دین کے ٹھیکیدار


وہ ایک مشہور ناچنے والی تھی جس کا رقص دیکھنے کے لئے رات کے اندھیرے میں دور، دور سے شرفاء آتے اور اپنی بھری جیبیں اس کے تھرکتے قدموں میں خالی کر جاتے، وہ کسی کوٹھے کی باسی نہ تھی بلکہ شہر کے ایک پوش علاقے میں بنے خوبصورت گھر میں رہتی تھی۔ جہاں اس کے عاشق بے شمار تھے جو اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار رہتے وہاں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اس ناچنے والی کو سخت ناپسند کرتے کیونکہ وہ شریفوں کے محلہ میں ایک بدنما دھبہ تھی اسے ناپسند کرنے والے شرفاء میں حاجی عطا مصالحہ والے بھی شامل تھے جن کی ہول سیل مارکیٹ میں اجناس کی بہت بڑی دکان تھی۔

حاجی صاحب کی بھرپور کوشش تھی کسی طرح اس ناچنے والی کو اپنے محلہ سے نکال دیں مگر وہ جانتے تھے محلہ کی فلاح کے لئے بنائی گئی کمیٹی کا سربراہ بھی اس ناچنے والی کے مداح تھا یہاں تک کہ وہ علاقہ کے تھانے میں بھی بھتہ دیتی تھی جس کی بدولت تھانہ دار اس کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے پر تیار نہ تھا یہ ہی وجہ تھی جو حاجی صاحب اب تک اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔ ماہ شعبان شروع ہو چکا تھا جس کی وجہ سے حاجی صاحب کا دھیان اس ناچنے والی سے ہٹ گیا کیونکہ ان دنوں وہ استقبال رمضان کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ وہ چاہتے تھے رمضان المبارک سے قبل اتنی ذخیرہ اندوزی کر لیں کہ رمضان میں دگنا، تگنا منافع کما سکیں تاکہ رمضان کے آخری ایام میں وہ اپنی فیملی سمیت عمرہ کی ادائیگی کے لئے جا سکیں اس سال ان کا ارادہ حرم میں اعتکاف کرنے کا تھا۔

رمضان شروع ہونے میں ابھی دو دن باقی تھے جب حاجی صاحب نے نئی پرائس لسٹ دکان میں آویزاں کر دی جس کے مطابق ہر شے کی قیمت میں دس فیصد اضافہ کر دیا گیا تھا جو حاجی صاحب کے نزدیک بہت معمولی تھا وہ اس بات سے بے نیاز تھے کہ یہ دس فیصد اضافہ، گاہک تک جاتے ہوئے کتنا بڑھ جائے گا۔ خریدار پر پڑنے والے اضافی بوجھ سے قطعی بے نیاز حاجی صاحب جب عصر کی نماز پڑھ کر دکان میں داخل ہوئے تو ان کی پہلی نگاہ کاؤنٹر پر کھڑی اس ناچنے والی پر پڑی جسے دیکھتے ہی ان کی طبیعت مکدر ہو گئی اور وہ بمشکل اس کے قریب سے گزر کر اپنے کاؤنٹر پر جا پہنچے جب دکان کا ایک ملازم ان کے پاس حساب کتاب کے لئے تگڑی رقم ہاتھ میں لئے ان کھڑا ہوا۔

ملازم سے ہزاروں کا بل وصول کرتے ہوئے عالم سرشاری میں ڈوبے حاجی صاحب نے ایک ترچھی نگاہ اس ناچنے والی پر ڈالی جس کے قدموں میں رمضان پیکج کے راشن کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور ملازم لڑکے یہ راشن کے تھیلے اٹھا کر باہر کھڑی بڑی سی گاڑی میں رکھ رہے تھے۔ محلہ دار ہونے کے ناتے حاجی صاحب جانتے تھے یہ گاڑی اس ناچنے والی کے کسی عاشق کی ہے جسے دیکھتے ہوئے وہ نفرت بھرے انداز میں بڑبڑائے

خدا کی شان ہے اب یہ کنجریاں بھی راشن بانٹیں گی ”

یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنے ہاتھ میں تھمی پانچ ہزار کے نوٹوں کی گڈی کو تکتے ہوئے دراز کھولی اور قابل نفرت انداز میں وہ گڈی اس طرح دراز میں پٹخی جیسے وہ اس ناچنے والی کے منہ پر ماری ہو

نفیسہ سعید
Latest posts by نفیسہ سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments