جیل بھرو تحریک کی ناکامی پہ متبادل احتجاجی آپشن


تحریک انصاف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں اپنی حکومتوں کو ختم کرنے کے بعد ملک میں الیکشن کے لیے احتجاج کر رہی ہے۔ نگران حکومت اور الیکشن کمشن آف پاکستان جن کا کام صرف الیکشن کروانا ہے وہ الیکشن کی کوئی تاریخ نہیں دے رہے۔ اس پہ تحریک انصاف پاکستان جو بظاہر مقبولیت میں ہے وہ احتجاج کر رہے۔ عمران خان جب سے زخمی ہیں وہ اپنے روایتی احتجاج کی بجائے نئے طریقے سے احتجاج کر رہی ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ تحریک کی قیادت اور کارکنان رضاکارانہ گرفتاریاں دیں گے اور جیلیں بھر کر نظام پہ دباؤ ڈالیں گے۔

جیل بھرنے کا طریقہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں کانگریس کی طرف سے اپنایا گیا تھا لیکن تب عوام سے انگریزی قوانین نہ ماننے، حکومت سے تعاون نہ کرنے اور جان بوجھ کر قوانین توڑنے کی صورت میں جیلیں بھری جاتی تھیں۔ جبکہ موجودہ صورت حال میں رضاکارانہ طور پہ گرفتاری دینے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں جب کوئی جرم ہی نہیں کیا تو جیل میں ڈالنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے باوجود لیڈرز اور ورکرز کی جانب سے اس مہم میں کوئی کامیابی نظر نہیں آئی۔

تحریک انصاف کو اگر اپنے روایتی طریقے کو نہیں اپنا رہی تو اسے اسی طرح کچھ متبادل طریقوں کو جو تاریخ میں دیکھے گئے اپنانا چاہیے ممکن ہے ان میں کوئی کشش پیدا ہو جائے۔

تحریک انصاف پاکستان کی جانب سے حکومت پہ دباؤ ڈالنے کے لیے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا۔ ابھی تک اس تحریک میں کوئی خاص جان نظر نہیں آ رہی۔ اس کی ممکنہ وجہ قیادت کے دل میں شہباز گل اور اعظم سواتی کی جانب سے سرے عام تشدد کے واقعات سنانے پہ خوف ہے۔ تحریک انصاف اگر علامتی گرفتاریاں دینا چاہتی ہے تو وہ کچھ متبادل سوچے۔ 2001 میں جب نیٹو ممالک نے افغانستان پہ حملہ کیا تھا تو مسیحی رہنما جے سالک نے خود کو لوہے کے ایک پنجرے میں بند کر لیا تھا۔ یہ ایک احتجاج تھا جو امریکی جارحیت کے خلاف کیا گیا۔ جے سالک کی خواہش کی تھی کہ قید والا پنجرا اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر رکھا جائے۔ حکومت نے اس کی اجازت نہ دی اور وہ اپنے گھر میں کافی عرصہ تک قید رہے۔

تحریک انصاف کو ایسے ہی لوہے کے پنجروں کو بندوبست کرنا چاہیے اور الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے قائدین خود کو قید کر لیں۔ اس سے انہیں زیر حراست تشدد کا خوف بھی نہیں ہو گا اور بین الاقوامی سطح پہ آواز بھی اٹھے گی کہ حکومت الیکشن کروانے سے گریز کی پالیسی پہ گامزن ہے۔

دوسرا یہ کہ پہلی فرصت میں تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ بلدیاتی، صوبائی اور قومی اسمبلی کا انتخابی ٹکٹ فارم جاری کر دیں جس میں واضح طور پہ درج ہو کہ ٹکٹ اسی امیدوار کو دیا جائے گا جس نے جیل بھرو تحریک میں جیل کاٹی ہو۔ کیونکہ اس وقت ٹکٹ کے حصول کے لیے ایک ہی حلقے میں بہت سے لوگ قیادت کو تعاون کا یقین دلا رہے۔ ہر ٹکٹ کے امیدوار کے لیے لازم ہو وہ اپنے ساتھ کم از کم دس لوگوں کو جیل بھرو تحریک میں جیل میں ساتھ لے جائے۔ کیونکہ قیادت کے جیل بھرو اقدام کو اگر ٹکٹ ہولڈر معمولی لے گا تو ورکر کیسے اس میں حصہ لے سکتا؟ احسان فراموشی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ دس سال سے خیبر پختونخوا کی قیادت پارٹی حکومت سے لطف اندوز ہو رہی مگر جیل بھرو تحریک میں پیٹھ دیکھا کر بھاگ گئے۔

2012 میں بھارتی سماجی کارکن انا ہزارے نے بھارت میں کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے احتساب کے لیے لوک پال بل کی منظوری کے لیے احتجاج کرنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کے ساتھ ملک کر رام لیلا میدان میں اسٹیج سجایا اور بل کی منظوری تک بھوک ہڑتال کر کے بیٹھ گئے۔ یہ اتنا موثر انداز تھا کہ بھارت میں ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت ان سے مذاکرات اور بل کی منظوری پہ رضامند ہو گئی۔

انا ہزارے کے احتجاج، اور پاکستان تحریک انصاف کے مظاہرے میں کافی مماثلت ہے۔ دونوں ہی گروپ شہری، مڈل کلاس، اور پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہیں، جو انتخابی جمہوریت سے مایوس ہو چکے ہیں۔ ان کی شکایت یہ ہے کہ کرپٹ سیاسی لیڈر انہیں بیوقوف بنا کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں، اور اپنی کرپشن جاری رکھتے ہیں۔ ہزارے اور خان، دونوں ہی ان کے حامیوں کے نزدیک شفاف کردار کے مالک ہیں۔ ان دونوں لیڈروں نے کرپشن سے بیزار جنوبی ایشیا کے کروڑوں لوگوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔

اس لیے عمران خان کو الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے اپنے حامیوں کو لے کر بیٹھ جانا چاہیے اور بھوک ہڑتال کر دینی چاہیے۔ عمران خان بین الاقوامی شہرت کے حامل انسان ہیں ان کی بھوک ہڑتال بین الاقوامی سطح پہ حکومت کے لیے خاصا پریشانی کا سامان مہیا کر سکتی ہے۔

لیکن تحریک کی قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سیاست میں حکومت پہ دباؤ ڈالنے کے لیے سب سے وزنی چیز انسان کا کردار اور اس کا مقصد ہے۔ برطانوی حکومت کے زیر اہتمام بھگت سنگھ پہ چلنے والے لاہور سازش کیس میں جب بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو لاہور سنٹرل جیل میں قید کیا گیا تو انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ سزائے موت کے قیدی اگر بھوک ہڑتال کر بھی لیں تو اس سے حکومت کو کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ اور حکومت بھی وہ جس نے تیس کروڑ لوگوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہو۔

سید سبط حسن کی کتاب بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی مطالعہ کے لائق ہے کس طرح حکومتی مشینری کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے کہ کسی طرح سزائے موت کے قیدیوں کی بھوک ہڑتال ختم کی جائے۔ زبردستی دودھ اور گلوکوز پلانے کی کوشش کی جاتیں۔

حکومت سزائے موت کے قیدیوں سے اس لیے خوف زدہ تھی کہ وہ اپنی ذات سے بلند ہو کر سوچ رہے تھے ان کا مقصد ان کی زندگی سے بہت بلند تھا۔ اس لیے وہ موت سے نہیں بلکہ موت ان سے ڈر رہی تھی۔

حکومت جیل بھرو تحریک سے اس لیے خوفزدہ نہیں ہوئی کہ جیل بھرنے کا کوئی واضح مقصد موجود نہیں ہے۔ دوسرا جیل میں جانے کا خوف قیادت کے ہر لیول پہ موجود ہے اس لیے خوف کے سائے میں کسی کارکن میں یہ ہمت کیسے ہو سکتی ہے۔

حکومت نہیں نظام کے خلاف شدت سے تحریک چلانے کی ضرورت ہے لیکن تحریک کے مقاصد واضح متعین اور غیر مبہم ہونے چاہیے۔ جس کا مقصد حکومت کی تبدیلی کی بجائے سیاسی کلچر کی تبدیلی ہو۔ تحریک انصاف کی جدوجہد سے صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ پانی سے باہر پڑی مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہے۔ لیکن اقتدار سے اوپر اٹھ کر اقدار کی سیاست کو فروغ دیں جس میں عام آدمی کے بھلے کی کوئی تدبیر نکل سکے۔ کیونکہ ایسی باتیں جیسی قیادت اب کر رہی ہے خان صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے اور دوران اقتدار بھی کرتے رہے ہیں لیکن ان کا عمل اپنے قول کے یکسر مختلف تھا۔ اس لیے خالی باتوں کی بجائے خود سے کچھ تعمیری کام کرنا ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments