اور نکلیں گے عشاق کے قافلے


میں اپنے صحافی دوست ابصار عالم کی گھٹتی ہوئی چیخوں کے مابین ہمدردی اور افسوس کے دوراہے پر کھڑا نجانے کیوں اس ماں ایسی ریاست میں خود کو بے دست و پا محسوس کر رہا ہوں، گو ذہنی طور سے میں اعصاب کے شل ہونے کو اب تک نہیں مانا ہوں اور نہ ہی جبر و قہر کے آگے دستبردار ہونے کو تیار ہوں، مگر اس باپ کے المیے پر میں کیوں نہ دھاڑوں یا چلاؤں، جس کے مستقبل کے پودے کی جڑوں میں ریاست کے آمر اور طاقت کے متولی زہر گھول گئے ہوں، طاقت کے ناخداؤں نے دھرتی ماں کے سپوتوں کو چبانے اور ڈکارنے کا غیر آئینی فریضہ سنبھال لیا ہو، میں آخر کب تک اور کیوں کر اس ظلم و بر بریت پر خاموش تماشائی کی مانند ٹکر ٹکر دیکھتا رہوں، مجھے کیسے قرار آئے جب میری اولاد مانند عمر ابصار مجھے اپنی حسرتوں سے آگاہ کرنے میں اشارے کنایوں کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا گیا ہو، میں عمر کے اس مہکتے ہوئے پھول بننے کی مہک سے بھلا کیسے زمانے کو دور رکھوں، مجھ سے ظلم کے نا خدا کیوں یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں بے حس و لاچار سماج کا فرد بن جاؤں اور اپنے حواس کو سیقل نہ کروں، بھلا اس ریاست کا کرو فر اور طاقت کیوں تاتاری بننے کی آخری حدوں کو چھونے کی کوشش میں دھرتی کی نسل کو بوٹوں تلے روند کر ذہنی اپاہج کر رہی ہے، عوام کو مذہب کے خناس میں مبتلا کر کے ہر عمل کے پیچھے مصلحت ایزدی کا منجن بیچ کر کوکین کے نشے کی عادی بنا رہی ہے۔ ؟ کیوں آخر کیوں۔ ؟

ابصار عالم نے تین برس بعد اس واقعے کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے لکھا کہ ”مارچ 2020 میں میرا بیٹا محمد عمر ابصار اپنا پہلا کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے پنڈی اسٹیڈیم کے سامنے مری روڈ پر اپنے کزنز کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ پہنچیں تو سب مل کر اکٹھے پی ایس ایل کا میچ دیکھنے اسٹیڈیم داخل ہو سکیں، وہیں سے اس نے فون پر اپنے کزنز کو اپنی لوکیشن بتائی کہ وہ کہاں کھڑا ہے تاکہ وہ آسانی سے اسے ڈھونڈ سکیں، یہ فون کال کرنا اس کا جرم ٹھہری کیونکہ اسی دن سپہ سالار جنرل باجوہ نے بھی اپنے لاڈلے بچوں کے ساتھ میچ دیکھنے آنا تھا۔

ابھی فاتحہ کشمیر براستہ صاحب بہادر کے گھر سے نکلنے میں دو گھنٹے باقی تھے لیکن مری روڈ پر حفاظتی انتظامات ایسے مبالغہ آمیز کہ امریکی صدر بھی دیکھے تو دانتوں میں انگلی داب لے، مری روڈ پر چہار اطراف پاک فوج کے بہادر اور پنجاب پولیس کے گھبرو جوان ہزاروں کی تعداد میں سویلین کپڑوں اور یونیفارم میں ڈیوٹی پر موجود تھے، چھتوں پر خود کار رائفلوں کے ساتھ شارپ شوٹرز کالے چشمے لگائے مشکوک افراد کو ڈھونڈ رہے تھے، ان فرض شناس اہلکاروں نے جب ایک بیس سالہ لڑکے کو فون پر بات کرتے ہوئے دیکھا تو بھگدڑ مچ گئی، فوج اور پولیس کے چاق و چوبند جوانوں نے فوراً اس کو گھیر لیا، اس کے ہاتھ سے فون چھین لیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے گئے، پوچھا کہ وہ کون ہے تو اس نے اپنا نام بتایا اور مزید پوچھنے پر بتایا کہ وہ ابصار عالم کا بیٹا ہے، بس یہ سننا تھا کہ پاک فوج اور پنجاب پولیس کے تقریباً 15 / 16 شیر جوان اسے دھکے دیتے ہوئے ایک بلڈنگ میں لے گئے اور اندر لے جاکر سب اس نہتے لڑکے پر پل پڑے، گھونسوں، تھپڑوں، لاتوں سے اسے مارنا شروع کر دیا، ساتھ اس کا“ جرم ”بتاتے رہے کہ“ تمہیں پتا نہیں تھا کہ آرمی چیف آرہے ہیں اور تم یہاں کھڑے ہو کر فون پر بات کر کے سیکورٹی بریچ کر دی ہے، بتاؤ اس وی آئی پی موومنٹ کی انفارمیشن کس کو دے رہے تھے ”؟

اکیسویں صدی میں پیدا اور بڑے ہونے والے میرے ”گستاخ“ بیٹے کو پتہ نہیں تھا کہ وہ باجوہ ڈاکٹرائن کی تخلیق کردہ اس ریاست مدینہ کے ٹیکس پیئر کا بیٹا ہے جہاں سرکاری نوکر بادشاہ ہوتا ہے اور وطن کے مالک عوام اس بادشاہ کے غلام، اور اپنے ہی ملازموں کے غلام عوام پر لازم ہے کہ بادشاہ سلامت کی سواری گزرنے سے کئی گھنٹے قبل ہی اپنی عزت اور جان بچانے کی خاطر ایسی جگہوں سے میلوں دور رہیں جہاں سے ظل الہی کا قافلہ گزرنا ہے۔ رات دیر گئے عمر واپس گھر پہنچا تو جس بیٹے کو ہمیشہ قانون پر عمل کرنے اور سیدھے راستے پر چلنے کی تربیت دی تھی، جب وہ میرے بازوؤں میں تڑپ کر رویا تو میرے پاس اس کی بھیگی اور اداس آنکھوں میں کلبلاتے کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا۔

اس رات سے میرے اکلوتے بیٹے کے نفسیاتی مسائل شروع ہوئے، جن کا علاج اور تھراپی آج تیسرے سال بھی جاری ہے، پورے خاندان نے جو پریشانی اٹھائی وہ ایک طرف لیکن اس کا تعلیمی سال ضائع ہو گیا اور آج بھی وہ اپنے ٹراما سے نکلنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ ”

ابصار عالم کے اس ذہنی کرب اور سانحہ کو میں اور میری بچیاں بہت اچھی طرح محسوس کر سکتی ہیں کہ میرا خاندان تو چھ دہائیوں سے یہ سب بھگت رہا ہے، ایک وقت تھا جب ملک میں ایوبی مارشل لا کے خلاف میرے ماموں اور طلبہ تحریک کے سرخیل و سوشلٹ فکر کے سیاسی رہنما ”علی مختار رضوی“ کو طلبہ مزدور کسان اور محروم طبقات کی جمہوری آزادی کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں گرفتار کر کے شاہی قلعے کے ”بندی خانوں“ میں کڑکتی سردیوں میں برف کی سلوں پر لٹا کر ان میں ”کینسر“ کے جرثومے کا بیج بویا، مجھے تو وہ چلچلاتی دھوپ اور اپنے گاؤں ”دادو“ سے میلوں کا سفر طے کر جنم دینے والی اس ماں کے وہ لمحے نہیں بھولتے، جب وہ لاہور کے شاہی قلعے کی آگ برساتی دھوپ میں پہروں ”بھائی“ سے ملنے کے لئے کھڑی رہتی تھیں، جبکہ بندی خانوں سے درد کی چیخوں کی آوازیں میری ماں کا استقبال کیا کرتی تھیں، اور اندر علی مختار رضوی کے ہاتھ کے ناخنوں کو پلاس سے کھینچ کے اذیت دی جاتی تھی، مجھے تو 2006 میں آمر مشرف کے دور میں دو بجے رات کا وہ پہر بھی نہیں بھولتا جب میں اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی بنا ”روشنی ٹی وی“ کے ڈائریکٹر نیوز کی حیثیت سے رات گئے نواب اکبر بگٹی کی نماز جنازہ پڑھانے والے ”ملا ملوک“ کے قتل کی ہولناک خبر پر نیند سے جگا دیا گیا تھا، میں نے رپورٹر سے تین بار خبر کی تصدیق کی اور سرد رات میں چینل چلا گیا اور ”ملا ملوک کے قتل کے ٹکر اور ٹیمپلٹ اپنی موجودگی میں چلوا دیے، ابھی یہ بریکنگ آن ائر ہی ہوئی تھی کہ میرے فون پر“ پرائیویٹ ”نمبر سے فون آیا اور کہا گیا کہ یہ خبر آپ کے چینل پر کیوں چل رہی ہے؟

میں نے تعارف پوچھا تو انتہائی تحکمانہ لہجے سے کہا گیا کہ“ خبر ہٹائیں ”چونکہ میرا رپورٹر اپنی خبر پر قائم تھا لہذا خبر چلتی رہی، فون دوبارہ آیا اور کہا گیا کہ“ کہا تھا کہ خبر نا چلائیں پھر بھی خبر چل رہی ہے ”میں نے کہا آپ تردید کر دیں، میں وہ بھی چلا دوں گا، اس پر موصوف آگ بگولا ہو گئے اور کہا کہ“ آپ کی دو بیٹیاں فلاں فلاں اسکول میں پڑھتی ہیں، جانتے ہیں نا آپ ”۔ بس یہ سنتے ہی میں نے کہا کہ اگر جرات مند اور بہادر ہو تو سامنے آ کر میری بیٹیوں کو نقصان پہنچانا، پھر مقابلہ ہو گا، یہ سنتے ہی فون بند ہو گیا، خبر چلتی رہی اور صبح تڑکے معمول کے مطابق میری بیٹیاں اسکول گئیں اور جاتی رہیں، مگر میں یہ کرب اور اذیت آج تک اپنی بچیوں کو نہ بتا سکا، اس کے بعد مجھے صحافتی ذمہ داریاں ادا نہ کرنے سے روکنے کے لئے“ آب پار کی سرخ فہرست ”میں ڈال دیا گیا، جس سے نکلوانے کا سہرا آج کے بہت محترم صحافی کو جاتا ہے، مگر پھر بھی ریاست مدینہ کے والی کی خواہش کی بھینٹ چڑھا کر مجھے دوبارہ بیروزگار ہونا پڑا، یہی نہیں بلکہ باجوہ ڈاکٹرائن کے عوام دشمن اقدامات سامنے لانے پر 2021 میں ستمبر کی ایک رات تین بجے دندناتے ہوئے بندوق بردار بغیر وارنٹ میرے گھر میں داخل ہوئے اور میری بچیوں کے سامنے مجھے بغیر وارنٹ لے گئے اور قید تنہا کر دیا گیا، جس پر ملک بھر کے صحافیوں صحافتی تنظیموں، ملکی و عالمی چینلوں کے احتجاج پر رینجرز کے بندی خانے سے آزاد ہوا، آج اس المیے کو بتانے کے محرک ابصار عالم اور عمر ابصار بنے ہیں، وگرنہ شاید ہم صحافیوں کی یہ کٹھنائیں اور رنج و الم منظر عام پر ہی نہ آتے اور جبر و قہر کے“ ان داتا ”یوں سر عام نہ ہوتے۔

ہائبرڈ نظام کے تخلیق کار ریٹائرڈ جنرل باجوہ کے بلونگڑے آج جس جانفشانی سے اپنے اقتدار دلوانے کے آقا کے چیتھڑے ملک کی سیاسی فضاؤں میں بکھیر رہے ہیں، اس مکافات عمل کو طاقت اور دولت کے ناخدا نہ سمجھیں تووہ ابصار عالم اور ہائیبرڈ جبر کے شکار ان صحافیوں کے استقامت کو ضرور دیکھ لیں جو تحریر و تقریر اور رائے کی آزادی پر آج بھی استقامت سے کھڑے ہیں اور عمر ابصار مانند اپنے بچوں کے دکھ بھی ان کے ارادوں کو متزلزل نہ کر سکے ہیں، اب بھی وقت ہے وگرنہ!

کاتب وحی کو ڈھونڈتے حکمران
تمغے سجاتے جبر کے طاقتور نشان،
کو چتاونی ہے کہ جب،
بے گھر بے اماں، برباد کچے مکاں کا شعور،
دہک دہک کر، سیال بن جاتا ہے
تو سب بھسم ہو جایا کرتا ہے
بس یہی بتانا تھا تم سب کو!

وارث رضا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وارث رضا

وارث رضا سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں لکھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کہنہ مشق استاد سمجھے جاتے ہیں۔۔۔

waris-raza has 35 posts and counting.See all posts by waris-raza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments