کنن پوش پورہ، مقبوضہ کشمیر میں عصمت دری کا المناک واقعہ


بھارتی مقبوضہ کشمیر جسے حرف عام میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کہا جا تا ہے، میں بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے ہٹ دھرمی اور دھونس پر مبنی انکار کی صورتحال میں میں کشمیریوں کی سیاسی اور عسکری جدوجہد 1988 میں تیز تر ہوئی۔ گزشتہ 35 سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید کیے گئے اور کشمیری فریڈم فائٹرز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ بھارت کشمیریوں کے خلاف فوج کے قتل و غارت گری سمیت ہر طرح کے ظلم و ستم کا حربہ استعمال کر نے کے باوجود کشمیریوں کے عزم آزادی کو دبانے میں اب تک ناکام چلا آ رہا ہے۔

بھارت نے کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو دبانے کے لئے خواتین کی عصمت دری کو ایک جنگی حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں کشمیری خواتین کی عصمت دری کے ہزاروں واقعات پیش آئے ہیں جن میں اجتماعی عصمت دری کے کئی واقعات بھی شامل ہیں۔ سرینگر میں شال ٹینگ کے قریب ایک بارات کو بھارتی فوج نے روک لیا اور دلہن کو گاڑی سے اتار کر نزدیکی فوجی پکٹ میں لے جا کر اس کی عصمت دری کی گئی۔ اسی طرح بارات کو راستے میں روک کر دلہنوں کی عصمت دری کے مزید واقعات بھی ریکارڈ پہ موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیریوں کے خلاف عصمت دری کے بدترین عمل کو جنونیت کے انداز میں ایک جنگی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

13 فروری 1991 کو بھارتی فوج کی 4 راجپوتانہ رائفلز نے ضلع کپواڑہ کے دو گاؤں کنن اور پوش پورہ کو گھیرے میں لینے کے بعد تمام آبادی کو گھروں سے نکال کر مردوں اور خواتین کو الگ الگ کر دیا۔ مردوں کو بندوق کی نوک پر ایک جگہ جمع کرنے کے بعد بھارتی فوجیوں نے ان پر شدید تشدد کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق بھارتی فوجی شراب کے نشے مین دھت تھے اور وہ نعرے لگاتے ہوئے سب کو مار دینے کی باتیں کر رہے تھے۔ اس کے بعد بھارتی فوجیوں نے کنن اور پوش پارہ نامی دیہاتوں کی خواتین کی اجتماعی عصمت دری کا بھیانک عمل شروع کر دیا اور اس دوران دس سال کی معصوم بچی سمیت 70 سالہ خاتون کی بھی عصمت دری کی گئی۔

بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کنن اور پوش پورہ نامی دیہاتوں میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں عصمت دری کی شکار خواتین کی تعداد 150 بتائی جاتی ہے جبکہ دو سو سے زائد مرد بھارتی فوجیوں کے تشدد سے شدید زخمی ہوئے۔ اس اندوہناک واقعہ کے منظر عام پہ آتے ہی دنیا بھر میں بھارت کی شدید مذمت سامنے آئی اور بھارت کو عالمی سطح پہ سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی کوشش سے عصمت دری کی شکار 23 خواتین کے کیس عدالت میں پیش کیے گئے لیکن سالہا سال گزرنے کے باوجود اس مقدمے میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ اس سے ایک بار پھر واضح ہوا کہ بھارتی عدلیہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی فورسز کے غیر انسانی سلوک کی صورتحال میں انصاف کرنے کے بجائے بھارتی حکومت کے لئے سہولت کاری کا کردار ادا کر رہی ہے۔

عالمی دباؤ کی صورتحال میں کنن اور پوش پورہ میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں درجنوں خواتین کے عصمت دری کے واقعہ کے دو ہفتے بعد 8 مارچ کو اس واقعہ کی تریہگام پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی اور مارچ کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مفتی بہا الدین فاروقی کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ وفد نے کنن اور پوش پورہ کا دورہ کرتے ہوئے انسانیت سوز واقعہ کی تفصیلات جمع کیں۔ ہائیکورٹ وفد نے 53 خواتین کے انٹرویو کیے اور سب نے بھارتی فوجیوں کے خلاف عصمت دری کیے جانے کی تصدیق کی۔

آزاد ذرائع کے مطابق کنن اور پوش پورہ کے دیہاتوں میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں عصمت دری کی شکار لڑکیوں، خواتین کی تعداد دو سو سے زائد ہے۔ کنن اور پوش پورہ کے لوگ تیس سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی صدمے کی حالت میں ہیں۔ ریاستہائے متحدہ کے محکمہ خارجہ نے بین الاقوامی انسانی حقوق پر اپنی 1992 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ معتبر ثبوت موجود ہیں جو کنن پوشپورہ میں آرمی یونٹ کے خلاف اجتماعی عصمت دری کے الزامات کی حمایت کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کی ایک مقامی تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی فورسز نے 1989 سے 2020 کے درمیان 11,224 خواتین کی عصمت دری کی جن میں 11 سال سے کم عمر اور 60 سال کی خواتین بھی شامل تھیں۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں کئی انسانیت سوز کالے قوانین نافذ کر رکھے ہیں اور ایسے ہی ایک قانون (AFSPA) کے تحت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کو کشمیریوں کے خلاف قتل و غارت گری، تشدد سمیت ہر طرح کی کارروائیوں میں کسی تادیبی کارروائی سے مکمل استثناء حاصل ہے یعنی ان کے خلاف کسی کشمیریوں کے خلاف کسی بھی قسم کے جرم پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بھارتی فوجی شہری علاقوں، دیہاتوں کا گھیراؤ کرنے کے بعد مردوں کو گھروں سے نکال کر ایک جگہ جمع کرتے ہیں ا ور پھر گھروں میں تلاشی کے بہانے توڑ پھوڑ اور خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ اکثر واقعات میں خواتین کی عصمت دری کے واقعہ کا نشانہ بننے والی لڑکیاں، خواتین بھارتی فوجیوں کی طرف سے جان کے خوف سے عصمت دری کے واقعات چھپاتی بھی ہیں اور اگر چھپائے جانے واقعات کو بھی شامل کیا جائے تو عصمت دری کے ریکارڈ واقعات کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز انسداد بغاوت کی کارروائیوں کے دوران عصمت دری کو سزا دینے، ڈرانے اور کمیونٹیز کی تذلیل کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔

بین الاقوامی انسانی قانون (IHL) اور بین الاقوامی انسانی حقوق قانون (IHRL) کے تحت جنسی تشدد کو کنٹرول کرنے والی شقوں کی بھارت مقبوضہ کشمیر میں کھلے عام خلاف ورزی کر رہا ہے جبکہ بھارتی حکومت نے 1949 کے جنیوا کنونشنز کی توثیق کی ہے جو مشترکہ آرٹیکل 3 حکومت اور عسکریت پسند قوتوں دونوں کی طرف سے غیر جنگجوؤں کے قتل، تشدد اور ناروا سلوک کو منع کرتا ہے۔ جنیوا کنونشن IV آرٹیکل 27 کہتا ہے، ”خواتین کو ان کی عزت پر ہونے والے کسی بھی حملے، بالخصوص عصمت دری، جبری عصمت فروشی، یا کسی بھی قسم کے غیر اخلاقی حملے کے خلاف خاص طور پر تحفظ حاصل ہونا چاہیے“ ۔ 1977 کا ایڈیشنل پروٹوکول II ”ذاتی وقار پر غصہ، خاص طور پر ذلت آمیز سلوک، عصمت دری، جبری جسم فروشی، اور کسی بھی قسم کے غیر اخلاقی حملے“ کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

2 اکتوبر 1992 میں ایشیا واچ اور فزیشنز فار ہیومن رائٹس (PHR) کے نمائندوں نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے عصمت دری اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ہندوستانی جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کے واقعات کی تحقیقات کرتے ہوئے اپنی رپورٹس مرتب کیں۔ ایشیا واچ اور فزیشنز فار ہیومن رائٹس نے اپنی تحقیقاتی رپورٹس میں بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کے واقعات عمومی طور پر پیش آتے ہیں۔

بھارتی فوجی کریک ڈاؤن، محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں، جن کے دوران مردوں کو پارکوں میں شناخت کے لیے کسی کھلی جگہ جمع کر کے بٹھایا جاتا ہے اور ایک ایک کر کے ان پر شدید تشدد کیا جاتا ہے۔ جبکہ گھروں میں موجود خواتین کو عصمت دری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق بھارتی فوجی عصمت دری کشمیریوں کو سزا دینے اور انہیں خوفزدہ کرنے کے حربے کے طور کرتے ہیں۔ بھارتی فوجی مقامی آبادیوں کے محاصرے کے بعد مقامی لوگوں پر کشمیری فریڈم فائٹرز کی مدد اور حمایت کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے ان کے خلاف قتل، تشدد عصمت دری اور گھروں میں توڑ پھوڑ سمیت ہر طرح کی کارروائیاں آزادانہ طور پر کرتے ہیں کہ انہیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں عصمت دری کے واقعات بڑی تعداد میں ریکارڈ پہ موجود ہیں۔ مئی 1990 میں بھارتی سرحدی فوج بی ایس ایف نے ایک نوجوان دلہن کو حراست میں لے کر اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ رخصتی کے بعد بارات کے ساتھ اپنے شوہر کے گھر جا رہی تھی۔ اس موقع پر دلہن کی خالہ کو بھی بھارتی فوجیوں نے عصمت دری کا نشانہ بنایا۔ اس موقع پر بھارتی فوجیوں نے باراتیوں کی بس پہ فائرنگ کر کے چند کشمیریوں کو ہلاک اور زخمی بھی کیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق جولائی 1990 میں سوپور میں پولیس نے 24 سالہ حسینہ کی عصمت دری کے الزام میں بی ایس ایف کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ 26 جون 1990 کو سوپور میں ایک محلے کی تلاشی کے دوران بھارتی فوجیوں نے حسینہ نامی ایک خاتون کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا۔ اس خاتون کو شدید زخمی حالت میں سوپور ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس پر تشدد اور عصمت دری کی تصدیق کی۔ نومبر 1990 میں، اننت ناگ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں سات خواتین کے معائنے کے بعد ان کی عصمت دری اور تشدد کی تصدیق کی گئی۔

یہ واقعہ ایک شادی میں پیش آیا جہاں بھارتی فوجیوں نے شادی کی تقریب میں دھاوا بولتے ہوئے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور دلہن سمیت سات خواتین کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا۔ 5 دسمبر 1991 کو اننت ناگ کے قریب 5 خواتین کو بھارتی فوجیوں نے عصمت دری کا نشانہ بنایا۔ جموں سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز میں 14 جنوری 1993 کو شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت نے عصمت دری کے 87 واقعات کی انکوائری کا اعلان کیا لیکن نہ تو ایسی کوئی انکوائری ہوئی اور نہ ہی انکوائری کی کوئی رپورٹ سامنے آ سکی۔

ایشیا واچ اور انسانی حقوق کی ایک دوسری تنظیم پی ایچ آر نے بھارتی فوج کے ہاتھوں عصمت دری کے 15 انفرادی واقعات کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بنایا۔ سیدا پورہ، شوپیان، ضلع پلوامہ کے قصبے سے تقریباً چار کلومیٹر جنوب میں 10 اکتوبر 1992 کی رات 22 ویں گرینیڈیئرز 22 کا ایک فوجی دستہ چک گاؤں میں داخل ہوا اور کم از کچھ اور غالباً نو خواتین، جن میں ایک گیارہ سالہ لڑکی اور ایک 60 سالہ خاتون شامل ہیں، کو کئی فوجی جوانوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

ایشیا واچ اور فزیشنز فار ہیومن رائٹس (PHR) نے ان خواتین کی عصمت دری کے بعد ان کا معائنہ کرنے والے سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں سے اس واقعہ کی تفصیلات اکٹھی کیں۔ شوپیاں ڈسٹرکٹ ہسپتال کے سرجن جنہوں نے 11 اکتوبر کو سات خواتین کا معائنہ کیا تھا۔ میڈیکل معائنے میں ان سب کی عصمت دری کی تصدیق ہوئی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنی رپورٹس میں یہ بھی بتایا کہ گھروں میں داخل ہو کر لڑکیوں، خواتین کی عصمت دری کرنے والے کئی بھارتی فوجیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں ایسا کرنے کا افسران نے حکم دیا ہے۔

ایشیا واچ اور پی ایچ آر کی جانب سے حکومت سے معلومات کے لیے درخواستوں کے جواب میں واقعہ، حکام نے بتایا ہے کہ آرمی یونٹ، جو کہ عام طور پر چک سید پورہ میں تعینات ہوتا ہے، نے ”تلاشی کی۔ گاں میں مخصوص اطلاع پر آپریشن کیا گیا کہ وہاں کچھ عسکریت پسند چھپے ہوئے ہیں۔“ انہوں نے بتایا کہ 0010 سے 145 گھنٹے تک تلاشی لی گئی جس کے دوران سات گھروں کی تلاشی لی گئی۔ ایک بزرگ آدمی کی موجودگی۔ ”سینئر حکومتی عہدیداروں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ تلاشی لی گئی۔

روزنامہ کشمیر ٹائمز کے مطابق 14 اکتوبر 1992 کو شوپیاں میں پولیس نیبی ایس ایف کے خلاف 13 اکتوبر کو گینگ ریپ کا مجرمانہ مقدمہ درج کیا گیا۔ گورنمنٹ آف انڈیا ٹو ایشیا واچ/پی ایچ آر نے کہا کہ کیس کرائم برانچ کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ پولیس کی خصوصی تفتیشی شاخ اپریل 1993 تک، حکومت نے نتائج کو عام نہیں کیا۔ تحقیقات، اور نہ ہی ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی اور سزا دینے کے لیے کوئی کارروائی کی گئی۔

حران میں عصمت دری کا واقعہ 20 جولائی 1992 کو پیش آیا۔ سری نگر سے تقریباً 25 کلومیٹر مغرب میں حران قصبے کے قریب فوج کے سرچ آپریشن کے دوران پیش آیا جہاں صبح چھ بجے بھارتی فوجیوں نے تلاشی مہم کے دوران متعدد لڑکیوں، خواتین کی انہی کے گھروں میں عصمت دری کی۔ علاقے میں یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا۔ یکم اکتوبر 1992 کو بی ایس ایف کا ایک گشتی کریک ڈاؤن سے واپس آ رہا تھا کہ ہندواڑہ ضلع کے گاؤں بکھیکر کے قریب عسکریت پسندوں کے حملے میں ایک بھارتی فوجی مارا گیا۔

اس کے فوری بعد بی ایس ایف کے فوجیوں نے قریبی گاؤں بٹی کٹ میں دھاوا بول دیا۔ دس افراد کو ہلاک اور گھروں اور اناج کی دکانوں کو جلایا اور کئی گھروں میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ متعدد خواتین کی عصمت دری کی۔ بھارتی فوجیوں نے کئی خواتین کو ان کے معصوم بچوں کو قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے بھی ان کو عصمت دری کا نشانہ بنایا۔ عصمت دری کا شکار ہونے والوں میں ایک 13 سال کی معصوم بچی بھی شامل تھی۔ یہ واقعہ بھی ایشا واچ اور پی ایچ آر کی رپورٹ میں شامل ہے۔ ایشیا ہیومن رائٹس کی عصمت دری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ڈاکومینٹیشن پر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس آر ساہنی ناردرن کمانڈ کے جنرل افسر کمانڈنگ ان چیف سے ریپ کے الزامات کا جواب طلب کیا گیا لیکن اس نے مصدقہ واقعات کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے جواب دینے سے انکار کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments