انتخابات کے لیے شرائط عائد کرنا نامناسب ہے


مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے گزشتہ روز ساہیوال میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انتخابات کو نواز شریف کی بریت اور عمران خان کی سزا سے مشروط کیا ہے۔ ملک میں بظاہر ایک آئینی حکومت قائم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انتخابات کا انعقاد اور حکومت کا چناؤ اسی دستاویز میں درج شدہ طریقہ کار کے مطابق ہونا چاہیے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی پارٹی کا کوئی لیڈر سیاسی مقاصد کے لئے آئینی تقاضوں سے انحراف کا اعلان کرے۔

شہباز شریف نہ صرف اس ملک کے وزیر اعظم ہیں بلکہ وہ مسلم لیگ (ن) کے صدر بھی ہیں۔ اس لئے ان پر یہ بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مریم نواز کے بیان کی وضاحت کریں اور عوام کو بتائیں کہ کیا ان کی پارٹی نے آئینی طریقوں سے گریز کر کے، دباؤ کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مریم نواز کا ’دکھ‘ تو سمجھا جاسکتا ہے لیکن ایک سیاسی لیڈر کے طور پر انہیں ملکی آئین، جمہوری اصولوں اور انتقال اقتدار کے پرامن طریقوں سے گریز کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ تصویر کا یہ رخ بھی قابل فہم ہے کہ عمران خان کی جارحانہ سیاسی حکمت عملی کا توڑ کرنے کے لئے اب مریم نواز کو میدان میں اتارا گیا ہے تاکہ وہ انہی کے لب و لہجہ میں بات کر کے ریاستی اداروں کو دباؤ میں لائیں۔ اور اس طرح ایک خاص گروہ، خاندان یا پارٹی کے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے راستہ ہموار کریں۔

اگر قوم اور ملکی نظام نے عمران خان کی طرف سے دھونس و دباؤ کی حکمت عملی کو قبول نہیں کیا تو مریم نواز کو بھی جان لینا چاہیے کہ ان کی مہم جوئی بھی رائیگاں جائے گی۔ اس وقت پاکستان کو سنگین مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ پریشانی مالی معاملات سے لے کر شدت پسندی، دہشت گردی، انارکی اور سیاسی ماحول میں شدید کشیدگی تک میں دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان حالات میں ماحول میں آسانی پیدا کرنے اور سیاسی لیڈروں میں دوریوں کو قربت میں بدلنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اگر ضد اور انا کے زعم میں کردار کشی کے ہتھکنڈوں سے ہی فریق مخالف کو زیر کرنے کی کوششیں جاری رہیں تو سیاسی لیڈروں پر عوام کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملکی سیاست کو ایک خاص ڈھب سے چلانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ انہی کوششوں کے نتیجہ میں عمران پراجیکٹ، باجوہ ڈاکٹرائن یا ففتھ جنریشن وار جیسی اصطلاحات کے نام پر ملک پر ایک ایسا نظام مسلط کرنے کی کوشش کی گئی جس میں ایک پارٹی یا فرد واحد کی حکومت قائم ہو، جسے جمہوری نظام کا نام دیا جائے لیکن درپردہ فوج ہی کو ڈوریاں ہلانے اور فیصلے کرنے کا حتمی اختیار حاصل ہو۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔ عمران خان اور فوج کے درمیان خواہ کسی بھی وجہ سے تنازعات کا آغاز ہوا ہو لیکن اب یہ فاصلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ شاید پرویز الہیٰ اور شیخ رشید جیسے لوگوں کی کوششیں بھی عمران خان اور فوج کو ایک پیج پر نہ لا سکیں۔ فوج نے ’غیر سیاسی‘ ہونے اور خود کو اپنے آئینی کردار تک محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان بھی سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہی کرتے رہے ہیں۔ البتہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ایسے دعوے کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا بلکہ اپنے عمل سے فوج کو سیاسی منظر نامہ سے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ حکمت عملی قابل تعریف ہے اور ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو اس راستے پر فوج کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

تاہم پہلے عمران خان کی پرجوش اور احتجاجی سیاست اور اب مریم نواز کے طرز تکلم سے واضح ہو رہا ہے کہ ملکی سیاست دان خود ہی فوج کو ’غیر سیاسی‘ نہیں دیکھنا چاہتے۔ ملکی سیاست و جمہوریت کے لئے یہ افسوسناک صورت حال ہے۔ بظاہر اپوزیشن پارٹیوں نے آرمی چیف کے طور پر عمران خان کی مرضی کا جنرل مسلط ہونے کے خوف کی وجہ سے باہم اتحاد کیا تھا اور تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروائی گئی تھی۔ لیکن اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو سابق آرمی چیف کی طرف سے کسی حد تک تعاون فراہم کیا گیا تھا۔ خواہ اس کی نوعیت صرف اتنی ہی رہی ہو کہ فوج نے تحریک انصاف کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کو بدستور عمران خان کا دست و بازو بنے رہنے کی ہدایت نہیں کی۔ تاہم یہ مان لینے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہو یا شہباز شریف کی قیادت میں حکومت کا قیام، ان دونوں مراحل میں فوجی قیادت کسی حد تک سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی رہی تھی۔ مریم نواز کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری بھی اس وقت عدلیہ پر شدید نکتہ چینی کر رہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی ماضی قریب کی تاریخ کا حصہ ہے کہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اگر سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر آئین کی شق 184 ( 3 ) کے تحت کارروائی نہ کرتے تو عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو وزارت عظمی سے ہٹانا ممکن نہ ہوتا۔ گویا تبدیلی اقتدار میں ہر اس کردار نے حصہ ڈالا جو اس سے پہلے بھی ماورائے آئین اقدامات ہی کے ذریعے ملکی سیاست کا حلیہ بگاڑنے میں ملوث رہے ہیں۔

اتحادی پارٹیوں کے لئے عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنا ہی اگر بنیادی مقصد ہوتا تو قاسم سوری کی رولنگ کے بعد جیسے قومی اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو اسے قبول کر لیا جاتا اور سپریم کورٹ سے درخواست کی جاتی کہ سوموٹو سے سیاسی فیصلے نافذ کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ جمہوری عمل کو آگے بڑھنے دیا جائے۔ اگر اس طریقہ میں اتحادی پارٹیوں کو اپنی ہیٹی محسوس ہوتی تھی تو عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف وزیر اعظم بننے کے بعد اسمبلی توڑنے اور انتخابات کا اعلان کر دیتے۔ اس طرح نہ تو تحریک انصاف کی ناکام پالیسیوں کا ملبہ اتحادی حکومت کو اٹھانا پڑتا اور نہ ہی عمران خان کو سازشی نظریہ کی بنیاد پر قومی سطح پر بداعتمادی اور نفرت عام کرنے کا موقع ملتا یا دوست ممالک کو ملکی سیاست میں گھسیٹ کر پاکستان کی مشکلوں میں اضافہ کرتے۔ اب شہباز شریف خود اور ان کی کابینہ کا ہر رکن موجودہ مشکلات کو عمران خان اور تحریک انصاف کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ حالانکہ یہ بوجھ ان پارٹیوں نے بخوشی اٹھانے کا اقدام کیا تھا۔ اب انہیں اتنی ہی خوشی سے ان مسائل کا سامنا بھی کرنا چاہیے۔ یوں بھی اتحادی حکومت کو اب اقتدار میں ایک سال ہو چکا ہے۔ تجزیہ نگار اس ایک نکتہ پر تو متفق دکھائی دیتے ہیں کہ موجودہ حکومت کسی بھی شعبہ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔

حکومت کے طرز عمل کے بعد اب مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اتحادی جماعتیں انتخابات کا سامنا کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد خاص طور سے اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر بھی سو موٹو نوٹس لیا ہے اور اس کا فیصلہ بھی بدھ کی صبح تک سنا دیا جائے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ فیصلہ کیا ہو گا، حکومت اور مسلم لیگ (ن) کا یہ طریقہ ناقابل قبول ہے کہ وہ ماضی کی نا انصافیوں یا غلط فیصلوں کو عذر بنا کر ملک میں جمہوری عمل کو مسدود کرنا چاہتے ہیں۔ سرگودھا میں مریم نواز کی تقریر کے بعد پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ پر خواجہ محمد آصف کی گولہ باری، اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ اب مریم نواز مطالبہ کر رہی ہیں کہ پہلے ان کے والد نواز شریف کو ’انصاف‘ دلایا جائے اور ان کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے واپس لے کر سب سیاسی جماعتوں کے لئے مساوی مواقع کا اہتمام کیا جائے۔ بلکہ ساہیوال میں تو انہوں نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف نواز شریف کی بریت کا مطالبہ کیا ہے بلکہ اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ جو سلوک ماضی میں نواز شریف کے ساتھ روا رکھا گیا تھا، ملکی عدلیہ اب اسی طریقے سے عمران خان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجے۔ مریم نواز اگر یہ مطالبہ کرتے ہوئے کوئی قانونی راستہ بتاتیں تو بھی اس بیان کو قبول کیا جاسکتا تھا لیکن ان کی تقریر میں دباؤ اور دھمکی کا عنصر واضح طور سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے دو باتیں بالکل واضح ہونی چاہئیں :

ایک تو یہ کہ اگر نواز شریف کو غلط طور سے سزا دی گئی تھی یا ناجائز طور سے ان پر پابندیاں عائد ہوئی تھیں، پھر بھی یہ طریقہ ملکی آئین کے فریم ورک میں رہتے ہوئے اختیار کیا گیا تھا۔ عدالتی فیصلوں پر کون سے پس پردہ کردار اثر انداز ہوئے تھے، قانونی مطالبہ کرتے ہوئے انہیں دلیل کے طور پر استعمال کرنا ممکن نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) یا ان کے حلیف اگر نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ’نا انصافی‘ کا ازالہ چاہتے ہیں تو انہیں پارلیمنٹ میں قانون سازی یا آئینی ترامیم کے ذریعے ہی اس کا راستہ ہموار کرنا پڑے گا۔ موجودہ پارلیمانی منظر میں تو یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ نئے انتخابات ہوں اور سیاسی پارٹیاں عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر مناسب ترامیم کریں تاکہ سپریم کورٹ کو مستقبل میں ’من چاہے‘ فیصلے ٹھونسنے سے روکا جا سکے۔

دوئم: ماضی میں اگر نواز شریف کے ساتھ ملکی عدلیہ نے زیادتی کی تھی تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہو سکتا کہ اب عمران خان کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔ بلکہ ایک سیاسی لیڈر کی طرف سے اس کا مطالبہ کیا جائے۔ یہ مضحکہ خیز اور ناقابل قبول سیاسی رویہ ہو گا اور اس طرز عمل کے ملک میں آئینی و جمہوری طرز حکمرانی پر ناگوار اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ عمران خان بھی نواز شریف کی طرح ایک مقبول سیاسی لیڈر ہیں۔ ان کی سیاست کا راستہ روکنے کے لئے قانون یا عدلیہ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی لئے ہر ہوشمند پاکستانی حکومت سے تقاضا کرتا ہے کہ عمران خان کو مقدموں میں پھنسانے یا گرفتار کرنے کی بجائے، سیاسی حکمت عملی سے ان کا مقابلہ کیا جائے۔ مریم نواز سے بھی یہی توقع کی جاتی ہے۔

مریم نواز نے سیاسی تقریروں میں جو شعلہ بیانی شروع کی ہے، یہ عمران خان کے طریقہ کا چربہ محسوس ہوتی ہے۔ مریم نواز کو سیاست میں اپنی جگہ بنانے کے لئے مختلف اور بہتر طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستانی عوام تصادم اور انتشار کی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ مریم نواز ذمہ دارانہ مدلل طرز بیان اختیار کر کے عوام میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش نہیں کرتیں۔ ان کا موجودہ طریقہ نہ صرف ان کی سیاست بلکہ ذاتی طور پر خود ان کے لئے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ سرگودھا میں کی گئی تقریر میں ججوں کو نشانہ بنانے پر ایک سابق اٹارنی جنرل پہلے ہی چیف جسٹس کو مکتوب لکھ چکے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ اس پر کوئی کارروائی کرتی ہے تو ملکی سیاست میں ایک نیا طوفان رونما ہو سکتا ہے۔ سب سیاسی لیڈروں کو ایسی مہم جوئی سے گریز کرنا چاہیے۔ ملکی سیاست اب مزید جھٹکوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments