اشعر نجمی کا ناول: صفر کی توہین


“صفر کی توہین” اشعر نجمی کا دوسرا ناول ہے جو پاکستان میں فکشن ہاؤس، لاہور سے 2022 میں شائع ہوا۔ اس سے پہلے ان کا ناول ”اس نے کہا تھا“ منظر عام پر آ چکا ہے۔ 160 صفحات اور سات ابواب پر مشتمل اس ناول کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اشعر نجمی پامال راہوں کے مسافر نہیں۔ کتاب کے فلیپ پہ اشعر صادقین کے قول کا حوالہ دیتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا، میں ڈرائنگ روم کا نہیں ڈسٹ بن کا فنکار ہوں۔ اشعر نجمی لکھتے ہیں کہ میں بھی سجاوٹ کی چیز نہیں۔ میں ڈسٹ بن کا ناول نگار ہوں۔ مصنف کی کسر نفسی سے ہٹ کر اس پہ غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے موضوع پہ خامہ فرسائی کی ہے جسے قبول کرنے میں سماج کو تامل ہو سکتا ہے۔ ناول کا موضوع نہایت حساس اور اسلوب منفرد ہے۔ ناول کے پیش لفظ ”کچھ باتیں“ میں اشعر نجمی لکھتے ہیں۔ ”جہاں تک ناول کے موضوع کا تعلق ہے، تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ سارتر نے ایک بار کہا تھا کہ جنوبی ایشیا میں مسائل اور موضوعات کی کمی نہیں، لیکن پتہ نہیں لوگ ان پر کیوں نہیں لکھتے؟

شاید سارتر کو پتہ نہ تھا کہ ہمارے ہاں، بطور خاص اردو معاشرے میں کچھ موضوعات کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ظاہر ہے ایسے میں کون زمانہ شناس اور معاملہ فہم ادیب بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالے گا؟ میں نے یہ غلطی پہلے ناول میں بھی کی تھی اور اس بار بھی کر رہا ہوں۔ دراصل شاعری یا فکشن کے بیشتر ادیب و قارئین کا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں وہی اچھا لگتا ہے جوان کے تصورات کی تصدیق کرے، جبکہ ادب عموماً ایسے تصورات کو چیلنج کرتا ہے۔ چنانچہ ایک معقول تخلیق کار کو قارئین سے زیادہ توقع نہیں رکھنا چاہیے۔

مصنف نے یہ بات بالکل درست لکھی ہے لیکن اس میں ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں ایک ایسے موضوع کو نہایت مشاقی سے پیش کیا ہے جس پہ بات کرنے پہ ہی مذہبی حلقوں کی جانب سے حد لاگو کرنے کا اندیشہ رہتا ہے۔

زیر تبصرہ ناول میں تین اشخاص کی الگ الگ کہانیاں بیان کی گئیں ہیں۔ اس ضمن میں پہلی داستان حیات بابو رائے ناستک کی ہے۔ جو ہندو سماج کے اس طبقے سے تعلق رکھتا ہے جسے دلت کا نام دیا گیا ہے۔ یہی ناول کا کبیری کردار اور راوی بھی ہے، ۔ کمپیوٹر اور ریاضی کی اصطلاحات سے مزین اس ناول کے تمام آٹھ ابواب کا آغاز مشاہیر کے اقوال سے ہوتا ہے ناول میں تھیوری آف ریلیٹویٹی کا اور الگورتھم کے اصولوں ذکر ملتا ہے بابو رائے جو پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر سائنس کا پروفیسر ہے ہر باب میں اس کی وضاحت بھی کرتا ہے، ہر باب کے آغاز میں انگریزی زبان میں فیثا غورث، دلائی لامہ مہاتما گاندھی اور ایرل موریس وغیرہ کے جو اقوال درج کیے گئے ہیں، وہ سب صفر کے فلسفہ ریاضی سے ہی متعلق ہیں۔ صفر کا عدد نہایت اہم ہے مصنف نے بنیادی طور پر صفر کی قوت کا موازنہ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اختیار سے دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے ۔ صفر جس اپنی ذاتی حیثیت کچھ بھی نہیں، یعنی صفر بے قدر و قیمت کے مساوی ہے

لیکن کسی بڑی سے بڑی قیمت کا تعین صفر کے بغیر ممکن نہیں۔ ناول کے پہلے حصے میں دو فرشتے ”بشیر“ اور ”مبشر“ بابو راؤ سے سوالات کرتے ہیں اور جن کے جواب میں باضابطہ کہانی کی شروعات ہوتی ہے ناول کے پہلے اور دوسرے حصے میں بابو راؤ ڈوم کے ”ناستک“ ہونے کی مکمل روداد کا بیان ہے اور یوں ہمیں بابو راؤ کے ساتھ ساتھ اس طبقاتی سماج کے نچلے طبقات کی زندگیوں ان کے ساتھ سماج کے طاقتور طبقات کی جانب سے روا رکھنے جانے والے گیر انسانی رویوں اور نا انصافیوں کا بھی پتا چلتا ہے جنہوں نے ان کی زندگیوں کو نرک سے بھی بدتر بنا کے رکھ دیا ہے۔

کہانی انہی تینوں کرداروں کے ذریعے سے آگے بڑھتی ہے۔ بابو راؤ ناستک کا کردار دلت سماج کی عکاسی کرتا ہے، جو ایک اپنے دکھوں اور تکالیف سے بے نیاز بھگوان سے منکر ہوجاتا ہے۔ وہ بھگوان سے متعلق عجیب باتیں سوچتا ہے اس کے ذہنی انتشار نے اسے بے چینی اور کرب میں مبتلا کر رکھا ہے آخرکار بھگوان کا منکر ہو جاتا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے اس سے اس کردار کی سوچ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

”میں ایسا خدا چاہتا ہوں جو میری کاسٹ کا ہو، دلت ہو، جو میرے باپ کی طرح ٹی بی کا مریض ہو اور خون تھوکتا ہو، جو اپنی ماں کا کھیت میں ریپ ہوتا ہوا دیکھ سکتا ہو، جو میرے ساتھ اپنے سر پر بڑی ذات کا فضلہ اٹھا کر چل سکتا ہو، جو بنا چپل کے چلچلاتی دھوپ میں سفر کر سکتا ہو۔ میں ایسا بھگوان چاہتا تھا جس کے پاس بس کے کرائے کے لیے پیسے تک نہ ہوں۔ ایسا خدا جو کسی پروٹیسٹ، ریلی میں پولیس کے ڈنڈے کھا کر بے ہوش ہو جاتا ہو۔

ایسا خدا جو سزا دینے کے لیے لائے گئے گرم اور لال بجلی کے ننگے تار کے سامنے مارے ڈر کے پیشاب کردے۔ ایسا خدا جس کو آخری ہڈی تک ظلم کا شکار بنایا گیا ہو اور جو درد کی شدت سے ہوا میں دانت پیسنے لگتا ہو۔ ایسا بھگوان جو بے روزگار ہو، جو دھرنا دیتا ہو، جو بھوکا ہو، جو فرار ہو اور جس کے پاس اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہ ہو۔ مجھے ایسا ہی خدا جیسا ایک خدا چاہیے تھا۔“

(صفحہ نمبر: 21۔ 22 )

مذکورہ بالا اقتباس گرچہ طویل ہے، لیکن اس اقتباس میں سماج میں دلتوں پر کیے جانے والے مظالم اور ان کی حالت زار کا پتا چلتا ہے، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے یہاں سائیں اختر کی نظم یاد آتی ہے اللہ میاں تھلے آ۔ بابو راؤ کو بھی ایسا بھگوان چاہیے جو اس کے دکھ درد اور تکلیفوں سے واقف ہو۔ زمینی خداؤں کی جانب سے دی گئی تکالیف پر آسمانی خدا کی خاموشی اسے ناستک ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہیں ڈاکٹر ناصر عباس نئیر کے افسانوی مجموعے فرشتہ نہیں آیا کے کلیدی افسانہ فرشتہ نہیں آیا خیال آتا ہے۔ جس میں اس کردار کی مدد کے لئے فرشتہ نہیں آتا جو اس کی منتظر ہے۔

ناول کے تیسرے حصے میں ایک لڑکی ”ریحانہ“ کی داستان غم بیان ہوئی ہے۔ یہ اس ناول کی سب سے اہم نسوانی کردار ہے۔ مذہب کے نام پر سماجی جبر اسے بھی مذہب سے برگشتہ کر دیتا ہے ناول کے آخر میں یہ عقدہ بھی کھل جاتا ہے یہی ”ریحانہ“ ، ”بابو راؤ ناستک“ کی بیوی ہے، اور ان کا ”چیکو“ نامی ایک بچہ بھی ہے، ریحانہ کے رشتہ دار ریحانہ کو ایک ملحد کی زوجہ ہونے کی وجہ سے مطعون اور مجبور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”تم حقیقی خدا کی خاطر مجازی خدا کو خدا حافظ کہہ دو ۔“ لیکن ریحانہ پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ وہ اپنی شادی کے برسوں بعد بھی ایک خوش حال اور محبت بھری ازدواجی زندگی گزار رہی ہے۔

اگلے دو ابواب میں ایک طالب علم جمیل کی ذہنی اور داخلی کش مکش کا بیان ہے۔ بر صغیر کے مدارس اسلامیہ میں مذہبی تعلیم کے نام پر تنگ نظری اور تعصب کو پروان جڑھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دینی مدارس کے اساتذہ کی جانب سے نوع مر طالب علموں کے جنسی استحصال اور مذہبی رہنماؤں کی شخصیات کے دوہرے پن کو دیکھتے ہوئے ”جمیل“ جیسے سادہ لوح مگر ذہین و فطین طالب علم کی اسلام سے بدظنی بالکل فطری ہے۔ اشعر نجمی نے مذہبی معاشرے کی منافقت پر بڑی مہارت سے نشتر چلایا ہے۔ اور مذہبی لوگوں کے دوغلے پن کو بے نقاب کیا ہے ہیں۔ اس کی وجہ وہ جنسی گھٹن ہے جس کا شکار انہیں بچپن سے عذاب الہی سے ڈرا کر کیا جاتا ہے لہذا ہم دیکھتے ہیں جنس اور پیٹ کی بھوک دونوں انھیں درندہ بنا دیتی ہیں۔

یہ تین الگ الگ کہانیاں ان تین کرداروں کی ہیں جو سماج کے ٹھکرائے ہوئے کردار ہیں۔ مگر مصنف ان کی کہانیوں میں سوچ کے اشتراک کے ذریعے انسلاک پیدا کرتا ہے۔ ناول میں علم الکلام اور علم ریاضی کی کارفرمائی ملتی ہی ہے سوالات ہی سوالات ہیں جن کے جوابات انھیں نہیں ملتے۔ بالکل بودے جوابات یا جبری خاموشی انھیں مزید الجھنوں میں مبتلا کر دیتی ہے مذہبی ریاکاری اور منافقت کے ساتھ ہمارا معاشرہ کس طرح کی نسل کو پروان چڑھا رہا ہے اصل سوال یہ ہے۔

عالمگیریت کے اس دور میں انسان کے ہاتھ گیجٹس ہیں وہ ساری دنیا کے منسلک ہے لیکن دراصل وہ بالکل تنہا ہے۔ انسان کا اکیلا پن بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ ہجوم میں بھی تنہا ہے اسی لئے اسے اپنا وجود مردہ محسوس ہوتا ہے ہندسے زندہ انسان کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ مسلسل تلاش اسے صرف تھکا رہی ہے۔ جوابات کی تلاش۔ اپنی شناخت کی تلاش۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments