مسئلہ کشمیر سے دستبرداری کی صورت پاکستان کے لئے ممکنہ نقصانات اور خطرات


سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام سے پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور ایٹمی پروگرام کو بچا لیا ہے۔ آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان انتظامیہ نے اپنی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے بدلے پاکستان کو بچا لینے کا اقدام کیا ہے۔ پاکستان انتظامیہ کی طرف سے چاہے یہ کہا جائے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق بھارت کے 5 اگست 2019 کے اقدامات میں پاکستان کی طرف سے مفاہمت شامل نہ تھی لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ بھارت کے اس بڑے اقدام میں کسی ردعمل کا مظاہرہ نہ کرنا ہی پاکستان کی طرف سے بھارت کو سہولت کاری فراہم کیا جانا تھا۔

5اگست 2019 کے اقدام کے ساتھ ہی بھارت نے اپنی فورسز کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ظلم و جبر پر مبنی اقدامات میں غیر معمولی اضافہ کر دیا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے مطالبے کے ساتھ سیاسی جدوجہد کرنے والوں ہر دہشت گردی کے الزامات کی دفعات بھی عائد کر نے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آزادی پسندوں کی اکثریت کو بھارت کے مختلف حصوں میں واقع جیلوں میں منتقل کر دیا گیا۔ جیلوں میں قید آزادی پسندوں کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کی کارروائی بھی شروع کر دی گئی۔  ایک نئے نافذ کرد قانون کے ذریعے کشمیریوں کی گھروں، جائیدادوں کو تحریک آزادی میں استعمال کرنے کے الزامات کے ساتھ مستقل طور پر سرکاری تحویل میں لینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین کو تحریک آزادی کی معاونت کے الزامات میں ملازمتوں سے نکال دیا گیا۔

کشمیریوں کو دبانے، ان کو سزایاب کرنے کے لئے ان تمام کارروائیوں کے ساتھ ہی مقبوضہ جموں وکشمیر میں ڈیمو گرافک تبدیلی کے منصوبے پر عملدرآمد کی کارروائیاں بھی تیز کر دی گئیں۔

بھارت کے سرمایہ کاروں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کارخانے و دیگر کاروبار شروع کرنے کے نام پہ لینڈ بنک قائم کرتے ہوئے ہزاروں ایکڑ آراضی کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقامات پہ مقامی افراد کو لیز پہ ہوٹل، گیٹ ہاؤسز وغیرہ دینے کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے ان کی منسوخی بھی شروع کر دی گئی۔ گزشتہ چند ہفتوں سے بڑی تعداد میں گھروں، تجارتی عمارات کو سرکاری زمینوں پر تعمیر شدہ قرار دیتے ہوئے انہیں بلڈوزروں کی مدد سے مسمار کرنے کی ایک مہم بھی تیزی سے جاری ہے۔

ان تمام اقدامات سے بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزادی کی سیاسی مزاحمت کو ختم کر کے رکھ دیا ہے اور مسلح مزاحمت بھی محض علامتی طور پر ہی جاری ہے۔ مسلح مزاحمت کا بھی عالم یہ ہے کہ خود مقبوضہ کشمیر کے بھارت نواز رہنماؤں کے مطابق بھارتی فورسز کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے بعد جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے بعد اعلان کرتی ہیں کہ انہیں مقابلے میں ہلاک کیا گیا ہے۔ دو عشرے پہلے ہی خود بھارت میں ایسی رپورٹس شائع ہوئیں کہ جن میں بتایا گیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر بھارتی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لئے غیر معمولی مفادات کے حصول کا ایک ذریعہ بنا ہوا ہے اور اس کے لئے بھارتی فوج اور ایجنسیاں دہشت گری کی موجودگی ظاہر کرنے کے اقدامات میں بھی خود ہی ملوث ہیں تاکہ بھارتی فوج اور ایجنسیوں کے لئے غیر معمولی مفادات کے حصول کا سلسلہ بدستور جاری رہے۔

اسی صورتحال کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی نمایاں ہوا جس میں غیر مقامی افراد اور پنڈت سرکاری ملازمین کو نشانہ بنانے کی متعدد کارروائیاں ہوئیں۔ مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں حالت جنگ کی طرح متعین فوج، دیگر فورسز اور تقریباً پچیس انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بدولت یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ وہاں کسی بھی قسم کی عسکری کارروائیاں ہو سکیں، یوں ان تمام واقعات میں خود بھارتی فورسز اور ایجنسیوں کا کردار ہونے کے اشارے ملتے ہیں تاکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں کشمیریوں کے خلاف دست ستم کی غیر معمولی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے پاکستان کی عملی لاتعلقی تو صاف ظاہر ہے تاہم سرکاری سطح پہ کشمیر سے متعلق بیانات کا سلسلہ ختم نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کی سفارتی سرگرمیاں، جو پہلے ہی ناکافی تھیں، مزید کمزور اور پسپائی کی صورتحال ظاہر کر رہی ہیں۔ کشمیر کاز سے پسپائی اور لاتعلقی کا پاکستان انتظامیہ کا رجحان اب عوام کو بھی واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے۔

پاکستان میں سرکاری اور سیاسی سطح پہ دیے جانے والے بیانات میں عالمی برادری سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مسئلہ کشمیر کا سختی سے نوٹس لئے جانے کی بات بار بار دہرائی جاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری، عالمی ادارے مسئلہ کشمیر کا نوٹس اسی وقت لے سکتے ہیں کہ جب خود پاکستان اس معاملے پہ سختی سے سٹینڈ لے

پاکستان کے اعلی حلقوں سے اس طرح کی باتیں بھی سننے میں آتی ہیں کہ پاکستان کو اپنی صورتحال کے تناظر میں مسئلہ کشمیر سے قطع نظر بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس تمام صورتحال میں اس بات کا جائزہ لینا بہت اہم ہے کہ پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور کشمیر کاز میں پسپائی، کمزوری کے کھلے مظاہرے اور دستبرداری سے مملکت پاکستان کو کن نقصانات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

بھارت کی ’بی جے پی‘ حکومت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضے کے اعلانات کو بھارت کے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے ایک نعرے کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور بھارتی فوجی عہدیدار اس معاملے میں خود کو تیار قرار دیتے ہوئے اس بارے میں حکومت کی طرف سے ہدایت دیے جانے کے بیانات دے رہے ہیں۔ انہی دنوں سوشل میڈیا پہ ایسے وڈیو کلپ وائرل ہوئے ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہو کر سفید جھنڈے نصب کر دیے تاہم آزاد کشمیر کے نہتے مقامی باشندوں کی طرف سے انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

مقبوضہ کشمیر، مسئلہ کشمیر سے دستبرداری کی صورت پاکستان کو کیا کیا ممکنہ نقصانات اور خطرات درپیش ہو سکتے ہیں، اس بات کا احاطہ کرنا پاکستان کے پالیسی سازوں، تھنک ٹینکس کی سوچ، عنوانات میں کہیں نظر نہیں آتا۔ سندھ طاس معاہدے میں بھی پاکستان کے ارباب اختیار کی یہ حکمت عملی مہلک ثابت ہوئی کہ جب ان کی طرف سے مسئلہ کشمیر اور ریاست جموں وکشمیر کے قدرتی وسائل کو الگ الگ تصور کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ معاہدہ طے کیا گیا۔

مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر بھارت کے ساتھ کشمیر کے آبی وسائل کی تقسیم کا مستقل نوعیت کا معاہدہ کرنے سے ہی پاکستان کی طرف سے بالواسطہ طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے تسلط کو تسلیم کر لیا گیا۔ اب سندھ طاس معاہدے ہونے کے ساٹھ سال بعد یہ معاہدہ بھی بھارتی رویے کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہے۔ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر کے آبی وسائل کو بھارت کی ترقی کی لئے بھرپور طور پر استعمال کرنے کے لئے، معاہدے کے مطابق پاکستان کے حق کو نظر انداز کرتے ہوئے، سندھ طاس معاہدے میں ایسی ترامیم کرانا چاہتا ہے کہ جس سے بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے دریاؤں پہ پاکستان کے حق کو غصب کرنے کا موقع مل جائے۔ یہاں یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ کشمیر کاز اور مسئلہ کشمیر سے دستبرداری کی صورت مقبوضہ جموں وکشمیر کے آبی وسائل پہ پاکستان کے حق کا مقدمہ بہت کمزور ہو جاتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بند کمرے کے ایک اعلی سطح اجلاس میں دی گئی ایک بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ ہم نے ایسے کئی امکانات ختم کر دیے ہیں جن سے بھارت کے ساتھ جنگ کی نوبت آ سکتی تھی تاہم اب بھی ایک موضوع ایسا ہے جس سے بھارت کے ساتھ جنگ کی نوبت آ سکتی ہے اور وہ پانی کا معاملہ ہے۔ تاہم اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پانی کے مسئلے پہ بھی بھارت کے ساتھ جنگ کرنے کا خطرہ مول لینے سے دستبرداری اختیار کرنے کی راہ پہ گامزن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments