میں موجود ہر شے کے ارتقاء کی پیش گوئی درستگی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔

اس فیصلہ کن سائنسی استدلال نے لوگوں کے دل و دماغ میں مذاہب سے متعلق کئی شکوک و شبہات پیدا کر دیے۔ اور مذہبی پیشواؤں کی عوام پر گرفت کمزور پڑ گئی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کو ”نیوٹانی علم میکانیات“ کی صدیاں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

پھر کیا ہوا؟

جب بیسویں صدی کی سحر نمودار ہو رہی تھی تو ہر کسی کا خیال تھا کہ قوانین فطرت پوری طرح انسان کی سمجھ میں آچکے ہیں۔ اتنے میں کیا ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوتا ہے جو نیوٹن کے حتمی قوانین سے آگے بڑھ کر دنیا کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے دور میں داخل کرتا ہے۔ ”کوانٹم مکینکس“ Quantum Mechanics اور ”تھیوری آف ریلے ٹیویٹی“ Theory of Relativity کا ظہور ہوتا ہے۔ اس سائنسی انقلاب کا سہرا کسی اور کے نہیں بلکہ عبقری ”البرٹ آئن سٹائن“ کے سر سجتا ہے۔ جو ہمارے مضمون کا دوسرا ہیرو ہے۔

آئن سٹائن 1879 ء میں جرمنی کے شہر ”الم“ میں پیدا ہوئے۔ 1905 ء میں، جب ان کی عمر چوبیس برس تھی، انھوں نے اپنے تین سائنسی مضامین شائع کیے ۔ آئن سٹائن کے ان پیپرز نے بیسویں صدی کی سائنس میں انقلاب برپا کر دیا۔ ان سائنسی دریافتوں کے اعزاز میں سن 1905 ء ”معجزوں کا سال“ قرار دیا گیا۔ سائنس کی دنیا میں، 1666 ء کے بعد 1905 ء کا سال ایک اہم ترین سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

ان میں سے ایک مضمون میں آئن سٹائن نے مشہور تھیوری : ”تھیوری آف ریلے ٹیویٹی“ پیش کی۔ اس تھیوری نے ایک دوسرے کے لحاظ سے، یکساں رفتار سے سفر کرتے ہوئے اجسام سے متعلق قوانین کو جنم دیا۔

نیوٹن کا علم میکانیات جب اجسام کی حرکت اور قوت محرکہ کی بات کرتا تھا تو زمان و مکان اپنا علیحدہ اور آزاد وجود رکھتے تھے، ایک دوسرے پر منحصر یا جڑے ہوئے نہ تھے۔ یعنی وقت، فاصلہ یا رفتار کی بات نہ ہوتی تھی۔ آئن سٹائن نے یہ ثابت کیا کہ دونوں نظریات آپس میں مدغم ہیں۔ زمان اور مکان مستقل مقداریں نہیں۔ اگر دو مشاہدہ کار، کچھ فاصلے پر، ایک جیسی رفتار سے سفر کر رہے ہوں تو اپنے اپنے سسٹم کے اندر رہتے ہوئے وقت اور فاصلے کی تبدیلی کی پیمائش پر کبھی متفق نہ ہوں گے ۔

آئن سٹائن کی ’تھیوری آف ریلے ٹیویٹی‘ نے یہ تعین بھی کیا کہ کوئی شے زیادہ سے زیادہ کتنی رفتار سے سفر کر سکتی ہے؟ معلوم ہوا کہ یہ رفتار روشنی کی رفتار ہے جو 186,000 میل فی سیکنڈ ہے۔ اس تھیوری کے مطابق اگر کسی شے کو روشنی کی رفتار سے حرکت دی جائے تو اس شے کی کمیت لامحدود، لمبائی صفر اور اس کے لئے وقت رک جائے گا۔ مگر اس وقت یہ باتیں ناقابل یقین اور دیوانے کی گفتگو لگتی تھیں۔

اس تھیوری کا ایک اور نتیجہ یہ بھی نکلا کہ کسی شے کی کمیت (کسی جسم میں مادے کی مقدار) کو سینکڑوں اور ہزاروں صدیوں سے ناقابل فنا سمجھا جاتا رہا تھا، اب اس تھیوری کے مطابق مادہ فنا ہونے کی بجائے توانائی میں تبدیل ہو رہا تھا۔ اس تھیوری کے مطابق مادے کی ایک معدوم سی مقدار کو تباہ کرنے سے جو توانائی پیدا ہوتی ہے وہ ایک عظیم بم دھماکے سے زیادہ ہوتی ہے۔ قریب نصف صدی بعد ، یہی نظریہ ایٹم بم، ہائیڈروجن بم اور بجلی کی پیداوار (نیوکلیئر پاور پلانٹ) بنانے میں کار آمد ثابت ہوا۔

مگر بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس کے بعد بھی دنیائے سائنس میں کچھ بہت دلچسپ اور حیرت انگیز برپا ہونے جا رہا تھا۔ 1915 ء میں آئن سٹائن نے ”جنرل تھیوری آف ریلے ٹیویٹی“ پیش کر دی۔ جس نے زمان اور مکان سے متعلق ہمارا نظریہ ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا۔ ایک صدی سے اوپر کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر آج تک ہم اس تھیوری کے دماغ کو عاجز کر دینے والے نتائج سے مستفید ہو رہے ہیں۔

ہم اس تھیوری کو نہایت آسان الفاظ میں بیان کریں تو ہم اپنی بات کا آغاز مساوات کے اصول سے کریں گے۔ جس کے تحت ایک تیز رفتار جسم اور ایک کشش ثقل کے میدان میں کھڑا ہوا جسم۔ جسمانی طور پر ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اس نظام میں آئن سٹائن نے کشش ثقل کو زمان و مکان کی جیو میٹرک (اشکالی) خصوصیت قرار دیا۔ بالخصوص، اس نے لکھا کہ قوی الجثہ اجسام کی قربت کے باعث زمان و مکان کی جیومیٹری بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ کشش ثقل کی وجہ سے اس میں خم آ جاتا ہے۔

اس تھیوری کی پشین گوئیاں نیوٹن کی کشش ثقل کی تھیوری سے کسی حد تک متصادم نکلیں۔ اب فزکس کی تاریخ کا سب سے بڑا اور ڈرامائی تجربہ کیا گیا جس میں دنیا کے دو عظیم سائنسداں آئزک نیوٹن اور البرٹ آئن سٹائن اپنی اپنی تھیوری کے ساتھ ایک دوسرے کے مد مقابل تھے۔ اس تجربے میں یہ مشاہدہ کرنا تھا کہ اگر کس قوی الجثہ جسم کے قریب سے روشنی گزاری جائے تو کیا اس کی کرنیں خمیدہ ہو جائیں گی؟

یہ تجربہ اس طرح انجام پایا :

مئی 1991 ء میں برطانیہ کے معروف ماہر فلکیات ’سر آرتھرایڈنگٹن‘ نے براعظم افریقہ کے مغربی ساحل کے پار ”پرنسیپی“ نامی جزیرے پر ایک مہم بھیجی۔ مہم کے ارکان نے سورج گرہن کے دن مخصوص دور بینوں سے یہ مشاہدہ کرنا تھا کہ دور دراز کے ستاروں سے آنے والی روشنی کی کرنیں سورج کی کشش ثقل کی وجہ خمیدہ ہو رہی ہیں یا نہیں؟

آئن سٹائن کی جرنل تھیوری آف ریلے ٹیویٹی کی عملی شکل، نیوٹن کی کشش ثقل کی تھیوری سے یکسر مختلف نکلی۔ جب تجربے کے نتائج کا اعلان ہوا تو آئن سٹائن کے دعوٰے درست نکلے۔ اور آئن سٹائن راتوں رات دنیا کی مشہور شخصیت اور عظیم ترین سائنسداں بن گئے۔

آئن سٹائن کی جرنل تھیوری آف ریلے ٹیویٹی (عام نظریہ مناسبت) نے سائنس کی دنیا میں کئی اور غیر متوقع اور انقلابی اثرات مرتب کیے ۔ اس نے پہلی دفعہ یہ انکشاف کیا کہ کائنات تواتر سے پھیل رہی ہے۔ اس کو بھی مخصوص دوربینوں کے مشاہدات سے آزمایا گیا۔ اس کے بعد بگ بینگ کا مفروضہ وجود میں آیا جو کائنات کے آغاز سے متعلق آج بھی بڑی حد تک ایک تسلیم شدہ نظریہ ہے۔

اس تھیوری کی ایک اور پیش گوئی ”بلیک ہول“ کا وجود تھا۔ جو خلا میں موجود ایسی دیو ہیکل اشیاء ہیں جن کی کشش ثقل اتنی زیادہ ہے کہ ہر شے کو، حتیٰ کہ روشنی کو بھی اپنے اندر اس طرح کھینچ لیتے ہیں کہ پھر کبھی ان سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ سٹیفن ہاکنگ کی روداد میں، ہم اس کا تفصیل سے ذکر کریں گے۔

1905 ء میں شائع ہونے والے، آئن سٹائن کے ایک اور مضمون نے ایک دیرینہ سائنسی قضیہ حل کر دیا۔ یہ مسئلہ، کسی دھات پر روشنی پڑنے سے برقی ذرات، الیکٹران پیدا ہونے سے متعلق تھا۔ اس عمل کا نام انھوں نے ”“ فوٹو الیکٹرک افیکٹ ”رکھ چھوڑا تھا۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ سائنسدانوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ سب سے زیادہ پریشان کن امر یہ تھا کہ جب سرخ روشنی دھات پر گرائی گئی تو کوئی الیکٹران دھات کی سطح سے باہر نہیں نکلا، حالانکہ اس روشنی کی طاقت بہت شدید تھی۔ مگر جب بنفشی رنگ کی روشنی اسی دھات پر ڈالی گئی تو الیکٹران باہر نکل پڑے اور برقی رو بہنا شروع ہو گئی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

آئن سٹائن نے اس کا جواب تلاش کر لیا۔ اس نے مفروضہ پیش کیا کہ روشنی دراصل توانائی کے ذرات پر مشتمل ہوتی ہے۔ جن کو فوٹان کہا جا سکتا ہے۔ فوٹان اپنے اندر توانائی کی خاص مقدار رکھتے ہیں۔ آئن سٹائن کے اس نظریے سے صدیوں پرانے اس مفروضے کو شدید دھچکا لگا جس کے مطابق روشنی لہروں پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے روشنی کی کرنوں کو پھیلایا جاسکتا ہے اور ان کا رخ بھی موڑا جا سکتا ہے۔ اور اب ایک نیا کلیہ پیش کر دیا گیا تھا جس کے تحت روشنی کی ہیئت کو ذرات پر مشتمل سمجھ کر آگے بڑھنا ضروری تھا۔ واقعتاً، ایسا ہی ہے : روشنی کچھ تجربات میں لہروں کی صورت چلتی ہے اور کچھ تجربات میں یہ فوٹان کی صورت سفر کرتی ہے۔

روشنی کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ کب اس نے ذرات کی خصوصیات اپنانی ہیں اور کب لہروں کی؟ اس سوال کا جواب ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر ملنی ابھی باقی ہے۔ البتہ روشنی کے اس دوہرے مزاج نے سائنسدانوں کے لئے نئے راستے کھول دیے۔ اور اس علم کا دائرہ الیکٹران اور ایٹم جیسے ذرات تک جا پہنچا۔ اور یوں 1925 ء میں، فزکس کی ایک نئی شاخ کوانٹم مکینکس ظہور پذیر ہوئی۔ روشنی کے دہرے طریقے سے سفر کرنے سے متعلق معمہ جو آئن سٹائن کے کام سے ظہور پذیر ہوا تھا۔ سو سال سے اوپر عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی قائم ہے اور اس کی وجہ سے روشنی اور مادے سے متعلق گرما گرم مباحث اب تک ہو رہے ہیں۔

آئن سٹائن کی ’جرنل تھیوری آف ریلے یویٹی‘ اور ’کوانٹم مکینکس‘ کی تھیوری سائنس کی دنیا میں انقلابی اور بے مثال نظریے ہیں۔ جنھوں نے ایسے مشاہدات اور پیش گوئیاں کی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

جس طرح نیوٹن کے علم میکانیات اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کی بنیاد بنا تھا اسی طرح آئن سٹائن کی تھیوری نے تیکنیکی ترقی و ترویج کی نئی راہیں ہموار کیں۔ الیکٹرانکس کی صنعت ہو یا مواصلاتی انقلاب، کمپیوٹر ٹیکنا لوجی ہو یا توانائی پیدا کرنے کے ذرائع، نینو ٹیکنالوجی ہو یا لیزر اور اس سے متعلق مصنوعات، ان کا کوئی وجود نہ ہوتا، اگر آئن سٹائن کی اس تھیوری سے دنیا روشناس نہ ہوتی۔ اگر ان نئے قوانین سے سائنس کی آشنائی نہ ہوتی تو ہم آج بھی اٹھارہویں صدی کے پرانے اور نیوٹانی طبیعیات کے دور میں زندہ ہوتے۔

سائنس کی بے پناہ کامیابیوں کے باوجود جرنل تھیوری آف ریلے ٹیویٹی اور کوانٹم مکینکس نے اپنا آزاد وجود قائم رکھا ہوا ہے۔ اور ان پر تحقیق کر کے ان کو آپس میں مدغم کرنے کی کوئی کوشش اب تک بار آور نہیں ہو سکی۔ اس راستے میں بہت زیادہ مشکلات ہیں۔ البتہ ایک میدان ایسا ہے جس کے اندر دونوں مفروضوں کے ادغام نے حیران کن نتائج پیدا کیے ہیں۔ یہ انکشاف ہمیں ”سٹیفن ہاکنگ“ تک لے آیا ہے۔ جو میرے اس مضمون کے تیسرے ہیرو ہیں۔

سٹیفن ہاکنگ 1942 ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ہمارے وقت کے سب سے بڑے سائنسدانوں میں شامل تھے۔ یوں لگتا ہے کہ لیاقت اور ذہانت کا ایک ہالہ ان کے ارد گرد ہر وقت موجود رہتا تھا۔ ایک مخصوص بیماری کی وجہ سے وہ نہ تو بول سکتے تھے اور نہ لکھ سکتے تھے۔ انھوں نے تقریباً ساری عمر ایک وہیل چئیر پر گزار دی۔ مگر ان کی سائنسی خدمات نے نہ صرف انھیں زبان زد عام کیا بلکہ آئزک نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے عظیم سائنسدانوں کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، آئن سٹائن کی حیران کن دریافت، ’تھیوری آف ریلے ٹیویٹی‘ میں بلیک ہول کا وجود تھا۔ بلیک ہول کی کشش ثقل اپنے اندر بے پناہ طاقت رکھتی ہے۔ اس کی زد میں آنے والی کوئی شے اس کی کشش ثقل سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ حتٰی کہ کسی قسم کی کوئی روشنی بھی بلیک ہول سے بچ کر نہیں جا سکتی۔ ایک طویل عرصے تک بلیک ہول کا یہ تصور دنیا میں سچ مانا جاتا رہا۔

ہاکنگ کا سب سے اہم کارنامہ بلیک ہول کے درج بالا تصور کی درستگی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نئی دریافت شدہ سائنس، کوانٹم مکینکس کی کچھ خصوصیات ایسی ہیں جن کی وجہ سے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ کچھ زیر و بم ایسے بھی ہیں کہ روشنی پر مبنی ذرہ پھٹ کر دو فوٹان پیدا کر دے۔ جن میں سے ایک فوٹان بلیک ہول کے اندر چلا جائے اور دوسرا باہر نکل جائے۔ نتیجتاً یہ ہو سکتا ہے کہ بلیک ہول آہستہ آہستہ اپنی توانائی سے تہی دامن ہوتا رہے اور بالآخر اپنا وجود محدود کرتے ہوئے کائنات میں تحلیل ہو جائے۔ اس حیران کن انکشاف نے سٹیفن ہاکنگ کو دنیا میں ایک بڑے سائنسداں کے طور پر متعارف کروایا۔

ایک بلیک ہول کو تحلیل ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟ شاید اس کا تخمینہ ہماری کائنات کی کل زندگی سے کھربوں سال زیادہ ہے۔ لہٰذا اس کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہم میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments