انصاف کا دروازہ اور آئین کی دستک!


زبان و بیان کا سلیقہ بھی ایک طرح کی ساحری ہے۔ روزمرہ کے عمومی اور رَسمی مکالموں میں بھی یکایک کوئی خاص جملہ براہِ راست دِل کی طرف لپکتا اور دیر تک خوشبو بکھیرتا رہتا ہے۔ صورتِ حال بعض اوقات برعکس بھی ہوجاتی ہے۔ کوئی ناتراشیدہ جملہ تیر کی طرح دِل میں ترازو ہو جاتا ہے اور پھر برسوں لہو رِستا رہتا ہے۔

پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران میں، چیف جسٹس پاکستان، عزت مآب جسٹس عمر عطا بندیال نے اَزخود نوٹس کے اہم ترین محرک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ”آج آئینِ پاکستان نے خود ہمارے دروازے پر دستک دی ہے۔“ اُردو شعر و ادب اور زبان کے ہمہ رنگ ذائقوں سے آشنا کوئی بھی شخص اِس جملے کی حلاوت اور طرح داری کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔

دروازہ اور دستک شاعری کی رومانوی لُغت کے مقبول الفاظ بلکہ گہری معنویت کے حامل خوش رنگ استعارے ہیں۔ جناب چیف جسٹس سیدھے سبھاؤ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ بنیادی حقوق سے تعلق رکھنے والے کسی بھی قومی مسئلے کا اَز خود نوٹس لینا، میرا صوابدیدی اختیار ہے (جو کہ ہے ) اور میں اپنے اِسی اختیار کو بروئے کار لایا ہوں۔ قانون کی لُغت پر بھرپور گرفت کی بنا پر وہ کوئی اور اصطلاح بھی استعمال کر سکتے تھے لیکن انہوں نے آئین کے احترام اور جذبہ و احساس میں گندھا کیا خوبصورت جملہ بولا کہ دِل و دماغ شاداب ہو گئے۔

میں اب تک اس جملے کے سحر میں ہوں۔ کئی منظر میرے نگار خانٔہِ تخیّل میں تمثیل کا روپ دھارے ابھرنے لگے ہیں۔ جیسے آئین ایک ستم رسیدہ، زخم خوردہ، مصیبت زدہ شخص ہو۔ گھنے جنگل میں کسی ایسے گھر کے باہر کھڑا اپنے نحیف و نزار ہاتھوں سے دستک دے رہا ہو جس کے دریچوں سے جھانکتی روشنی کی کوئی کرن اُسے دکھائی دی ہو۔ یکایک دروازہ کھُلتا ہے، انصاف سردی سے کانپتے ٹھٹھرتے شخص کو اپنی نرم و گرم آغوش میں لے لیتا ہے اور آسودگی کی حیات بخش لہر، برقی رو کی طرح اس کی مرجھاتی رگوں میں دوڑنے لگتی ہے۔ میرے ذہن کی لوح پر ایک اور شاعرانہ اور رومانوی سا تصور ابھرتا ہے کہ سردیوں کی طویل یخ بستہ رات میں بے کلی سے کروٹیں بدلتے کسی مہجور عاشقِ زار کے دروازے پر حنائی ہاتھ کی مانوس سی دستک سنائی دیتی ہے اور ساری فضا خوشبوئے دلآویز سے مہکنے لگتی ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ ”تن ہمہ داغ داغ شد“ والے آئین کا واسطہ ہماری آج کی عدالتِ عظمیٰ سے پڑا اور اُس کی پہلی دستک پر یوں دروازہ کھل گیا جیسے انصاف دروازے سے لگا کھڑا تھا۔

یہ پیش رفت بڑی اچھی ہے لیکن وہ جو فیض نے کہا تھا کہ ”لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے“ دلِ رنجیدہ خُو کو اُداس رہنے کا کوئی بہانہ چاہیے۔ سو آج کی دِل افروز کہانی سے قطعِ نظر میری کیڑا کار طبیعت گئے دنوں کی رَاکھ کریدنے لگی ہے۔

برسوں قبل گورنر جنرل غلام محمد کی رعونت اور اس وقت کی عدلیہ کی فدویّت کے درمیان، دشت کا بگولا بنے آئین کا نام مولوی تمیز الدین تھا جو برقع اوڑھے رکشے میں بیٹھ کر بارگاہِ عدل تک پہنچا اور نامراد لوٹا تھا۔ ؁1956 میں تشکیل پانے والے پہلے آئین کو، پہلے پاکستانی سپہ سالار نے اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ وہ گرتا پڑتا، کپڑے جھاڑتا عدالت تک پہنچا۔ دستک دی۔ دروازہ کھُلا اور اُسے ہٹّا کٹّا بھکاری سمجھ کر دھتکار دیا گیا۔ ؁1969 میں ایک تازہ دَم ڈکٹیٹر نے یلغار کی اور آئین کے سینے میں خنجر گھونپ دیا۔ وہ بصد مشکل اپنی انتڑیاں سمیٹے بارگاہِ عدل تک پہنچا تو اُسے بتایا گیا کہ انقلاب آ چکا ہے جو بَرحق ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت اسے مردہ قرار دے کر سردخانے میں پھینک دیا گیا اور آئین بنانے والا پھانسی کا سزاوار ٹھہرا۔ 1999؁ میں ایک کمانڈو کو نوکری سے نکالا گیا تو پہلے سے تیار منصوبے کے مطابق اُس نے ملک پر قبضہ کر لیا۔

آئین نے عدالت کے دروازے پر دستک دی۔ جسٹس سعید الزماں صدیقی نے دروازے کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو آمر کو غصّہ آ گیا۔ ایک پی سی او جاری ہوا۔ سعید الزماں صدیقی پانچ دوسرے خودسَر رفقا سمیت گھر چلے گئے۔ ارشاد حسن خان نے آئینی حلف سے دستکش ہو کر آمر سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ سب سے اونچی مسندِ انصاف پر جلوہ افروز ہوئے۔ آئین کو دھکے دے کر باہر نکالا اور شاہانہ تمکنت کے ساتھ ڈکٹیٹر سے مخاطب ہوئے۔ ”جاؤ اپنی مرضی کا آئین خود بنا لو۔“

کتنے ہی فیصلے آئے اور آتے چلے گئے جو آئین کی پشت پر فولادی کوڑوں کی طرح برستے اور اُس کی کھال ادھیڑتے رہے۔ دنیا بھر کا مسلّمہ دستور ہے کہ ”انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے، ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے۔“ ہمارے ہاں اس کے برعکس یہ نظریہ اپنا لیا گیا کہ ”نا انصافی ہونی ہی نہیں چاہیے، واضح اور غیر مبہم انداز میں ہوتی ہوئی دکھائی بھی دینی چاہیے۔“ کوئی کیا بگاڑ لے گا۔ مشرف کی بریّت اور پانامہ کیس اس کی بے مثل نظیریں ہیں۔

یہ نظیریں رقم کرنے والے اب قصّہ ماضی ہوچکے۔ وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ کسی کو اس کا سراغ لگانے کی فرصت ہے نہ ضرورت۔ وہ پورے قد کاٹھ کے ساتھ عوامی تقریبات میں بھی نہیں جا پاتے۔ اُن کے چہرے باطنی طمانیت کی شفق سے محروم ہوچکے ہیں۔ طوطی بولتا تھا تو آئین کی حُرمت، قانون کی عصمت اور اپنے منصب کی تقدیس کو ”متروکہ املاک“ قرار دے کر دوسروں پر آوازے کستے تھے۔ کبھی سسلین مافیا کی گالی دیتے، کبھی گاڈ فادر کا طعنہ۔ کبھی خدا کے لہجے میں بولتے ”اپنے وزیراعظم کو بتا دو کہ اڈیالہ جیل میں ابھی بہت جگہ خالی ہے۔“ یہ سب کچھ اس وزیراعظم کے لئے مخصوص تھا جو بائیس کروڑ عوام کا نمائندہ اور ریاست کے جمہوری تشخص کی علامت تھا۔ آئین کو توڑنے، من مانی عدالتیں بنانے اور مرضی کے فیصلے لینے والے ڈکٹیٹر کے بارے میں کبھی کوئی حرفِ ناروا اِن قاضیانِ کرام کی نوک لب پہ نہ آیا۔

آئین کی دستک پر عدل گاہ کا دروازہ کھلنے کا اوّلیں تقاضا یہ ہے کہ آئین کی روح اور انصاف کے ازلی و ابدی اصولوں کو بھی مدّنظر رکھا جائے جو ہر آن، دل، دماغ اور ضمیر کے دروازے پر دستک دیتے رہتے ہیں۔ انصاف ہو، ہوتا ہوا نظر بھی آئے اور حتمی فیصلہ صادر ہونے کے بعد جب آئین دروازہ کھول کر باہر جانے لگے تو اُس کے ماتھے پر تذلیل و ندامت کے قطرے نہ ہوں، ہونٹوں پر سدا بہار ملکوتی مسکراہٹ لَو دے رہی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments