سیاسی کارکنان کی زمہ داریاں


پاکستان کے مجودہ سیاسی حالات کو دیکھا جائے تو ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اٹھ کر کسی بھی طرح کی تحریک شروع کر دیتی ہے۔ جس پر اس کے کارکنان بنا سوچے سمجھے عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ ان کے زیادہ تر عمل شعور اور منطق سے بلکل عاری نظر آتے ہیں۔

 نسل در نسل سیاسی جماعتوں پر قابض نام نہاد لیڈران اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر کوئی بھی نعرہ بلند کر دیتے ہیں اور پھر ان کے کارکنان اپنے اپنے لیڈر کو حق ثابت کرنے کے لیے ہر طرف ہنگامہ برپا کرتے نظر آتے ہیں۔
سیاسی کارکنان کی تربیت کے لیے کوئی بھی جماعت کسی بھی طرح کی کوشش کرتی دیکھائی نہیں دیتی۔ اور یہی بات ان کے حق میں بھی ہے۔ اگر کارکن ان کے نعاروں اور تحریکوں پر غور کرنا شروع کر دیں۔ ان پر تحقیق کر کے عمل کریں، کہ آیا یہ بات عوام کے مفاد میں ہے یا کوئی پارٹی یا اسکا لیڈر اپنے ذاتی مفاد کے لیے کر رہا ہے تو شاید بہت سی جماعتیں اپنی طاقت کھو بیٹھیں۔
اسی لیے تمام سیاسی جماعتیں صرف انہی کارکنوں کو ٹکٹ اور عہدوں سے نوازتے نظر آتی ہیں جو ان کی ہر کال پر نہ صرف خود لبیک کہیں بلکہ کسی بھی شرط پر اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ بندے لے کر ان کی طاقت میں اضافہ کریں۔
میں اپنے اس بلاگ میں اپنے ہموطنوں کی توجہ اس اہم موضوع کی طرف دلوانا چاہی ہے۔ اور ساتھ ہی اپنی طرف سے ایک کوشش کے طور پر سیاسی کارکنانِ بارے اپنی رائے پیش کی ہے۔ جس سے اتفاق اور اختلاف کا آپ کا حق ہے۔
حکومت چاہیے کوئی بھی ہو اسکا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کے باشندوں کو تعلیم ، صحت، روزگار، آزادی اظہار رائے، سمیت دیگر تمام بنیادی حقوق برابری کی بنیاد پر فراہم کرے۔ ایسے میں اگر کوئی حکومت اپنے فرائض میں کوتاہی برتے تو اس کے مواخذے کے لیے ملک میں اپوزیشن جماعتیں عوام کے حق کہ لیے ہر متعلقہ فورمز پر آواز اٹھاتے ہیں۔
اگر ان فورمز پر شنوائی نہ ہو تو سیاسی جماعتیں عوامی تحریک شروع کرتی ہیں۔ جن کو کامیاب بنانے کے لیے سیاسی کارکن ہر جماعت کی اہم ضرورت ہوتے ہیں۔ یہ کارکنان رضاکارانہ طور پر اپنی جماعت کے لیے کام کرتے ہیں۔ جماعت کا بیانہ نچلی سطح تک پہنچنے کے لیے، چھوٹے بڑے اکٹھ سے لے کر مرکزی جلسے جلوسوں میں خود بھی شامل ہوتے ہیں اور باقی لوگوں کو بھی قائل کر کے تحریک کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرتے۔
ایک اچھا اور حقیقی سیاسی کارکن لوگوں کے ساتھ عزت و اخترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بہتر تعلقات قائم کرتا ہے۔ ذاتی مفادات سے ہٹ کر لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے۔
 اپنی بات کو بہتر انداز میں کہتا اور لوگوں کی بات کو خندہ پیشانی سے سنتا ہے۔ اس میں تحمل اور تعاون کی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ عوام کو اس کی جماعت کی کن باتوں کا علم ہے اور کن باتوں کو جاننا چاہیے۔اپنی پارٹی کے بارے میں عوام کی رائے کا اخترام کرتا ہے۔ ان کے مسائل سے پارٹی قیادت کو آگاہ کرتا ہے۔
سیاسی کارکن کے لیے سیاسی اور قانونی مسائل کا جاننا بہت اہم ہوتا ہے۔ اسے قانون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ ہر مسئلے کا حل قانونی اور سیاسی پراسس پر عمل کر کے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے کبھی بھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔
جہاں سیاسی کارکن اپنی مخالف جماعتوں کی ہر غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر سماجی حرکت پر آواز اٹھاتا ہے۔ وہاں ہی اسے اپنی جماعت کے اندر بھی ایسے عمل پر آواز اٹھانی چاہیے۔
سیاسی کارکن کے نزدیک ریاست اور اسکا قانون سب سے اہم ہونا چاہیے۔ اگر اسکی اپنی جماعت بھی اس کی خلاف ورزی کرے تو اسے پارٹی کے اندر ضرور آواز اٹھانی چاہیے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت خود احتسابی کے عمل کو رد کر کے کامیاب نہیں ہوسکتی۔
کسی بھی جماعت کے کارکنان جتنے تعلیم یافتہ، با شعور اور حالاتِ حاضرہ سے با خبر ہوں گئے، اتنے ہی اچھے طریقے سے اپنی جماعت کا موقف عوام کے سامنے پیش کر کے انکی کامیابی یقینی بنائیں گئے۔
آج کا بہتر سیاسی کارکن ہی کل کا بہترین رہنما ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments