متفقہ دستور کی حکایتِ بےکراں


بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی دستورسازی کا عمل اور ساتھ ہی ساتھ اپنی عوامی طاقت کی ہیبت بٹھانا شروع کر دی تھی۔ اُنہوں نے قومی اسمبلی سے مارشل لا میں توسیع کی منظوری لے لی اور اُس کے بل بوتے پر قومی اسمبلی سے ایک عارضی دستور کی منظوری حاصل کر لی جو جمہوری تھا نہ پارلیمانی اور نہ وفاقی۔ حکومت اور اَپوزیشن کے درمیان ایک سمجھوتے کے نتیجے میں نئے آئین کے بنیادی اصول طے کرنے کے لیے 25 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے صدر جناب محمود علی قصوری تھے اور اَپوزیشن سے پانچ ممتاز ارکانِ اسمبلی لیے گئے جنہوں نے بنیادی اصولوں پر مبنی ایک اچھی دستاویز تیار کر لی۔ دوسری طرف صدر بھٹو اَپنے سیاسی حریفوں کو دِیوار سے لگانے میں پوری طرح سرگرم تھے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستیں دو دَرجن سے بھی کم تھیں، اِس لیے وہ حکومت کی من مانیاں روکنے میں بڑی حد تک غیرمؤثر ثابت ہو رَہی تھی۔ اُس وقت قومی اسمبلی میں مولانا شاہ اَحمد نورانی بڑے فعال تھے۔ اُنہوں نے ایک روز اَپوزیشن کی تمام جماعتوں کی کانفرنس بلانے کا اعلان کر دیا جس کا مقصد اُن سیاسی جماعتوں کو بھی اتحاد کے رشتے میں پرونا تھا جن کی نمائندگی قومی اسمبلی میں نہیں تھی، مگر عوام کے اندر اُن کا اثرورسوخ موجود تھا۔
اپوزیشن کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کی بنا پر مَیں کانفرنس کا جائزہ لینے اسلام آباد پہنچ گیا۔ خوش قسمتی سے ہمارے ننھے منے قافلے میں روزنامہ ‘وفاق’ کے ایڈیٹر جناب مصطفیٰ صادق اور پنجاب یونیورسٹی کے لا کالج کی سٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر جناب جاوید نواز بھی شامل تھے۔ ہمارے سیاسی مرشد مولانا ظفر احمد انصاری آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اُنہوں نے پارلیمنٹ کے ہاسٹل میں ایک اضافی کمرہ اَلاٹ کرا رَکھا تھا جس میں اکثر ہمارا قیام رہتا۔ اُسی ہاسٹل میں جناب خان عبدالولی خاں، جناب سردار شوکت حیات، جناب مولانا شاہ اَحمد نورانی، جناب شیرباز خاں مزاری اور جناب غوث بخش بزنجو بھی قیام کرتے اور اُن سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا۔
مولانا شاہ اَحمد نورانی نے کانفرنس کی کال تو دے دی تھی، مگر اُس کی کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ سیاسی جماعتوں کے اکابرین ظہور الٰہی ہاؤس میں جمع ہوتے اور نشستند، گفتند، برخاستند کی تصویر بنے نظر آتے۔ دو تین روز یہی عمل جاری رہا۔ عوامی حلقوں میں تشویش پیدا ہوئی کہ اِس طرح تو اَپوزیشن کی ہوا اُکھڑ جائے گی۔ مولانا انصاری نے مجھے مشورہ دِیا کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنے انداز میں ایک اعلامیہ تیار کرو۔
مَیں نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا اور لکھنے بیٹھ گیا۔ پہلے ملکی صورتِ حال کا تجزیہ کیا اور ”اعلانِ اسلام آباد” کے عنوان سے اپوزیشن کا ایجنڈا ضبطِ تحریر میں لے آیا۔ رازداری قائم رکھنے میں جناب جاوید نواز بہت کام آئے۔ اُنہوں نے اپنے ٹائپ رائٹر پر مسودّہ ٹائپ کیا جو اَپنے ساتھ لائے تھے۔ ٹائپ شدہ دَستاویز مولانا ظفر احمد انصاری کی خدمت میں پیش کی گئی۔ اُنہوں نے فرمایا آپ لوگوں نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اُن کے حوصلہ افزا اَلفاظ سے ہماری ہمت بندھی، چنانچہ وہ تحریر پروفیسر غفور اَحمد کی تحویل میں دے دی گئی۔ اُنہوں نے کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُسے ایک غیرمعمولی دستاویز قرار دِیا۔ اُس کی نقول سیاسی جماعتوں کے قائدین میں تقسیم کی گئیں۔ جناب عبدالولی خاں نے ‘مسلم قومیت’ کو ‘پاکستانی قومیت’ سے تبدیل کرنے کا مشورہ دِیا جو اِتفاقِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔ سیاسی اکابرین نے 13 مارچ کے اجلاس میں اِس بڑی تنظیم کا نام ”متحدہ جمہوری محاذ” رکھا جس کے صدر پیرپگاڑا اَور سیکرٹری جنرل پروفیسر غفور اَحمد چُنے گئے۔ یہ بھی طے پایا کہ عوامی مطالبات کے حق میں پہلا جلسہ 23 مارچ کو لیاقت باغ، راولپنڈی میں ہو گا۔ گوجرہ سے قومی اسمبلی کے رکن جناب حمزہ کو ”اعلانِ اسلام آباد” صحافیوں کو ڈکٹیٹ کرانے کی ذمےداری سونپی گئی۔ مَیں اُس وقت اُن کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ اُنہوں نے میرے کان میں کہا کہ اِس تحریر سے اردو ڈائجسٹ کی خوشبو آ رہی ہے۔
جلسے کا اعلان مسٹر بھٹو کی طبع نازک پر بہت گراں گزرا اَور اُنہوں نے اُسے درہم برہم کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ ہمیں اِس کا علم ہوا، تو گورنر پنجاب ملک غلام مصطفیٰ کھر سے رابطہ قائم کیا جو اِتفاق سے اُس وقت راولپنڈی ہی میں تھے۔ وہ بھی متفقہ دستور کی منظوری کے سلسلے میں ہمارے ساتھ درپردہ تعاون کر رہے تھے۔ اُنہوں نے یقین دلایا کہ وہ مسٹر بھٹو سے اِس مسئلے پر بات کریں گے۔ غالباً اُن کی بات نہیں مانی گئی اور جہلم سے قومی اسمبلی کے پُرجوش ممبر ڈاکٹر غلام حسین کو اَپوزیشن کے جلسے پر یلغار کرنے کی ذمےداری سونپی گئی، چنانچہ جہلم سے بھری ہوئی بسیں آئیں اور لیاقت باغ میں یکایک گولیاں چلنے لگیں۔ نیپ اور جمعیت علمائے اسلام کے سینکڑوں کارکن زخمی ہوئے اور دَرجنوں موت کی آغوش میں چلے گئے۔ دونوں جماعتوں کے ورکر اَپنے قائدین پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے کہ پورے شہر میں لاشوں کے ساتھ گشت کیا جائے تاکہ حکومت کے خلاف عوام کے جذبات بھڑک اٹھیں، مگر جناب عبدالولی خاں اور مولانا مفتی محمود نے کمال تحمل اور تدبر سے کام لیا اور وُہ خاموشی سے تمام لاشیں پشاور لے گئے اور اُنہیں کسی احتجاج کے بغیر سپردِ خاک کر دیا۔ حکومت کے اِس خونخوار اَقدام سے اپوزیشن میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ اِس سے قبل فروری میں سردار عطاء اللّٰہ مینگل کی حکومت غیرقانونی طور پر ختم کر دی گئی تھی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دسمبر 1972ء میں حکومت نے غالب اکثریت کے بل بوتے پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کی ساری ترامیم مسترد کر دی تھیں جس پر اُس نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اِن حالات میں 14؍اپریل کی تقریب میں دونوں چھوٹے صوبوں کے نمائندوں کی شرکت اور دَستور پر دستخط ثبت کرنے کا ہر اِمکان ختم ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
پھر متفقہ دستور کیسے منظور ہوا، اِس کی داستان عظیم بھی ہے اور پُراسرار بھی جس کا پاکستان کے قیام اور اِس کے بعد کی پُرعزم اور جاں گسل قومی جدوجہد کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ اِس آئینی سفر کی تفصیلی روداد آئندہ کالموں میں تفصیل سے بیان کی جائے گی۔ آپ خود آئین بنتا دیکھیں گے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments