عظیم صوفی شاعربابا فرید کی دھرتی پاکپتن


عظیم صوفی شاعر با با فرید الدین گنج شکر کی دھرتی پاکپتن ایک تاریخی علاقہ ہے جس کا پرانا نام اجودھن ہے۔ مفتوحہ علاقوں میں انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے کے حوالے سے مشہور مغل شہنشاہ تیمور لنگ نے جب پاکپتن پر قبضہ کیا تو بابا فرید الدین گنج شکر کے احترام کی وجہ سے یہاں کی آبادی کی زندگیاں بخش دیں۔ میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسے ضلع کا درجہ دے کر یہاں کی عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا جس سے اس علاقے کی ترقی و خوشحالی کا ایک سنہری دور شروع ہوا، لیکن باقی ملک کی طرح یہاں بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ نت نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

ضلع پاکپتن ایک زرخیز علاقہ ہے اور یہاں کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے لیکن زراعت کے شعبے میں جاری حالیہ مندی نے کسانوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ زراعت سے روزی کمانے والے چھوٹے بڑے زمیندار، آڑھتی، ٹھیکیدار اور مزدور پیشہ طبقہ اس وقت تباہی سے دوچار ہیں۔ پورے ضلع میں کوئی قابل ذکر صنعت نہیں ہے اس لیے یہاں کے ہزاروں افراد محنت مزدوری کے لئے لاہور اور دیگر صنعتی شہروں کی طرف رخ کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہاں غربت کی شرح ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ بڑے زمینداروں، درمیانے درجے کے تاجروں اور سرکاری ملازمین کو چھوڑ کر آبادی کی اکثریت غربت کی چکی میں پس رہی ہے اور ان کے لئے مقامی سطح پر معاشی مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بابا فرید الدین گنج شکر نے اپنے ایک شعر میں انسانی زندگی میں معاشی خود کفالت کا کیا خوب اور مبنی بر حق تجزیہ کیا ہے۔ کہتے ہیں :

پنج رکن اسلام دے، تے چھیواں فریدا ٹک
جے نہ لبھے چھیواں، تے پنجے ای جاندے مک

یعنی ”اسلام کے پانچ رکن بیان کئیے جاتے ہیں، لیکن اے فرید! ایک چھٹا رکن بھی ہے اور وہ ہے، روٹی، اگر یہ چھٹا نہ ملے، تو باقی پانچوں بھی اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔“

ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں زرعی شعبہ سے منسلک صنعتوں کو فروغ دیا جائے۔ بیرون ملک مقیم پاکپتن کے ایک بڑے بزنس مین سے جب میں نے یہاں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع کے بارے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تو چاہتے ہیں کہ اپنے ملک اور علاقے کے لوگوں کی بہبود کے لئے کام کریں لیکن یہاں جاگیردارانہ مائنڈ سیٹ کے لوگ بستے ہیں جو عوامی فلاح و بہبود کے کسی بھی کام میں رکاوٹ ہیں۔ انھوں نے افسوس کے ساتھ مزید بتایا کہ جب انھوں نے ایک بار یہاں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی غرض سے سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی تو ان کے خلاف جھوٹے پرچے کاٹے گئے اور خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی گئیں کیونکہ اس عمل سے علاقے کے بعض لوگوں کو اپنی سیاسی اجارہ داری خطرے میں نظر آنے لگی۔

ان ناموافق حالات کے باعث وہ اپنے سرمائے اور کاروبار کو بیرون ملک ہی محفوظ سمجھتے ہیں۔ ضلع کا واحد بڑا ہسپتال ڈی ایچ کیو بہت سے مسائل کا شکار ہے جہاں شاید بیس سال پہلے آج کی نسبت اچھی سروس فراہم کی جاتی تھی لیکن اب نہ ڈاکٹر ہیں، نہ ضروری آلات اور نہ ہی دوائیاں۔ جو ڈاکٹر موجود ہیں ان کی توجہ بھی زیادہ تر پرائیویٹ کلینک کی طرف ہے۔ کچھ عرصہ قبل نوبت یہاں تک آ گئی کہ سول سوسائٹی کے افراد نے جب ای ڈی او ہیلتھ سے ہسپتال کے مسائل کے بارے میں بات کی تو انھوں نے فرمایا کہ آپ کے عزیزوں میں سے اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو وہ انھیں ہسپتال میں فوری طور پر نوکری دینے کے لئے تیار ہیں۔

باقی ضلعی اداروں کی طرح اس ہسپتال میں بھی ایک مضبوط مافیا راج کر رہا ہے جن سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ تجاوزات کی بھر مار اور بے ہنگم ٹریفک سے شہر کے بازار اور سڑکیں ہر وقت ٹریفک جام کا منظر پیش کرتی ہیں۔ شہر کی ایک تہائی آبادی تنگ و تاریک گلیوں پر مشتمل ایک بلند ٹیلے پر مقیم ہے جہاں مکانات گرنے اور معصوم جانوں کے ضیاع کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیلے پر مقیم اس آبادی کو مرحلہ وار کہیں اور شفٹ کیا جائے اور قدیم ثقافتی ورثے کو محفوظ کرتے ہوئے اس ٹیلے پر شہریوں کی تفریح کے لئے کوئی پارک بنایا جائے۔

تعلیمی لحاظ سے بھی یہ ضلع انتہائی پسماندہ ہے اور طبقاتی نظام تعلیم غریب گھرانوں کے طلباء کو اوپر نہیں آنے دیتا لوگ اپنے بچوں کو سکول داخل کرانے کی بجائے بچپن میں ہی محنت مزدوری پہ لگا دیتے ہیں۔ سجاگ کے نام سے ایک آن لائن نیوز پیپر پاکپتن کے مسائل کو احسن انداز سے اجاگر کرتا تھا اب شاید یہ بھی بند ہو گیا ہے۔ اعلی تعلیم کے لئے یہاں لاہور یونیورسٹی کا ایک کیمپس تھا جو تنازعات کا شکار ہو چکا ہے۔ ضلعی سطح پر یونیورسٹیاں قائم کرنے کے حکومتی منصوبے کے تحت ایک یونیورسٹی کا اعلان ہوا جو ابھی تک محض کاغذوں میں ہی ہے۔

کمہاریوالہ کے نزدیک بلو کی سلیمانکی نہر پر بجلی کے ایک چھوٹے منصوبہ تکمیل کو پہنچا لیکن نیشنل گرڈ میں بجلی جانے سے ضلع کو اس کا فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکپتن اور منچن آباد کو ملانے والی سڑک کئی دہائیوں سے زیر تکمیل ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں، باقی ضلعی رابطہ سڑکوں کا بھی برا حال ہے۔ ہر سال ضلع میں لاکھوں زائرین درگاہ بابا فرید پہ حاضری دینے آتے ہیں لیکن کوئی بھی معیاری ٹرانسپورٹ سروس ضلع میں دستیاب نہیں۔

ہاں البتہ زور و شور سے البتہ جو منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا ہے وہ پاکپتن میں ڈسٹرکٹ جیل کا قیام ہے۔ پاکپتن میں ایسے کئی تاریخی مقامات ہیں جس سے بین الاقوامی سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ضلع پاکپتن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وارث شاہ نے اپنی مشہور ہیر وارث شاہ یہاں کے ایک قصبے ملکہ ہانس میں قلم بند کی۔ ملکہ ہانس، پاکپتن، عارف والا اور پاکپتن کے دیہاتوں اور قصبوں میں کئی تاریخی مقامات ہیں جو یہاں بین الاقوامی سیاحت کو فروغ دے سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات کہتے ہوئے بھی افسوس ہوتا ہے کہ شہر کے بیچوں بیچ قبضہ مافیا نے ایک تاریخی مندر کو گرا کر وہاں شاپنگ پلازا تعمیر کر لیا ہے۔ حکومت پنجاب کو چاہیے کہ پاکپتن کو پسماندہ اضلاع کی فہرست میں شمار کرتے ہوئے اس کے ترقیاتی بجٹ میں نہ صرف اضافہ کیا جائے بلکہ دوسرے اضلاع کی طرح ٹویوٹا (TEVETA) ، نیوٹک اور ٹسڈک کے زیر انتظام فنی مہارت کے پروگراموں میں اس ضلع کے غریب طلباء و طالبات کو بھی وظائف سے مستفید کیا جائے۔

اس وقت یہاں پاکستان بیت المال کے زیر انتظام ایک ووکیشنل دستکاری سکول اور قومی ادارہ برائے مزدور بچگان کام کر رہے ہیں۔ جبکہ پنجاب بیت المال اور ویمن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے صنعت زار اور دار الامان جیسے ادارے کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک وی ٹی آئی بھی قائم ہے لیکن یہ تمام ادارے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لئے ناکافی ہیں۔ یہاں کی سیاسی قیادت بھی صرف خالی باتوں سے ہی عوام کا دل بہلاتے ہیں اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے نا ان کے پاس کوئی منشور ہے نہ ویژن۔

نظریاتی سیاست کی بجائے پیسے، جوڑ توڑ، وڈیرہ شاہی اور ڈیرے داری کی سیاست یہاں بھی اپنی تمام خرابیوں کے ساتھ موجود ہے یوں کہا جاسکتا ہے کہ کئی دہائیوں سے پاکپتن کی زرخیز زمین پر بنجر ذہن کے لوگوں کی اجارہ داریاں قائم ہیں۔ جہالت اور کم عقلی کے باعث مستقبل قریب میں اس فرسودہ سیاسی ڈھانچے میں بلدیاتی الیکشنوں کی صورت میں تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا باقاعدگی سے انعقاد ہونا اور مضبوط و با اختیار بلدیاتی نظام ہی جدید جمہوریتوں کا خاصہ ہے لیکن اختیارات کے چسکے میں مبتلا ہماری مٹھی بھر اشرافیہ اس اسٹیٹس کو میں تبدیلی کے سخت خلاف ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ یہاں کی باشعور سول سوسائٹی مقامی مسائل کے حل کے لئے تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی گو پے درپے ٹیکسز کی بھرمار اور مہنگائی نے با شعور طبقے کی بھی کمر توڑ کر اسے سماجی شعور بیدار کرنے کی بجائے روزی روٹی کے بھنور میں پھینک دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments