خرخوشی انصاف اور لنگڑا چور


بعض افراد، ان کا رویہ ضرب المثل کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور یہ ضرب المثل یا تو خوبی کا احاطہ کیے ہوئے ہوتی ہے یا خامی کا اعلان کر رہی ہوتی ہے۔ نوشیرواں عادل کی انصاف کی کیفیت آج بھی ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح مصر میں بہا الدین الاسدی خرخوش حاکم قاہرہ کی بے انصافی بھی ایک ضرب المثل بن چکی ہے۔ اور وہاں جہاں کہیں بھی بے انصافی نظر آئے تو کہا جاتا ہے کہ یہ خرخوش کا انصاف ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ایک چور کسی گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوا گھر میں داخل ہونے کے لئے وہ دیوار پر چڑھ گیا اور وہاں سے آگے جانے کے لیے ایک کھڑکی کو گزرگاہ قرار دیتے ہوئے اس کھڑکی کو کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔

کھڑکی پرانی تھی کھولنے کی کوشش میں بجائے کھلنے کے ٹوٹ کر گر پڑی۔ چور اس کے ہی سہارے سے کھڑا تھا لہذا دھڑام سے نیچے گر پڑا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اگلے روز چور لنگڑاتا ہوا خرخوش کے دربار میں پہنچا اور اس سے کہا کہ میں ایک چور ہوں۔ گزشتہ شب ایک گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوتے ہوئے ایک کھڑکی کو کھول رہا تھا کہ وہ کھڑکی ٹوٹ کر گر پڑی اور میں گر پڑا کے جس سے میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ مجھے انصاف چاہیے۔

خرخوش کے تن بدن میں آگ لگ گئی اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ مالک مکان کو حاضر کرو وہ گئے اور بیچارے مالک مکان کو پکڑ کر لے آئے۔ خرخوش نے مالک مکان سے غصے میں پوچھا کہ تم نے اتنی کمزور کھڑکی کیوں لگائی کہ جس سے چور کو یہ حادثہ پیش آ گیا؟ اب مالک مکان ہکا بکا رہ گیا کہ چور کو سزا دینے کی بجائے یہ کیا افتاد میرے سر پر آن پڑی ہے۔ کچھ کہتا ہوں تو توہین ہو جاتی ہے اور توہین پر سزا دینے کا جس کو اختیار ہوتا ہے وہ تو پھر جو چاہے کر سکتا ہے۔ بس یہی سوچ کر اس نے خرخوش سے کہا کہ حضور یہ میرا قصور نہیں ہے بلکہ میں نے تو بڑھئی کو پوری مزدوری ادا کی تھی مگر اس نے ہی کمزور کھڑکی بنائی ہے۔
اچھا یہ بات ہے؟ خرخوش نے بڑھئی کو پیش کرنے کا حکم صادر کر دیا بڑھئی کو سامنے لا کھڑا کر دیا گیا۔

خرخوش نے غضبناک ہو کر پوچھا کہ تم نے اتنی کمزور کھڑکی کیوں بنائی کہ جس کی وجہ سے چور کی ٹانگ ٹوٹ گئی؟ بڑھئی ایک سمجھدار انسان تھا جانتا تھا کہ اس سے بحث کرنے یا سمجھانے کا فائدہ ہونے کی بجائے الٹا نقصان ہو گا کیونکہ یہ اس وقت طاقت کے نشے میں دھت بیٹھا ہے اور اس کے لیے انصاف فراہم کرنا ایک کھیل تماشے سے زیادہ نہیں ہے۔ لہذا بولا کے حضور والا غلام کی کوئی تقصیر نہیں جب میں کھڑکی میں کیلیں پیوست کر رہا تھا تو ایک خوبصورت عورت سرخ رنگ کے کپڑے زیب تن کیے وہاں سے گزر رہی تھی میں اس کو دیکھنے میں اتنا محو ہو گیا کہ کیلیں درست انداز میں نہ لگا سکا۔

اب تو خرخوش کا غصہ اور بڑھ گیا کہ اصل ”قصور وار“ کا تعین نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے حکم دیا کہ اس عورت کو فوری طور پر گرفتار کر کے حاضر دربار کیا جائے عورت کو فوری طور پر حاضر دربار کر دیا گیا۔ خرخوش نے اس سے استفسار کیا کہ تم اتنی خوبصورت کیوں ہو اور اس دن سرخ کپڑے زیب تن کر کے کیوں باہر پھر رہی تھی؟ اگر تو اتنی خوبصورت نہ ہوتی اور اس دن سرخ کپڑے نہیں پہنتی تو بڑھئی تیری جانب متوجہ نہ ہوتا اور اگر وہ تیری جانب متوجہ نہ ہوتا تو اپنا کام دھیان سے کرتا اور کیلیں درست انداز میں لگاتا اور اس طرح سے چور کی ٹانگ نہ ٹوٹتی۔

عورت بہت سمجھدار تھی اس نے جواب دیا کہ جہاں تک میری صورت کا تعلق ہے تو وہ تو مالک حقیقی نے عطا فرمائی ہے اور اگر الزام کپڑوں پر ہے تو اس میں بھلا میرا کیا قصور؟ کیونکہ ایسے اچھے سرخ رنگ کے کپڑے رنگریز نے رنگے تھے اس میں میرا کیا قصور؟ خرخوش اس کی بات سن کر سر ہلانے لگا کہ تیرا تو کوئی قصور نہیں ہے مگر اس رنگریز کو کیا پڑی تھی وہ اتنے خوبصورت انداز میں کپڑے رنگتا کہ جس کے سبب سے چور پر یہ آفت آن پڑی۔ اس رنگ ریز کو تو ضرور بالضرور سزا سنانی ہوگی مگر سزا سنانے سے قبل اس کو صفائی کا موقع فراہم کیا جائے گا۔

رنگریز کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا گیا۔ رنگریز کو گرفتار کر کے پیش کر دیا گیا وہ بیچارہ خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ حلق سوکھ گیا اور آواز نکلنے کا نام نہیں لے رہی تھی خرخوش کے سامنے اس کو کوئی جواب سرے سے بن ہی نہیں پڑا اور خرخوش نے فیصلہ کر لیا کہ ”اصل مجرم“ یہ ہی ہے کہ جس کے سبب سے بیچارا چور اس مصیبت کا شکار ہو گیا۔ خرخوش نے زور دے کر کہا کہ انصاف ہو گا اور ضرور ہو گا۔

رنگ ریز کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی وہ لرزنے لگا اور سپاہی اس کو پھانسی دینے والے مقام تک لے گئے مگر وہاں یہ مسئلہ سامنے آ گیا کہ جس دروازے پر پھانسی لگانی تھی وہ چھوٹا تھا اور رنگریز کا قد لمبا معاملہ دوبارہ خرخوش کے حضور میں پیش کرنا پڑا۔ اس نے کہا کہ یہ کون سا مسئلہ ہے۔ جرم تو رنگریز نے ہی کیا ہے اگر اس رنگریز کا قد پھانسی دینے میں رکاوٹ ہے تو کسی مناسب قد کے رنگریز کو پکڑ لاؤ اور پھانسی دے دو تاکہ ”انصاف“ کا بول بالا ہو سکے اور یوں ”انصاف“ کا بول بالا ہو گیا۔

یہ حکایات صرف سننے سنانے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ ہر دور کو اپنے میں سموئے ہوئے ہوتی ہے اور ہر طاقت ور سے یہ تقاضا کر رہی ہوتی ہے کہ وہ نوشیرواں عادل کی مانند ایک استعارہ بننا چاہتا ہے یا خرخوش کی مانند ایک تلخ داستان۔ ویسے وطن عزیز میں بھی جسٹس کیانی مرحوم سے لے کر جسٹس بھگوان داس کی طرح کے درخشاں ستارے موجود ہیں مگر افسوس کے ان کے بر خلاف بھی مثالیں بھری پڑی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments