دنیا کی تباہی کے پانچ پیش خیمے اور ہماری غفلت


ہمارے یہاں ایسے متعدد مسائل ہیں جن پر یا تو ہماری توجہ نہیں ہوتی یا ہم قصداً انہیں نظر انداز کرتے ہیں، حالاں کہ ترقی یافتہ قومیں بہت پہلے سے ان پر غور و خوض کر کے آنے والی نسلوں کو مستقل ان سے آگاہ کرنے میں مصروف عمل ہیں، اس سلسلہ میں ہم آج ان ہی پانچ اہم مسائل پر گفتگو کریں گے، اگرچہ دونا گفتہ بہ حالات یعنی کورونا وائرس وبائی بیماری اور روس۔ یوکرین کی جنگ نے عالمی ماحولیات اور سیاسی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، لیکن کچھ اہم میگا ٹرینڈز (بڑے رجحانات) جو بحر اوقیانوس اور ایشیا پیسیفک کے درمیان دشمنی کی شکل دیتے ہیں وہ اب بھی بین الاقوامی ایجنڈے میں شامل ہیں۔

پہلا ”ہائپر سونک ڈیجیٹائزیشن“ ہے۔ جس کی بنیاد ہر چیز کا انٹرنیٹ پر ہونا ہے، اسے ایک سافٹ ویئر اور ہارڈویئر انقلاب بھی کہا جا سکتا ہے، جس کا پھیلاؤ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) سے لے کر کوانٹم کمپیوٹرز تک، ذہین آلات سے لے کر سینسرز تک، کرپٹو کرنسی سے لے کر بلاک چین تک اور پہننے کے قابل ٹیکنالوجیز اور صارف دوست ایپلی کیشن تک تقریباً ہر جگہ ہے۔

دوسرا ہے ”پائیدار ترقی اور نیا ابھرتا ہوا متوسط طبقہ“ جس میں خاص طور پر ایشیا اور افریقہ میں ابھرتے ہوئے نئے متوسط طبقہ نے بہتر حالات زندگی کے لیے پائیدار ترقی کی بنیاد پر توقعات میں اضافہ کیا ہے، پائیدار ترقی کا نقطہ نظر ایک مضبوط میگا ٹرینڈ (بڑا رجحان) ہے، ہمیں اس سے متعلق تیسرے میگا ٹرینڈ ”سبز اور اسمارٹ تبدیلی“ کو بھی یاد رکھنا چاہیے، مسطح اور زیر زمین وسائل، جو ہماری لامحدود ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ضروری سامان اور وسائل کے لیے ناگزیر ہیں، اب دنیا کی 8 ارب سے زائد آبادی کے لیے اور بھی ناکافی ہیں، اس وجہ سے ہمیں سبز توانائی، صفر فضلہ اور خالص صفر کاربن پر مبنی عمل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں ایک ایسے عمل پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی حاجت ہے جس میں روزمرہ کی زندگی کے ہر مرحلے اور ہر لمحے، اشیاء اور خدمات کی پیداوار، ذہین انتظام کی بنیاد پر کی جائے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہم یا تو سبز اور اختراعی تبدیلی کو ایک میگا ٹرینڈ کے طور پر قبول کریں گے، یا زمین کے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سیلسیس ( 2.7 ڈگری فارن ہائیٹ) سے بڑھنے اور اسے ناقابل تلافی تباہی میں گھسیٹنے سے روکنے میں ناکام رہیں گے، اگر ہم اسے روک نہیں سکتے تو دنیا جس میگا ٹرینڈ سے نمٹ رہی ہے وہ سبز تبدیلی نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی ہوگی، جس نے خشک سالی سے لے کر بڑے طوفانوں تک زمین کے ہر حصے کو خاصا نقصان پہنچایا ہے اور تیزی سے، مستقل بنیادوں پر اسے تباہ کر رہا ہے۔

چوتھا ہے ”نقل و حرکت اور نئی انقلابی نسل“ دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کی جنریشن، جسے ہم برقی نسل کہتے ہیں، تہذیب کی تاریخ میں محدود نقل و حرکت کے ساتھ ایک ایسی گروہ کے طور پر جس میں سے ایک قابل ذکر فیصد نے اپنی پوری زندگی اپنے وطن یا ملک سے کسی دوسری جگہ سفر کیے بغیر گزاری ہے، یہاں تک کہ اپنے آباد علاقے سے کہیں منتقل ہوئے بغیر ان کی زندگی گزری ہے، تاہم اس سے قبل والی نسل کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا، ہمارے سامنے نئی متحرک نسلیں ہیں جو بہتر تعلیم یا ملازمت کے مواقع اور بہتر طرز زندگی حاصل کرنے کے لئے شہروں اور دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرتی رہی ہے۔

مزید برآں، یہ نسل بہتر معیار زندگی کے لیے اپنے ملک کی سماجی اور کاروباری زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کا مطالبہ کرتی ہے، وہ دور سے کام کرنا چاہتی ہے، دفاتر میں پھنسنا نہیں چاہتی، ان شہروں میں زیادہ خوشحال ثقافتی زندگی کا مطالبہ کرتی ہے جس میں وہ رہتی ہے اور نقل و حرکت سے نہیں ڈرتی، لہذا یہ ایک ایسی نسل ہے جو گھر اور کار کی ملکیت کے لیے پچھلی نسلوں کے مقابلے میں بہت کم خواہش یا چاہ رکھتی ہے، اس کے بجائے یہ شہروں میں سائیکل اور اسکوٹر استعمال کرنا چاہتی ہے، یہ ساری چیزیں ہمیں ایک نئے عالمی میگا ٹرینڈ کی طرف لے جاتی ہیں جو دو براعظموں، خاص طور پر ایشیا اور افریقہ پر حاوی ہو تا نظر آ رہا ہے، جہاں دنیا کی 83 فیصد آبادی مستقبل میں بسے گی۔

پانچواں میگا ٹرینڈ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ”شہری کاری پر مبنی مقامی ترقی“ کی تحریک ہے، جب اربنائزیشن (شہریت) کی بات آتی ہے تو صرف شہروں کے بارے میں سوچنا مناسب نہیں، اب نئی نسل بھی اپنے قصبوں اور دیہاتوں میں نئے وسائل پر مبنی مقامی ترقی کا نقطہ نظر رکھتی ہے، وہ گاؤں یا قصبوں سے شہروں کی طرف ہجرت نہیں کرنا چاہتی، ان کی خواہش ہے کہ ان کے پاس قابل قبول معیار زندگی آئے اور اس کے اپنے علاقہ میں ہی اسے سب کچھ ملے۔

یہ اسمارٹ اربنائزیشن (ذہین شہریت) پر مبنی مقامی ترقی چار اہم عناصر پر مبنی ہے، پہلا شہر کا معیار زندگی ہے، یہ وہ عنصر ہے جس کی جانب پر نئی نسل سب سے زیادہ متوجہ ہے اور یہ بے جا بھی نہیں ہے کہ انہوں نے ایک ٹھوس اور پائیدار تعلیم اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو ترجیح دی ہے۔

دوسرا عنصر شہر کی معیشت اور تجارتی صلاحیتیں اور ڈیزائنر اور برانڈ پر مبنی شہر بننے کی صلاحیت ہے، تیسرا عنصر اس کی ماحولیاتی استحکام کی صلاحیت ہے جو صفر فضلہ اور صفر خالص کاربن پر مرکوز ہے، چوتھا عنصر شہر تک رسائی اور شہر کی نقل و حرکت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے بڑے شہروں کے درمیان ذہین نظاموں اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے عالمی مقابلہ ان ہی موضوعات پر ہو گا۔

ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ہر قدم پر ایک الگ قوم اور معاشرہ بستا ہے، ان مسائل پر مزید سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے منصوبہ بندی اور غور و فکر کرنا ہی چھوڑ دیا ہے، ہم کسی ایسے جادو کے انتظار میں ہیں کہ سب کچھ ایک دن خود ٹھیک ہو جائے گا اور ہم سب امن و سکون کی بنسی بجائیں گے، یاد رہے ایسا دنیا میں کبھی نہیں ہوتا اس کے لئے منصوبے بنانے ہوتے ہیں، خلوص اور دیانت داری درکار ہوتی ہے، کیا ہم ایسا کرنے کے لئے تیار ہیں، یہ سوال ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔

 

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments