پلیز! عمران خان صاحب چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر دیں


معلوم ہے آپ سے زیادتیاں ہوئی۔ معلوم ہے آپ استعمال کیے گئے۔ معلوم ہے آپ کو دھوکا دیا گیا۔ دھوکا دینے والوں نے تاریخ میں پہلی بار غلطی کا برملا اظہار کیا۔ لیکن کیا بات یہی ختم ہو جاتی ہے۔ 75 سالوں میں یہی راگ الاپا گیا ہے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ یہ بیانیہ سیاستدان، بیوروکریسی اور عدلیہ کی جانب سے بھی دہرایا جاتا رہا ہے۔ کبھی عدلیہ نے نظریہ ضرورت سے آمرانہ حکومت کو دوام بخشنے کے لئے انہی کے حق میں فیصلے کیے تو کبھی سول و عسکری بیوروکریسی بالواسطہ یا بلا واسطہ یہ کام کرتی رہی۔

پی ٹی آئی سے پہلے دو ہی قومی سیاسی پارٹیاں موجود تھی۔ میں یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کروں گا کہ دونوں پارٹیوں نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے۔ ایک وقت میں دونوں پارٹیاں حریف تھی تو دوسرے وقت میں دونوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر دیے۔ یہ کیا وجہ تھی کہ دونوں پارٹیاں مل بیٹھی؟ پیپلز پارٹی کے بانی سے لے کر ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو تک اور نون لیگ میں نواز شریف کی حکومت پر جنرل (ر) پرویز مشرف کے قبضے تک۔

تاریخ میں ہر چیز چڑھتے سورج کی طرح عیاں ہے۔ کبھی عدلیہ کا پلڑا بھاری رہا تو کبھی سیاستدانوں کا تو کبھی بیوروکریسی کا ۔ اسی کشمکش میں پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اور میں یہ بات کہنے میں بھی عار محسوس نہیں کروں گا کہ پی ٹی آئی ایک نوزائیدہ پارٹی ہے۔ پی ٹی آئی کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ جنہوں نے وزارت عظمیٰ کی کرسی میں بٹھایا انہوں نے ہی اتارا۔

مطلب جو چوٹ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو لگی وہی پی ٹی آئی کو بھی لگی ہے۔ اس کا اعتراف خود عمران خان اور ان کی کابینہ کے لوگ روز بروز کرتے رہتے ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے شدید مخالف ہونے کے باوجود جمہوریت کے لئے مفاہمت کی۔ کیونکہ دونوں پارٹیاں جانتی تھی کہ طاقت کا سرچشمہ اسلام آباد کے قریب واقع ہے جہاں سے تمام چیزیں کنٹرول کی جاتی ہیں۔ عام آدمی جب نیوز ٹی وی یا نیوز پیپر پڑھتا ہے تو وہ یہی سوچتا ہے کہ اب عدلیہ کا پلڑا بھاری ہے یا اب سیاستدانوں کا یا بیوروکریسی کا ۔

لیکن 75 سالوں میں خود عدلیہ، سیاستدان اور سول بیوروکریسی راولپنڈی کے کنٹرول میں ہی رہی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کو نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدید مخالفت کے باوجود چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر دیے تاکہ بالواسطہ یا بلا واسطہ دونوں طرح سے آمریت کا دروازہ بند کر دیا جائے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے بعد ایک بار پھر جمہوریت کا آغاز ہوا۔ تمام چیزیں معمول کے مطابق چل رہی تھی۔

2013 کے الیکشن آئے تو پیپلز پارٹی نے بغیر کسی الزام کے نواز شریف کی قیادت میں نون لیگ کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایک نئے فطری سیاسی ارتقاء کا آغاز ہو چکا ہے۔ لیکن کیا معلوم تھا کہ اسلام آباد کے قریب سے ایک بار پھر چھیڑ خانی کی جائے گی۔ ایک عمرانی پروجیکٹ تشکیل دیا گیا اور پھر اس پر کام شروع ہو گیا۔ میرا اپنا احساس یہ ہے کہ خود عمران خان غیر دانستہ طور پر اس میں بہہ گئے۔ ایک دم سے نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا اور اقتدار عمران خان کے سپرد کر دیا گیا۔

تجربہ ناکام ہونے کی صورت میں دوبارہ اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب مقتدر حلقے کے سربراہ نے برملا سیاسی مداخلت کا اعتراف کیا۔ اور آئندہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا اعادہ کیا۔ یہ ایک خوش آئند بات تھی۔ عمران خان نے بھی اس سے بہت کچھ سیکھا اور خود انہی کے بیان کے مطابق کہ اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے۔ ملک اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف آئینی بحران ہے تو دوسری طرف سیاسی و معاشی بحران۔ اس سب کا ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ تمام قومی و صوبائی سیاسی پارٹیاں ایک پیج پر آ کر جمہوریت کی بالادستی کے لئے مفاہمت کر لیں۔

لیکن اس وقت پی ڈی ایم کی شکل میں ایک جماعتوں کا گروہ وجود میں آیا ہوا ہے تاہم اس میں پی ٹی آئی شامل نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کی طرف سے بار بار عمران خان کو مفاہمت کی سیاست کی دعوت دی جاتی رہی ہے تاہم بات مفاہمت کی بجائے دن بدن نفرت میں تبدیل ہو رہی ہے۔ عمران خان تاریخ سے سبق سیکھیں اور قومی سیاست کا حصہ بنیں ورنہ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ تینوں جماعتیں منہ تکتی رہ جائیں گی اور عین ممکن ہے خلائی مخلوق کی جانب سے ایک اور عمرانی پروجیکٹ کی طرح کوئی پروجیکٹ تیار ہو جائے۔ عمران خان بیانیہ بیانیہ کھیلنا بند کر دیں اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے قومی سیاست کا حصہ بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments