وزیراعظم کی بچت اسکیم سب پر لاگو کیوں نہیں ہوتی؟


وزیر اعظم شہباز شریف نے آج کابینہ کے اجلاس کے بعد متعدد نوع کے بچت اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ ان کے تحت وفاقی کابینہ کے ارکان تنخواہ یا مراعات وصول نہیں کریں گے اور اپنے گھروں کے بل بھی خود ہی ادا کیا کریں گے۔ اسی طرح تمام وزرا اور سرکاری افسروں کو ملکی و بیرون ملک دورے کرتے ہوئے اکنامی کلاس میں سفر کرنے اور بیرون ملک فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیر اعظم کا اعلان سامنے آتے ہی مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ اگر ملکی معیشت کا اتنا ہی خیال ہے تو چوری کا مال واپس لاؤ۔ اس میں مسئلہ صرف یہ ہے کہ نہ چوری ثابت ہوگی اور نہ ہی عمران خان کی خواہش پوری ہو سکے گی۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ جس جس نے قوم کے ساتھ جو جو دو نمبری کی ہے، وہ اس کا کھلے عام اعتراف کر لے اور اس کا مناسب ازالہ کرنے پر آمادہ ہو۔ پارلیمنٹ کے ذریعے ایسے نیک سیرت لیڈروں کو یہ ضمانت دی جا سکتی ہے کہ ’گناہ مان لینے والوں کو معاف کر دیا جائے گا‘ ۔ بہر حال یہ بھی دیوانے کے خواب جیسی خواہش ہی ہے کیوں کہ اس ملک کے سب سے بڑے اور مسلمہ ایماندار (یعنی ایمانداری و دیانت کے سب سے بڑے دعویدار) عمران خان بھی عام شہری کی ایسی کوئی خواہش پوری کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ عمران خان تو توشہ خانہ سے تحائف لینے، بیچنے اور انہیں ’ہضم‘ کرنے کے باوجود دعویٰ کرتے ہیں کہ ’میرا تحفہ، میری مرضی‘ کوئی دوسرا پوچھنے والا کون ہوتا ہے۔

وزیر اعظم نے آج بچت اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے نہایت دردمندی سے ملک کے غربا کا ذکر کیا ہے۔ اس حوالے سے کابینہ کے اجلاس میں تقریر کے علاوہ پریس کانفرنس کے دوران بھی وہ مہنگائی کے ستائے عوام کی پریشانیوں کا ذکر کر کے پریشان ہوتے رہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’کفایت شعاری کے لیے ہمارے مشترکہ اقدام سے غریب شخص کو یہ احساس ضرور ہو گا کہ آج سیاستدان اور بیوروکریٹ صرف دکھانے کے لیے نہیں مگر دل سے کفایت شعاری، سادگی اور تنگی برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں‘ ۔ قارئین پر واضح ہو کہ وزیر اعظم جس تنگی کا ذکر کر رہے تھے، وہ جہاز کی اکنامی کلاس میں سفر کرنے اور بیرون ملک قیام کے دوران نسبتاً کم قیمت ہوٹلوں میں قیام سے متعلق ہے۔

ملک کے عام شہری کو اس ’غلط فہمی‘ میں مبتلا ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ اب اکنامی کلاس میں سفر کرتے ہوئے کسی وزیر، مشیر یا اعلیٰ عہدیدار سے ان کی ملاقات ہو سکتی ہے اور وہ کسی پروٹوکول کے بغیر اپنے لیڈروں کو اپنا حال دل سنا سکتے ہیں۔ کیوں کہ آج کابینہ کے جن ارکان نے اپنا خرچہ خود اٹھانے کا اعلان کیا ہے، وہ سفر کے دوران بزنس کلاس یا فرسٹ کلاس کا ٹکٹ اپنی گرہ سے بھی خرید سکتے ہیں۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بیرون ملک دوروں پر اٹھنے والے اخراجات کی خبریں سامنے آنے پر پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ وہ اپنے سفری اخراجات اور ہوٹلوں کے بل خود ادا کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی ان کی باتوں پر اعتبار نہیں کرتا تو اس کا علاج تو ممکن نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے سرکاری سہولتیں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ حکم نہیں دیا کہ اس ملک کے سیاسی لیڈر اور افسران ’استطاعت‘ کے باوجود اعلیٰ درجے میں قیام نہیں کر سکتے یا کسی فائیو یا سیون اسٹار ہوٹل میں نہیں ٹھہر سکتے۔

تنخواہوں اور سفری مراعات ختم و کم کرنے کے علاوہ وزیر اعظم نے کابینہ کے تمام ارکان سے لگژری گاڑیاں واپس لینے اور انہیں نیلام کرنے کا اعلان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اب سکیورٹی کے مقصد سے چند کاریں دستیاب ہوں گی تاکہ بوقت ضرورت وزیر یا مشیر انہیں استعمال کرسکیں۔ اب اگر وزرا کے پاس سرکار کی فراہم کردہ اعلیٰ کاروں سے بھی بہتر کاریں موجود ہوں اور وہ ان میں سفر کرتے پائے جائیں تو کسی ایرے غیرے کو اس پر بھی اعتراض کا کوئی استحقاق نہیں ہو گا۔ اسی طرح تمام سرکاری افسروں کی سکیورٹی کے انتظامات واپس لینے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ اب وزیر داخلہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی یہ طے کرے گی کہ کس عہدیدار کو کسی خاص صورت حال میں سکیورٹی فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے بھی ’نجی سکیورٹی‘ رکھنے کے متحمل ہونے والے عہدیداروں سے باز پرس کے معاملے میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ باتیں احتیاطاً ریکارڈ درست رکھنے کے لئے درج کردی گئی ہیں تاکہ کل کلاں کوئی وزیر یا عہدیدار کروڑوں روپے کی گاڑی میں مزید کاروں کے سکیورٹی قافلے کے ساتھ نقل و حرکت کرتا پایا جائے تو اسے خالصتاً نجی انتظام سمجھا جائے۔ وزیر اعظم کی ہدایت اور کابینہ کے فیصلہ کے مطابق اب حکومت ایسی عیاشی فراہم نہیں کرے گی۔

البتہ وزیر اعظم کے اس اعلان سے ماتھا ضرور ٹھنکتا ہے کہ وزیروں، مشیروں اور افسروں سے ’ضبط‘ کی جانے والی لگژری گاڑیوں کو نیلام کر کے یہ دولت سرکاری خزانے میں جمع کروائی جائے گی۔ اس پریشانی کی وجہ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ ایسے اعلانات یہ قوم پہلے بھی کئی بار سن چکی ہے۔ ایک زمانے میں تو تمام سرکاری افسروں کو سوزوکی کار استعمال کرنے کا حکم ہوا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اعلیٰ نسل کی کار بھی میسر رہی اور بچوں کے لئے ڈرائیونگ میں ہاتھ صاف کرنے کے لئے ایک نئی سوزوکی کار بھی مل گئی۔ اس قوم کو آج تک علم نہیں ہوسکا کہ اس وقت لگژری کاریں بیچ کر کتنا سرمایہ جمع کیا گیا تھا اور سوزوکی کاریں خریدنے میں کتنے سرکاری وسائل صرف ہوئے تھے۔

زیادہ دور نہ بھی جائیں تو ابھی ہمارے ہر دلعزیز عمران خان نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالتے ہی، وزیر اعظم ہاؤس میں نواز شریف کی جمع کی ہوئی بھینسیں فروخت کرنے کا حکم دیا تھا۔ عمران خان کا خیال تھا کہ غریب ملک کے وزیر اعظم کو ایسی ’عیاشی‘ زیب نہیں دیتی۔ گاڑیاں بھی فروخت کی گئیں۔ پھر مجبوراً باقی ماندہ ساڑھے تین سال، اس وزیر اعظم کو بنی گالہ جانے آنے جانے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ فواد چوہدری نے اس ہیلی رائیڈ پر ہونے والے مصارف کی جو تفصیل پیش کی تھی تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ بھینسوں کے نیلام سے وصول ہونے والا سرمایہ عمران خان کے ہیلی کاپٹر اخراجات کے لئے کافی رہا ہو گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

بچت و کفایت کے محولہ بالا پہلوؤں سے قطع نظر وزیر اعظم کی بچت اسکیم کے دو تین پہلو قابل غور بلکہ باعث عبرت ہیں۔ ایک تو شہباز شریف نے بتایا ہے کہ سرکاری عہدیداروں کی سہولتوں میں کمی کے جو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، ان سے قومی خزانے کو 200 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ اب جس سرکاری مشینری کے لیڈروں کی محض سہولتیں کم کرنے سے 200 ارب روپے کی خطیر رقم بچائی جائے گی تو سوچنا چاہیے کہ اس ناقص اور نا اہل مشینری کو چلانے پر عوام کے پیسے سے کتنے مصارف کیے جاتے ہیں۔ سرکاری خزانے سے بھاری بھر کم تنخواہیں اور پر تعیش مراعات لینے والے ان عہدیداروں نے ملک کو اس کے بدلے میں کیا دیا ہے۔ اگر محض بالائی کم کرنے سے دو سو ارب روپے بچائے جائیں گے تو دودھ کی مقدار کم کرنے سے کتنا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

شہباز شریف اس وقت 85 ارکان پر مشتمل کابینہ کے سربراہ ہیں۔ اسی حساب سے ان کے لئے خدمات انجام دینے والے عملہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دفتری اخراجات اور دیگر ضروری مصارف اس کے علاوہ ہیں۔ ہر سرمایہ دار روپیہ خرچ کرتے ہوئے اندازہ کرتا ہے کہ اس سے اسے کیا فائدہ ہو گا۔ مملکت پاکستان کے ان خادمین کو بھی بتانا چاہیے کہ قومی خزانے پر دہائیوں سے بار بننے والے اس سرکاری ڈھانچے نے ملک کو کیا فائدہ پہنچایا ہے۔ پاکستانی عوام ان لوگوں کے فنانسر ہیں۔ انہیں یہ جاننے کا حق حاصل ہے۔ شاید وزیر اعظم غریبوں کے لئے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے، اپنے بیان کے اس اہم پہلو کو نظر انداز کر گئے لیکن اس پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ایسے لیڈروں یا عہدیداروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو صرف سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں اور اس میں اضافہ کا سبب بننے سے قاصر رہے ہیں۔

اسی حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کفایت اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کو اب ایک سے زیادہ پلاٹ نہیں دیا جائے گا۔ اخباری خبروں اور یوٹیوبرز کے دعوؤں کو خاطر میں نہ بھی لایا جائے تو اب ملک کا وزیر اعظم خود کہہ رہا ہے کہ سرکاری ملازمین کو ایک سے زیادہ پلاٹ دیے جاتے رہے ہیں۔ ایک تو یہی سوال ہے کہ کیا جن اہلکاروں نے ایک سے زیادہ پلاٹ وصول کیے ہیں، ان سے اضافی پلاٹ واپس لئے جائیں گے؟ اس کے علاوہ اس سوال کا جواب بھی سامنے آنا چاہیے کہ کس قانونی معاہدے کے تحت سرکاری اہلکاروں یا افسروں کو پلاٹ دیے جاتے ہیں۔ کیا سرکاری ملازمت دیتے ہوئے حکومت پاکستان ایسا کوئی معاہدہ کرتی ہے کہ متعلقہ شخص کو دوران ملازمت یا ریٹائرمنٹ پر پلاٹ ملے گا؟ اگر ایسا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے تو یہ طریقہ کیوں شروع کیا گیا اور بچت کے وعدوں کے باوجود اسے کس خوشی میں جاری رکھنے کا اعلان کیا جا رہا ہے؟ پاکستان کی تمام سرکاری زمین کسی حکومت یا عہدیدار کی ذاتی ملکیت نہیں ہے کہ وہ اس کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کر لے۔ یہ اس ملک میں آباد 22 کروڑ عوام کی ملکیت ہے اور ان کی اجازت کے بغیر اسے تقسیم کرنے اور کسی فرد کی ذاتی ملکیت میں دینے کا اختیار کسی حکومت کو حاصل نہیں ہو سکتا۔

بچت اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنی مخصوص انکساری سے اعلیٰ عدلیہ سے بھی در خواست کی ہے کہ وہ بھی حکومتی اقدامات کے مطابق اپنی سہولتیں کم کرنے پر غور کریں۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ عدالت کے جج یا چیف جسٹس کیوں کر اپنی مراعات کا خود فیصلہ کرنے کے مجاز ہوسکتے ہیں۔ یہ سہولتیں ملکی پارلیمنٹ حکومتی تجاویز کی صورت میں منظور کرتی ہے۔ حکومت جو وسائل بروئے کار لاتی ہے، وہ عوام کا پیسہ ہے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ ججوں کو حاصل بعض مراعات کم ہونی چاہئیں تو اسے چیف جسٹس کی منت سماجت کیے بغیر اس کا حق ہونا چاہیے۔ کیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے صرف سرکاری افسروں اور وزیروں کی مراعات کم کرنے کا ذکر کیا اور فوجی افسروں یا ججوں کو اس سے استثنا دیا گیا ہے؟

دیکھا جائے تو استثنا دینے کی حکمت عملی ہی سرکاری قواعد و ضوابط میں چور دروازے کھولتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تنخواہوں و مراعات کے حوالے سے سول بیوروکریٹ، فوجی افسروں یا ججوں میں تخصیص کرنے کی بجائے ان کے لئے مشترکہ قواعد و ضوابط بنائے جائیں اور ان پر عمل درآمد کے لئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے اختیارات کی حامل کسی محتسب نما اتھارٹی کو نگرانی پر مامور کیا جائے۔ بصورت دیگر بچت اعلانات تو ہوتے رہیں گے لیکن اصلاحات نہیں ہو سکیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments