کیا چینی قرض ہی پاکستان کے معاشی بحران کی اصل وجہ ہے؟


پاکستان
وفاقی وزیر خزانہ نے چین کی جانب سے 70 کروڑ ڈالر قرض وصول ہونے کا اعلان کیا تو غالبا ان کی خوشی کی وجہ پاکستان کے کم ہوتے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ تھا لیکن چین اور چینی بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضے اب پاکستان کے ذمے واجب الادا مجموعہ قرض کا ایک تہائی ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے ذمے واجب الادہ قرضوں میں گزشتہ سات سے آٹھ برسوں میں چین اور چینی کمرشل بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔

ایسے میں پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی کو قرار دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کو موجودہ مالی سال اور اگلے دو مالی برسوں میں بیرونی قرضوں کی مد میں بڑی ادائیگیاں کرنی ہیں۔

موجودہ مالی سال کے باقی مہینوں میں پاکستان کو آٹھ ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے تو اس سے زیادہ بڑا مسئلہ اگلے دو مالی سالوں میں پاکستان کے ذمے واجب الادہ 50 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے جو ان دو سالوں میں پاکستان کو واپس کرنا ہے جن میں چین اور چینی کمرشل بینکوں کو واپس کیا جانے والا قرض بھی شامل ہے۔

پاکستانی معیشت کے ماہرین کے مطابق چین کی جانب سے قرضے کی واپسی میں سہولت یقینی طور پر پاکستان کے اقتصادی محاذ کو لاحق خطرات کو کم کر سکتی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضوں کی ری شیڈولنگ بھی بہت ضروری ہے۔

https://twitter.com/MIshaqDar50/status/1629149285529919495

موجودہ صدی کے پہلے عشرے میں پیرس کلب کے رکن ممالک کی جانب سے فراہم کیا جانے والے قرضے کا تناسب پاکستان کے ذمے واجب الادہ قرضے میں بڑا تھا تاہم گزشتہ سات سے آٹھ برسوں میں چین کی جانب سے دیا گیا قرضہ سب سے زیادہ ہے تو اس کے ساتھ چینی بینکوں کی جانب سے دیا گیا قرضہ بھی بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

ماہرین معیشت کے مطابق چینی قرضے کے بڑھنے کی وجہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں انرجی اور انفراسٹرکچر منصوبوں میں قرضے کی شکل میں چینی سرمایہ کاری ہے تو اس کے ساتھ پاکستان نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے اور زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے کے لیے بھی چینی کمرشل بینکوں سے قرضہ حاصل کیا ہے۔

اس کی تازہ ترین مثال چائنہ ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے منظور کیا جانے والا 70 کروڑ ڈالر کا قرضہ ہے جو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے میں مدد دے گا۔

لیکن کیا یہی قرض پاکستان کی معاشی مشکلات کی اصل وجہ ہے؟

بی بی سی نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ماہرین سے بات چیت کی تاہم پاکستان کی وزارت خزانہ کے حکام سے بارہا رابطہ کرنے کے باوجود حکومت نے کوئی موقف نہیں دیا۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا اور ترجمان وزارت خزانہ نے اس سلسلے میں کالز اور میسجز کا کوئی جواب نہیں دیا۔

پاکستان کے مجموعی قرضے میں چینی قرضہ کتنا ہے؟

اورنج لائن میٹرو ٹرین

لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین بھی سی پیک کا حصہ ہے

پاکسان کے ذمے مجموعی بیرونی قرضے کا حجم اس وقت 97 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جس میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں، مختلف ملکوں سے حاصل کیا جانے والا، بیرون کمرشل بینکوں سے حاصل کیا جانے والا اور بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ سے حاصل کیا جانے والا قرضہ شامل ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اس قرضے میں پیرس کلب، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے علاوہ غیر ملکی کمرشل بینکوں سے حاصل کیا جانے والا قرضہ شامل ہے۔

پاکستان کے گزشتہ سات سالوں میں قرضہ لینے کے رجحان کا جائزہ لیا جائے تو 2015 میں بیرونی قرضہ جو جی ڈی پی کا 24 فیصد تھا وہ 2022 میں جی ڈی پی کا 40 فیصد ہو گیا۔

پاکستان کے ذمے مجموعی قرضے میں جہاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں، دوسرے ممالک اور کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضے شامل ہیں تاہم حکومت پاکستان اور مرکزی بینک کی رپورٹس میں ’پیرس کلب‘ اور ’نان پرس کلب‘ ممالک سے لیے گئے قرضے ظاہر کیے جاتے ہیں اور ملکوں کا انفرادی طور پر نام نہیں دیا جاتا۔

تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے جب پاکستان کے ذمے قرض کی تفصیلات گزشتہ جائزہ مشن کے بعد پیش ہونے والی رپورٹ میں شائع ہوئیں تو ان تفصیلات کے مطابق چینی قرضہ اس وقت پاکستان کے ذمے مجموعی قرضے کا تقریباً 30 فیصد ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق چینی حکومت کی جانب سے فراہم کیا جانے والا قرضہ 23 ارب ڈالر ہے جب کہ چینی کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کیا جانے والا قرضہ تقریباً سات ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے۔

اس طرح مجموعی قرضہ تقریباً 30 ارب ڈالر بنتا ہے جب کہ پاکستان کے ذمے مجموعی قرضے کا حجم اس وقت تقریباً ساڑھے 97 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

ماہر معیشت عمار حبیب خان نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چینی حکومت کی جانب سے جہاں قرضہ فراہم کیا گیا ہے تو چینی کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کیے گئے قرضے کو بھی چین کی جانب سے فراہم کیا جانے والا قرضہ ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ چینی کمرشل بینک حکومتی نگرانی میں چلتے ہیں جیسے کہ پاکستان میں نیشنل بینک حکومت کے ماتحت چلنے والا بینک ہے۔

پاکستان کے مجموعی قرضے میں چینی قرضوں کا حصہ کیوں بڑھا؟

پاکستان

پاکستان کے ذمے مجموعی بیرونی قرضے میں چین اور اس کے کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضوں کا حصہ 30 فیصد کے قریب ہے۔ گزشتہ مالی سال کے قرضوں کی ادائیگی کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ قرضے کی واپسی چین اور چینی کمرشل بینکوں کو کی گئی۔

اقتصادی امور ڈویژن کی ویب سائٹ پر موجود قرضے کی واپسی کے اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلی سہ ماہی میں چین کو واپس کیے جانے والے سود سمیت قرضے کا حجم 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ تھا جب کہ اس کے مقابلے میں سعودی عرب، جاپان، کویت اور فرانس کو واپس کیے جانے والے قرضے مالیت کے لحاظ سے بہت کم تھے۔

اسی طرح غیر ملکی کمرشل بینکوں کو واپس کیے جانے والے قرضے کا حجم بھی زیادہ ہے جس میں زیادہ تر چینی کمرشل بینک شامل ہیں۔

گزشتہ سات آٹھ برسوں میں پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے میں چینی قرضوں کے اضافے کے بارے میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چین کی جانب سے دیے جانے والے قرضے تین قسم کے ہیں۔ ’ایک تو وہ چینی قرضہ ہے جو سی پیک کے منصوبوں کے لیے دیا گیا۔ دوسرا قرضہ چینی کمرشل بینکوں کی جانب سے دیا گیا اور تیسرا چین کی جانب سے پاکستان کے سٹیٹ بینک میں رکھے گئے ڈیپازٹس ہیں۔‘

جے ایس ریسرچ میں معاشی امور کی ماہر امرین سورانی کے مطابق ’پاکستان کے لون ایکسپوژر میں چینی قرضوں کے بڑھنے کی وجہ سی پیک میں پراجیکٹس کے لیے دیے گئے قرضے ہیں تو اس کے ساتھ چین کی جانب سے پاکستان کو دیے جانے والے ڈیپازٹ نے بھی اس میں حصہ ڈالا جب پاکستان نے مالی مشکلات کی وجہ سے چین کی جانب دیکھا جس کی وجہ سے پاکستان کے مجموعی قرضوں میں چینی قرضوں کا حصہ 25 سے 30 فیصد تک ہو گیا۔‘

اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا کے مطابق اگرچہ سی پیک کے مختلف منصوبوں میں چین اور اس کے کمرشل بینکوں کی جانب سے پاکستان کو قرضہ دیا گیا تھا تاہم اس وقت جو قرضے پاکستان کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں وہ چین اور اس کے کمرشل بینکوں کی جانب سے ایکسٹرنل فنانسگ، کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کم کرنے اور زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے کے لیے دیے گئے تھے۔

ان کے مطابق سی پیک میں جو قرضے توانائی کے شعبے میں دیے گئے وہ انڈیپینڈنٹ پاور پرڈیوسرز (آئی پی پیز) کو دیے گئے اور وہ پاکستان کے مجموعی قرضوں میں ظاہر نہیں کیے گئے تاہم انفراسٹرکچر منصوبے جیسے سکھر ملتان موٹر وے، تھا کوٹ موٹر وے اور کچھ دوسرے انفراسٹرکچر منصوبوں میں جو قرضے دیے گئے ہیں وہ ظاہر کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا چین غریب ممالک کو ’قرض کے جال‘ میں پھنسا رہا ہے؟

کیا چینی قرضوں کی واپسی میں سہولت پاکستان کے لیے ’لائف لائن‘ بن گئی ہے؟

پاکستان چین کے زیرِ اثر ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر: مگر اس کا مطلب کیا ہے؟

کیا چین کا قرض پاکستان کی معاشی مشکلات کی اصل وجہ ہے؟

چینی قرضے کی واپسی میں مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے شہباز رانا نے کہا کہ اس وقت جب چینی قرضے کی واپسی کی بات ہو رہی ہے اور جو مسئلہ درپیش ہے وہ بنیادی طور پر وہ قرضہ ہے جو پاکستان نے بیرونی فنانسنگ کی ضرورت کے لیے لیا تھا اور یہ کمرشل بینکوں سے لیا گیا۔

ان کے مطابق اس چینی قرضے کی واپیس کی مدت ڈیڑھ سے دو سال کے عرصہ ہوتی ہے اور قرض واپسی کی میچورٹی بہت جلد آ جاتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان جیسے زرمبادلہ ذخائر کی قلت کے شکار ملک کو مسائل درپیش ہوتے ہیں۔

رانا نے کہا کہ پیرس کلب کے تحت ملنے والے قرضوں کی مدت ادائیگی زیادہ ہوتی ہے جو 15-20 سال سے لے کر 25-30 برس تک بھی چلی جاتی ہے تاہم چینی کمرشل بینکوں کے قرضوں کی مدت واپسی کم ہوتی ہے۔

تاہم عمار حبیب نے اس سلسلے میں بتایا کہ چینی قرضے کی ادائیگی میں کوئی اتنی خاص مشکل نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ قرضے رول اوور ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ قرضہ ایک دو سال کے لیے ہوتا ہے اور دونوں فریقین اس بات کو جانتے ہیں کہ اس قرضے کو رول اوور کرنا پڑے گا اس لیے رول اوور ہو جاتا ہے۔

امرین سورانی نے اس سلسلے میں بتایا کہ پراجیکٹ کے لیے دیے جانے والے قرضے کی مدت لمبی ہوتی ہے اور ڈیپازٹ کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے جس کا اطلاق چینی ڈیپازٹ پر بھی ویسے ہی ہوتا ہے جیسے دوسرے ممالک کے ڈیپازٹ پر ہوتا ہے۔

ماہر مالیاتی امور اور سٹی بینک کے سابقہ بینکر یوسف نذر کے مطابق چینی قرضوں کا حصہ پاکستان کے مجموعی قرضوں میں بڑھا ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو اب سب سے زیادہ قرضہ چین کو ہی واپس کرنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت جو قرضہ ملا اس کی واپسی فارن کرنسی کی صورت میں کرنی ہے جب کہ ان منصوبوں سے کمائی پاکستانی روپے میں ہوتی ہے جس کا اثر یقینی طور پر بیرونی شعبے کی ادائیگیوں پر ہوتا ہے۔

یوسف نے کہا کہ اسی طرح اگر چینی کمرشل قرضے کے شرح سود کو دیکھا جائے تو وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے قرضے سے مہنگا ہوتا ہے اور اربوں ڈالر کے قرضے میں آدھ فیصد زیادہ بھی پاکستان جیسے ملک کے لیے بہت مہنگا ہوتا ہے۔

چین پاکستان کی اس اقتصادی بحران میں کیا مدد کر سکتا ہے؟

پاکستان میں چینی انجنئیر

سنہ 2016 میں گوادر میں ایک تجارتی پروجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر چینی انجنئیر پاکستانی فوجیوں کے ساتھ تصویر بنوا رہے ہیں

پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضوں میں چینی قرضوں کے گزشتہ سات آٹھ سالوں میں تناسب کے بڑھنے سے اب پاکستان کو دوسرے ممالک کے مقابلے میں چین کو زیادہ قرضہ واپس کرنا ہے۔

ماہرین معیشت کے مطابق ان قرضوں کی واپسی میں سہولت پاکستان کو بیرونی فنانسنگ کے شعبے میں مدد فراہم کر سکتی ہے جو پاکستان کے گرتے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مشکل بنتی جا رہی ہے۔

عمار حبیب کے مطابق ان قرضوں کو رول اوور کرنے میں سہولت یقینی طور پر پاکستان کے لیے ضروری ہے اور ان کے مطابق یہ رول اوور ہو بھی جاتے ہیں کیونکہ دونوں اطراف سمجھتے ہیں کہ جب ان کی واپسی کی مدت ختم ہو گی تو اسے رول اوور کرنا ہی پڑتا ہے اور یہ ہوتے رہتے ہیں۔

امرین سورانی نے اس سلسلے میں بتایا کہ چینی قرضوں کا رول اوور ہونا چاہیے ناکہ ری سٹرکچرنگ۔ انھوں نے کہا ری سٹرکچرنگ میں نئی شرائط طے ہوتی ہیں لیکن رول اوور میں یہ نہیں ہوتا۔

انھوں نے بتایا کہ اس کی ایک مثال چین کے بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے 70 کروڑ ڈالر کے تازہ ترین قرضے کی منظوری ہے۔

ان کے مطابق یہ ایک قسم کا رول اوور ہے کیونکہ پاکستان نے کچھ عرصہ پہلے ادائیگی کی تھی اور اب اسی قرضے کا رول اوور کر کے دوبارہ پاکستان کو دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر پاشا کے مطابق ’قرضے کی ری شیڈولنگ باہمی قرضوں پر ہوتی ہے، عالمی مالیاتی ادارے یہ ری شیڈولنگ نہیں کرتے۔‘

انھوں نے کہا پاکستان پیرس کلب سے ماضی میں قرضے ری شیڈول کرا چکا ہے اور اب دوبارہ وہاں سے ان کو ری شیڈول کرانا مناسب نہیں لگتا اور چین سے یہ سہولت پاکستان کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

یوسف نذر نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان کو قرضوں کی واپسی سب سے زیادہ چین کو ہی کرنی ہے تو یقینی طور پر چین اس سلسلے میں سب سے زیادہ مدد کر سکتا ہے تاہم قرضوں کی ری شیڈولنگ کے لیے چین اور عالمی مالیاتی اداروں کو اکٹھا بیٹھنا ہوگا لیکن ابھی تک چین کی جانب سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا۔

ان کے مطابق اگرچہ اس وقت چین کا قرضہ سب سے زیادہ ہے تاہم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر پاکستان کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کا کام ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا میں یہی ہوتا ہے کہ قرض دینے والے ممالک یا ادارے مل کر یہ کام کرتے ہیں جیسا کہ ماضی میں پیرس کلب کے اراکین نے مل کر ایسا کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments