مریم نواز کی نئی یلغار


پاکستان میں سیاسی تحریکیں بہت چلیں۔ ان تحریکوں کے دوران میں گرفتاریاں بھی بہت ہوئیں لیکن جیل بھرنے کی تحریکیں جن کی وجہ سے پورا سیاسی منظرنامہ ہی بدل گیا، دو ہیں، یعنی پی این اے اور ایم آر ڈی کی تحریکیں۔ یہ تحریکیں کیسے چلائی گئیں، انھیں چلانے والے سیاسی حکمت کاروں کے ہاتھ میں وہ کیا ہنر تھا جس کی وجہ سے یہ تحریکیں مہینوں طویل ہو گئیں لیکن اس کے باوجود ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے دباؤ اور تحریک میں شامل عوام کے جوش و خروش میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔

جی تو یہی چاہتا ہے کہ 1977 اور 1983 میں چلائی جانے والی ان تحریکوں کے کچھ مناظر پیش کر کے حالیہ دنوں میں چلائی جانے والی جیل بھرو تحریک کا جائزہ لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ ماضی کی تحریکوں اور اس تحریک میں فرق کیا ہے نیز عمران خان کی حالیہ تحریک اپنے روز اول سے ہی کوئی دباؤ پیدا کرنے میں ناکام کیوں رہی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ خود اس کے وابستگان ہی اس سے لا تعلق کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔

ہماری سیاسی تاریخ کا یہ ایک اہم واقعہ ہے جس کا تجزیہ ہونا چاہیے لیکن اسی تحریک کے پہلو بہ پہلو ایک پیش رفت اور بھی ہو رہی ہے جس کے اثرات اور اہمیت اس تحریک سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ واقعہ ہے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کا۔ مقدمے کی سماعت کے لیے بنایا گیا بینچ اور اس کے بارے میں خود بینچ کے اندر اور باہر پیدا ہونے والا ردعمل۔ پاکستان مسلم لیگ نون اور دو اتحادی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام نے با ضابطہ طور پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس بینچ میں شامل دو ججوں کے سامنے ان کے مقدمات پیش نہ کیے جائیں۔

یہ اعتراض بیرون بینچ ہے لیکن اندرون بینچ پیدا ہونے والے اعتراض کی حدت اور شدت اس اعتراض سے کہیں بڑھ کر ہے۔ شاید یہی سبب تھا کہ عدالتی کارروائی پر نگاہ رکھنے والے مبصرین کہنے پر مجبور ہوئے کہ پہلے روز کی عدالتی کارروائی ایک ایسے کشیدہ ماحول میں ہوئی جس نے ابتدا میں زیر سماعت مقدمے کی قسمت کا قریب قریب تعین کر دیا۔ یہ عین ممکن ہے موجودہ صورت حال میں نتائج ایسے نہ ہوں جیسے ماضی میں اس قسم کے تنازعات میں آتے رہے ہیں۔

آخر ایسی کیا جوہری تبدیلی رونما ہو گئی ہے جس نے اس واقعے کو جیل بھرو تحریک سے بڑھ کر اہمیت دلا دی ہے؟ یہ تبدیلی اتنی گہری اور ہمہ گیر ہے جس نے موجودہ حکمران اتحاد کو ایک ایسا موثر بیانیہ عطا کر دیا ہے، تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت میں آنے کی وجہ سے وہ جس سے محروم ہو چکا تھا، خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ ن۔ محترمہ مریم نواز نے یہ قضیہ سامنے آنے کے بعد جس اعتماد کے ساتھ سرگودھا میں عوام سے خطاب کیا ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ اس تبدیلی اور اس بیانیے کو سمجھنے کے لیے سینیٹر عرفان صدیقی کے اس بیان پر توجہ دینی ہو گی جس میں صرف ایک جملے میں جہان معنی آباد کر دیا گیا ہے۔

سینیٹر جناب عرفان صدیقی کو صاحب طرز نثر نگار تو ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے سیاسی تجزیوں کی دھوم بھی ایک زمانے سے ہے لیکن سینیٹ کا رکن منتخب ہونے بعد معلوم ہوا کہ ہمارا پارلیمان اب تک کس چنگاری سے محروم رہا ہے، یہ اب سمجھ میں آ رہا ہے۔ طویل عرصے تک پارلیمانی رپورٹنگ کے دوران بے شمار ارکان پارلیمان کے انداز کار کو دیکھنے اور سمجھنے کے مواقع ملے۔ ان میں اپنے جوش و جذبے کے ساتھ ایوان کو اپنے ساتھ بہا کے جانے والے بھی تھے اور شعر و ادب کے گہرے مطالعے کے با وصف کڑوی سے کڑوی بات ہنستے ہنستے کہہ جانے والے بھی لیکن عرفان صدیقی ان سب سے مختلف ہیں۔

ان کا شمار نہ غیر معمولی سیاسی کے دباؤ میں آ کر جذبات کی رو میں بہہ جانے والوں میں ہوتا ہے اور ان نہ پارلیمنٹیرینز میں جن کا کہنا نہ کہنا برابر ہوتا ہے۔ عرفان صدیقی نے اس منظر نامے میں جدا شناخت بنائی ہے۔ ان کی اس انفرادیت کا راز ان کی غیر معمولی سیاسی بصیرت اور تجزیاتی انداز فکر میں ہے۔ ان کی گفتگو سنیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ زبان کھولنے سے قبل وہ ایک ایسے ذہنی عمل سے گزرے ہیں جس نے ان کے سامنے معاملے کے تمام پہلو کھول کر رکھ دیے ہیں۔

موجودہ سیاسی منظر نامے میں ان کا ایک ٹویٹ سیاست کے سنجیدہ طالب علموں کو راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ جب یہ کہا گیا کہ آئین انصاف کے ایوان کے دروازے پر دستک دیتا پایا گیا تو اس کی پکار سننا ضروری تھی۔ اس غیر معمولی بیان کے جواب میں عرفان صاحب نے الفاظ چبائے بغیر ایک ہی بات کہی: ’آئین 1977 سے 1988 تک 11 سال دستک دیتا رہا، کسی نے نہ سنی، آئین 1999 سے 2008 تک 9 برس دستک دیتا رہا اس وقت بھی کسی نے نہ سنی۔ آج یہ دستک متبرک کیسے ہو گئی؟‘ ۔

اس مختصر سے جملے میں پاکستان کے سیاسی اور عدالتی تمام ایوانوں کی تاریخ ہی رقم نہیں کر دی گئی بلکہ وہ بیانیہ بھی قوم کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے جس کی توانائی سے حکمراں اتحاد خاص طور پر مسلم لیگ نون ایک نئی انگڑائی لے کر میدان عمل میں اتری ہے۔ کوئی سیاسی بیانیہ حرف و صوت کی جادو گری سے نہیں بنتا بلکہ اس کی بنیاد ایسے حقائق سے اٹھتی ہے جن کی حدت سے موسم بدلتے ہیں۔ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ موسم بدلنے پہلی خبر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیوں کے انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے شروع کیے جانے والے قانونی عمل سے برآمد ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت کچھ اس سے قبل ہو چکا تھا۔

مثلاً یہ احساس کہ ریاستی امور میں کی جانے والی مسلسل مداخلت نے ریاست کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے ہیں۔ اب اگر اس جہان رنگ و بو میں ہیں اپنا وجود برقرار رکھنا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس طرز عمل سے نجات حاصل کرنی ہے بلکہ وہ حکمت عملی بھی اختیار کرنی ہے جس سے ماضی کی تمام تر کوتاہیوں کا ازالہ ہو جائے۔ بعض حلقوں میں اس فکر کو قدم پیچھے ہٹانے سے تعبیر کیا گیا اور سمجھا گیا کہ پیچھے ہٹتے ہوئے قدم کہیں دائمی نہ ہو جائیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا معاملہ سامنے آنے کے بعد جس جوڑ توڑ کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں، یہ اسی مزاحمت کا شاخسانہ ہو سکتی ہے۔ گویا یہ بناؤ اور بگاڑ کا وقت ہے۔ بدلتے ہوئے حقائق چٹختی ہوئی کلی کی وہ مہک ہیں جو اجڑے ہوئے چمن کو گل و گلزار بنا دیتی ہے۔ بس دیکھتے جائے، موسم بدل چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments