عیاش نوابزادے اور اشرافیہ
جن لوگوں کو تقسیم برصغیر سے پہلے کے ناولوں اور افسانوں کو پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو انہیں یاد ہو گا کہ پرانے زمانے میں اکثر خانوادے اور نوابزادے باپ دادا کی زمینیں بیچ کر عیاشیاں کرتے تھے۔ جوا خانے اور طوائفوں کے کوٹھے انہی نوابزادوں کی دم قدم سے آباد ہوتی تھیں۔ چونکہ آبادی کم تھی اور جاگیریں بڑی بڑی، ایک ایک نواب سینکڑوں ہزاروں ایکڑ یا درجنوں مربع زمین کا مالک ہوتا تھا۔ اس لئے ان کے بیٹے پوتے پڑپوتے رتی بھر کام بھی نہ کرتے تو دو تین پشتوں تک زمین بیچ کر بھی عیاشیاں کر سکتے تھے۔ پاکستانی حکمران اشرافیہ کی اکثریت بھی انہی نوابزادوں کی اولادیں ہیں۔ اور اب تک کم وبیش وہی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں البتہ وقت گزرنے کے ساتھ فرق یہ آیا کہ یہ لوگ مکار اور چالاک ہو گئے اور گزشتہ ستر سال سے یہ لوگ باپ دادا کی زمینیں بیچنے کی بجائے عوام کا مستقبل بیچ کر عیاشیاں کر رہے ہیں۔
قرض کے پیسوں سے ہماری بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان ستر سال سے عیاشیاں کرتے رہے مگر ان کی فاقہ مستی رنگ نہیں لائی۔ بے شک وہ قرض کے پیسوں سے عیاشی ہی کرلیتے مگر کاش کہ وہ اپنی علم سمجھ بوجھ اور دانش کو ملک و قوم کے مستقبل سنوارنے کے لئے تو استعمال کرتے۔ اس کی بجائے انھوں نے خود کو بادشاہ اور عوام کو رعایا سمجھ کر ذلیل و خوار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان میں بننے والے ہر نئے ادارے کا قیام اشرافیہ کے لئے مراعات اور روزگار جبکہ عوام کی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بنتا رہا۔
انہی اشرافیہ کے بچے بیوروکریٹ آرمی افسران اور سیاستدان بنکر باپ دادا کی عیاشیوں کے وارث بنتے رہے جبکہ غریب کے بچے انہی کے عیاشیوں کے قرض چکاتے ہوئے اندرون یا بیرون ملک مزدوری میں خون پسینہ بہاتے رہے۔ ان عیاش اشرافیہ کو اتنی توفیق بھی نہ ہوئی کہ وہ غریب کی سہولت کے لئے نہ سہی اپنی عیاشی کو دوام دینے کے لئے ان غریب کے بچوں کو کاغذ کی ڈگری دینے کی بجائے کوئی ہنر سکھانے کا بندوبست کرتے۔ محکمہ تعلیم اور صحت کو روزگار اور پیسہ کمانے کی انڈسٹری بنانے کی بجائے کوئی پیداواری کارخانے لگانے کی منصوبہ بندی کرتے۔
اپنی عیاشی کو برقرار رکھنے کے لئے ملک میں انتہا پسندی اور جنگی معیشت کو فروغ دینے کی بجائے سیاحت اور ثقافت کو ترقی دیتے تو آج یہ دن دیکھنے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن لگتا ہے کہ اس اشرافیہ کو اب بھی خوش فہمی ہے کہ ڈیفالٹ مہنگائی اور بے روزگاری کا سیلاب صرف غریبوں کو بہا لے جائے گا ان کا کوئی بال بیکا نہیں ہو گا کیونکہ ایک تو ان میں زیادہ تر کے اثاثے اور بچے پاکستان سے باہر ہیں صرف ان کو بھاگنے کی ضرورت ہے جو زیادہ مشکل نہیں۔
دوسری بات یہ کہ جو لوگ یہاں بھی رہیں گے تو ان کے خیال میں ان کے پاس اتنے اثاثے اور دولت ہیں کہ پرانے نوابزادوں کی طرح ان کی آل اولاد بھی بیس تیس سال تک اس سے عیاشی کر سکتی ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کا سیلاب غریبوں کو بہا کر لے جا رہا ہے۔ مگر یہ تباہی صرف غریبوں تک محدود نہیں رہے گی۔ غریب جب اپنے بچے کو بھوک سے مرتے ہوئے دیکھے گا تو آپ کے بچے کے ہاتھ میں برگر نہیں رہے گا۔
غریب کے بیمار والدین جب ہسپتال کی بجائے گھر میں ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہوں گے تو آپ کے عمر رسیدہ والدین پارک اور باغ میں چہل قدمی کرتے ہوئے محفوظ نہیں ہو سکتے۔ غریب کا بچہ جب سرکاری سکول میں بھی پڑھنے کی بجائے مزدوری کرنے یا بھیک مانگنے پر مجبور ہو گا تو مالدار کا بچہ پرائیویٹ سکول میں کب تک پر امن رہ سکے گا۔ اس لئے اب بھی وقت ہے قبل اس کے کہ پانی مکمل طور پر سر سے اوپر ہو جائے۔ اور غریب اور امیر کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو۔ بقول شاعر کہ جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے۔
حکمرانوں اور اشرافیہ کے نمائندوں۔ ہوش کے ناخن لو۔ خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ۔ پھر نہ کہا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ اگر اپنے آپ سمیت ملک و قوم کو بچانا ہے تو درجہ ذیل اقدامات کیجئے ورنہ تیل گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے اور ٹیکس میں اضافے سے غریب لوگ مسکین اور شریف نہیں رہے گے بلکہ اپنا حق زبردستی چھیننے پر آمادہ ہوں گے ۔ اس سے پہلے کہ خانہ جنگی شروع ہو۔
1۔ فوری طور پر گریڈ سترہ سے اوپر تمام سول، جوڈیشل اور فوجی افسران کی مفت پٹرول، بجلی، میڈیکل، گیس، ٹیلی فون نوکر چاکر ٹی اے ڈی اے سمیت تمام مراعات مکمل طور پر بند کی جائے۔
2۔ گریڈ سترہ سے لے کر وزیر اعظم تک ججز جرنیلوں بیوروکریسی ڈاکٹرز انجنیئر سمیت تمام افسران سے بلا امتیاز تیرہ سو سی سی سے بڑی گاڑیاں لے کر فوری طور پر نیلام کی جائے۔
3۔ سنہ دو ہزار کے بعد جتنی بھی سرکاری زمین سول، جوڈیشل یا فوجی افسران کو الاٹ کی گئی ہے اس کو فوری واپس بحق سرکار ضبط کر کے نیلام کیا جائے
4۔ پاکستان بچانے کے لئے کسی بھی دباؤ کے بغیر سٹیل مل، پی آئی اے سمیت بجلی و گیس کی تقسیم کار کمپنیوں اور بڑے بڑے گھوسٹ اداروں کو مکمل طور پر پر ایڈورٹائزڈ کیا جائے۔ تاکہ چھ ہزار میگا واٹ بجلی اور اسی طرح بے تحاشا گیس کی چوری کو کنٹرول کیا جا سکے۔
5۔ گزشتہ بیس سال میں قائم کی گئی درجنوں نئی وفاقی اور صوبائی سرکاری کمپنیاں مراعات کے نام پر غریب عوام کا خون چوس رہی ہے۔ اس کو فوری طور پر مکمل پرائیویٹ کیا جائے یا ختم کر کے یہ کام سرکاری اداروں کو سونپا جائے۔
6۔ پارلیمنٹ، چاروں صوبائی اسمبلیوں اور تمام سیکرٹریٹ ملازمین کو دستیاب انتہائی غیر منصفانہ سیکرٹریٹ اور ایگزیکٹیو الاونس کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
7۔ صدر وزیر اعظم وزرائے اعلی اور سپیکر صاحبان کو حاصل تمام صوابدیدی اختیارات اور صوابدیدی فنڈز کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
8۔ ادویات، اجناس اور خام مال کے علاوہ تمام اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے۔
9۔ تمام فوجی و سول ریٹائرڈ ملازمین کی دوبارہ تعیناتی پر پابندی لگائی جائے اور ہر قسم کے پنشن کو ریٹائرڈ ملازم کی زندگی تک محدود کیا جائے۔
01۔ کم از کم تین سال کے لئے ملک بھر میں نئے ترقیاتی کاموں پر پابندی لگائی جائے۔ اور جاری ترقیاتی کاموں کے بجٹ پر نظر ثانی کر کے آڈٹ نظام کو فعال بنایا جائے۔
11۔ ہر انتخابی امیدوار کو صرف اس حلقے سے امیدوار بننے کی اجازت دی جائے جہاں ان کا ووٹ درج ہو۔ یا پھر ایک سے زیادہ حلقوں سے امیدوار بننے والے سے دوبارہ انتخابات کے اخراجات وصول کیے جائے۔
21۔ دفاعی اخراجات کم کرنے کے لئے غیر جنگی اخراجات کو پچاس فیصد کم کیا جائے اور فوج کی تعداد کم کرنے کے لئے نئی بھرتی پر پابندی لگائی جائے اور موجودہ تعداد میں سے ایک لاکھ جوانوں کو چاروں صوبوں کی ضرورت کے مطابق ان کے پولیس میں ضم کیا جائے۔ فوج سمیت پیرا ملٹری فورس کے جوانوں کو بھی پچیس سال ملازمت سے پہلے پنشن دینے پر پابندی لگائی جائے۔
31۔ پڑوسی ممالک ایران، افغانستان اور وسط ایشیاء کے ساتھ تجارت میں حائل مفاداتی رکاوٹوں کو فوری طور پر دور کیا جائے۔
41۔ کرپشن پر سخت ترین سزائے مقرر کی جائے۔ اور ان سزاؤں پر بلا امتیاز عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
میں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ ان اقدامات سے پاکستان کے معاشی اور سماجی مسائل میں پچاس فیصد کمی آ سکتی ہے، اور دروازے پر دستک دیتی خانہ جنگی کو روکا جاسکتا ہے ورنہ۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔
- ہائبرڈ نظام حکومت، ناکام تجربہ - 27/03/2024
- پاکستان میں درکار اصلاحات۔ ایک خاکہ - 19/02/2024
- تاکہ ریکارڈ درست رہے - 16/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).