معاشرے کا موجودہ صورتحال اور ہمارے ترجیحات


ایک دائرے کے اندر مستقل رہنے والے یہ مختلف لوگ جو کہ پچھلے پچھتر سال سے ایک ایسی مملکت کے نام پر خود کو ایک جھنڈے کے سائے تلے یکجا کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف عمل ہے۔ جو کہ بیچارے آج کل ایسی حالت میں جی رہے ہیں کہ نہ ملک میں رہنے کے لئے ان کے پاس کچھ بچا ہے اور نہ ہی اسی دائرے سے نکلنے کا کوئی ذریعہ ہے۔ بیچارے لوگ بری طرح پھنس چکے ہیں۔ نہ خدا ان کا ساتھ دیتا ہے اور نہ کوئی اور قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو جاتی ہے۔

معیشت تقریباً ڈوب چکی ہے۔ ہر شخص ذاتی طور پر ڈیفالٹ ہو چکا ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ ڈالر کی قدر روزبروز بڑھتی جا رہی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، سٹریٹ کرائم میں بتدریج اضافہ ہوا ہے، جسم فروشی کا دھندہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ اور ہر طرف عوام میں اداسی و مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ حکومت کا کوئی مستقبل کا لائحہ عمل نہیں ہے، ہر کوئی اپنی ذمہ داری کو فوری کرنے کی بجائے دوسرے پر کیچڑ اچھال رہا ہے۔

سڑکیں شام سے پہلے خالی ہو جاتی ہیں، غریب عوام کی حالت روز بروز بدتر ہو رہی ہے۔ لیکن ان سب بد حالی کے باوجود ہمارے معاشرے کے ترجیحات عورت کے لباس سے شروع ہو کر توہین اور گستاخ یا فلاں زندہ باد مردہ باد کے نعروں پر ختم ہو جاتی ہے۔ آج بھی ہمارے مطابق عورتوں کے جینز پہننے سے زلزلے آتے ہیں۔ اور دوسرا جو ہماری طرح نہ سوچے وہ کافر اور واجب القتل ہے۔ نجی یونیورسٹی کے پرچے سے لے کر ٹم ہارٹنز ہمارے ہاں ٹاپ ٹرینڈز میں آ جاتے ہے۔

ایک طرف مہنگائی آسمان پر اور دوسری طرف دہشت گردی اور ریاستی مظالم عروج پر ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے اخبارات کے فرنٹ پیچ پر فلاں اداکارہ نے ڈی پی تبدیل کر دی کی خبر دیکھنے کو ملے گی۔ یا مشہور ٹک ٹاک کپل نے بریک اپ کر لی کی خبر ہمارے اخبارات کے شے سرخیوں میں ملے گی۔ ہمارے معاشرے کے سوچنے کا معیار گر چکا ہے۔ ہم نے اپنے لئے وہ چیزیں خوشی اور انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ قرار دیا ہے جس پر اگر ایک لمحے کے لیے بھی سوچا جائے تو بالکل ہی بے معنی ہے۔

اس معاشرے میں آج کل جن لوگوں کو ہم اہمیت دے رہے ہیں یا جن کو ہم اپنے آئیڈیل مانے کے قریب ہے وہ دراصل خود اس بیمار معاشرے کے وہ کردار ہے جو کہ ایڈوانسمنٹ کے نام پر نئے جنریشن کی ذہنیت کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ ہم اکیسویں صدی میں رہنے والے کبھی بھی ایڈوانسمنٹ کے مخالف نہیں لیکن ایڈوانسمنٹ سوچ و فکر اور خیالات میں ہونی چاہیے نہ کہ دوسروں کی بنی بنائی پلیٹ فارم کا غلط استعمال کر کے خود کو اعلیٰ سمجھ کے اس تبدیلی پر یقین رکھیں جو کہ مذکورہ کردار کی تبدیلی، انفرادیت سے شروع ہو کر انفرادیت پر ختم ہو جاتی ہے۔

دنیا میں آگے جانے کے ریس میں دنیا کے ساتھ ساتھ دوڑ کر مقابلہ کرنا ہے نہ کہ اکیلے بھاگ کر پہلی پوزیشن حاصل کر لینا ہے۔ ہمارے معاشرے کے ترجیحات میں ابھی بھی وہ تمام فضول عناصر شامل ہو چکے ہیں جس کا ایک عام آدمی کے لئے ذرہ برابر اہمیت نہیں۔ نہ ہی یہ ترجیحات ایک مہذب، پرامن اور خوشحال معاشرے کے قیام میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments