بیوہ کا نکاح اور پدر شاہی معاشرہ


ہمارے دادا جب عالم بالا کو سدھارے تو اس وقت ہماری ایک دادی کی عمر پینتیس سال اور دوسری کی عمر سینتیس کے قریب تھی۔ اگر دادا جی مزید ایک ہفتہ جیتے تو اپنے پیچھے دو نہیں تین بیوائیں چھوڑ جاتے کہ اسی ہفتے وہ ”سنت“ کو پورا کرتے ہوئے تیسرا نکاح کر رہے تھے مگر اجل نے مہلت نا دی۔ دادا کو رخصت ہوئے چالیس برس بیت چکے ہیں پندرہ برس ہوئے ہماری بڑی دادی ان کے پاس پہنچ چکی ہیں۔ چھوٹی دادی پچھتر سال کی عمر میں ایک صحت مند اور چست زندگی گزار رہی ہیں۔

ہماری ایک پھوپھو بیس سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں اور چالیس سال کی عمر میں انہوں نے دوسرا نکاح کیا۔ اس نکاح کے بدلے انہوں نے اپنے رشتے داروں اور ہمسایوں کا جو رویہ برداشت کیا وہ ان کی ہی ”ہمت“ ہے۔ ہم ان کی جرات اور بہادری کو سلام پیش کرتے ہیں۔

ہماری دوسری پھوپھو تیس سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں اور بیوگی کے دوسرے سال انہوں نے اپنی مرضی سے بنا کسی کی اجازت اور رضامندی کے نکاح کر لیا۔ اس کا تاوان وہ بہن بھائیوں کی ناراضگی اور قطع تعلق کی صورت میں ادا کر رہی ہیں۔ اگر دادا کی جائیداد وراثتی تقسیم کے بعد ان کے حصے میں نا آتی تو شاید اس سے بھی ”عاق“ کر دی جاتیں۔

ہماری خالہ جو خالو کے انتقال کے بعد پچھلے پندرہ سال سے بیوگی کاٹ رہی ہیں وہ بقیہ زندگی ایسے ہی گزاریں گی کہ ”سماج اور رواج“ دونوں ہی دوسری شادی کی پذیرائی نہیں کرتے۔

اوپر بیان کردہ کہانیاں ان خواتین کی ہیں جو سماج اور رواج کے خوف سے اپنی آدھی زندگی بیوگی میں گزار چکی ہیں۔ اپنی اولاد کے نام پر تنہا زندگی گزارنے والیوں کی اولاد اپنی اپنی زندگیوں میں اس قدر مصروف ہے کہ وہ آج بھی ”تنہا“ ہیں۔ اور جنہوں نے سماج اور رواج سے بغاوت کی وہ اس کی ”سزا“ کاٹ رہی ہیں۔

دوسری طرف کچھ مردوں کی کہانیاں ہیں۔ پہلی کہانی ہماری کولیگ کے بہنوئی کی ہے جن کی بیوی شادی کے ایک سال بعد ”پہلے بچے“ کو جنم دیتے ہی سوئے عدم روانہ ہوئیں اور اس بچے کی خاطر انہوں نے بیوی کے مرنے کے ایک ماہ بعد دھوم دھام سے دوسری شادی رچا لی۔

دوسری کہانی ہمارے خالو کی ہے، ہماری سب سے چھوٹی خالہ پینتالیس سال کی عمر میں اچانک دل کے رک جانے سے جنت مکانی ہوئیں۔ گھر کو سنبھالنے کے لئے ان کے بڑے بیٹے کی شادی ایک ماہ بعد کر دی گئی۔ بیس سال کے لڑکے کی شادی اٹھارہ سالہ لڑکی سے ہوئی۔ ٹھیک ایک ماہ بعد ہمارے کزن بھی اپنی ماں کے پاس چل دیے۔ اب جوان بیوہ کو عدت کے بعد اس کے والدین گھر لے گئے اور ہمارے خالو نے اس بار گھر سنبھالنے کے لئے اپنی شادی کا فیصلہ کیا۔ جس میں ہمارے پورے خاندان نے بخوشی ان کا ساتھ دیا اور دھوم دھام سے ان کی شادی کر دی گئی۔

ہماری ایک کزن پچھلے سال اپنے بیٹے کو جنم دے کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں۔ تیس سال کی عمر میں جانے والی اپنے پیچھے پانچ بچے اور ایک شوہر کو سوگوار چھوڑ گئی۔ اور شوہر کو بچے سنبھالنے کے لئے ایک نئی عورت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اور پانچ بچوں کے ساتھ کوئی کنواری لڑکی نا ملنے پر ان کی شادی ہماری کزن کی چھوٹی بہن سے کر دی گئی۔ یہ نکاح سادگی سے ہوا صرف اس لئے کہ دلہن بچوں کی خالہ تھی ورنہ کس مرد نے دوسری شادی سادگی سے کی ہے؟

ہمارے ارد گرد بہت ساری ایسی مثالیں ہیں جہاں لڑکی یا عورت بیوہ ہوئی تو مرنے والے کے ساتھ اس کی تمام خوشیوں کو زندہ درگور کر دیا گیا۔ ہماری بہت ساری کزن تیس سال کی عمر سے پہلے بیوہ ہوئیں اور آج بھی بیوگی کاٹ رہی ہیں۔

ہمارا خاندان بہت دقیانوسی نہیں لیکن سماج اور رواج کے ہاتھوں مجبور ہے۔ ہماری ایک پھوپھو اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں اور ٹھیک دو سال بعد جب ان کے بیٹے نے ماں کا دودھ چھوڑا تو ان کے سسر نے ان کا نکاح کر دیا۔ یہ پہلی مثال تھی جہاں بیوہ کا نکاح پوری رضا مندی سے ایک کنوارے لڑکے سے بخوشی کیا گیا اور وہ لڑکا ان کا ”دیور“ بھی نہیں تھا۔ اور آج پھوپھو اپنی پھوپھو کے گھر بھر پور زندگی گزار رہی ہیں۔ باقی ساری بیوائیں اس لئے ”تنہا“ زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں کہ پرائے بچوں کی ذمہ داری بہت بھاری ہے۔ اور اگر کوئی ”جگرے والا“ کسی بیوہ سے شادی کی خواہش کرتا ہے تو بچوں کو قبول کرنے سے اس کی مردانگی پر حرف آتا ہے۔

پدر شاہی نظام میں مطلقہ عورت کے ساتھ بھی کم و بیش یہی رویہ اپنایا جاتا ہے۔ طلاق میں قصور وار جو بھی ہو، سزا عورت کا مقدر ہے

ہمارے معاشرے میں پدر شاہی نظام اس قدر مضبوط ہے کہ مرد کو ہر صورت دوسری چھوڑ تیسری شادی کی بھی اجازت ہے۔ مگر عورت یا لڑکی جس عمر کی بھی ہو اگر وہ بد قسمتی سے ”بیوہ“ ہو جائے تو باقی ماندہ زندگی بچوں کے نام پر زندہ درگور کر دی جاتی ہے۔ اور وہ سماج جس کے خوف سے اس کی زندگی بے رنگ کر دی جاتی ہے پلٹ کر پوچھتا بھی نہیں کہ بیوہ اپنے بچوں کے ساتھ کس طرح زندگی بسر کر رہی ہے۔

وہ معاشرہ جہاں مرد کو اپنی خواہشات پوری کرنے کے لئے دوسری شادی کی سہولت اور مذہب کی اجازت ہے، وہاں بیوہ کے نکاح پہ اتنی پابندی کیوں؟

کیا مذہب مرد کو ”چار“ شادیوں کی اجازت اس کے نفس کی لذت حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے؟

جس مذہب کا حوالہ دے کر مرد کو چھوٹ دی گئی ہے وہی مذہب عورت کو بھی دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے پورے احترام کے ساتھ۔ اگر آپ ”پدر شاہی“ کی پیداوار ہیں اور سنت پہ عمل کے خواہاں ہیں اور آپ کے پاس وسائل موجود ہیں تو دوسری شادی ضرور کیجیئے، لیکن بیوہ کے ساتھ۔ اس کے بچوں کے ساتھ اس کو قبول کیجئے اسی طرح جیسے ایک عورت پرائے بچوں کو قبول کرتی ہے۔ سنت پر عمل کرنا ہی ہے تو پوری طرح کریں۔ کہ جو مذہب آپ کو سہولت دیتا وہ مذہب عورت کو بھی برابر کی سہولت میسر کرتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو ایک بار سنت دہرانے سے پہلے سنت کا تفصیل سے مطالعہ کر لیجیے۔ امید ہے پدر سری معاشرے میں ”عورت“ کو اپنی زندگی جینے کا حق مل جائے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments