دو سرد شاموں میں گھری عورت کا قصہ


اب جب کہ بہار کی کونپلوں نے سر نکالا ہے اور ہر شاخ سبز اور ہری بھری ہو کر خوشبوئیں انڈیلنے کو تیار ہے اور اب اس موسم سے وابستہ بنت آدم کا دن بھی قریب ہے جو یقیناً کائنات میں اس خالق کی صحیح خلیفہ ہے کہ تخلیق آدم کے منصب پہ فائز ہے اور جائز حقدار ہے کہ اسے انہی سبز موسموں میں یاد کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ہی چہ مگوئیاں اور تمسخرانہ تذکرے شروع ہو گئے ہیں۔

میرے گھر میں بھی یہ بحث اکثر چھڑ جاتی ہے کہ آخر عورت کو کتنے حقوق درکار ہیں اور کن حقوق کا حصول اس کی منزل ہے، مجھ جیسے بدنام زمانہ فیمنسٹ جب ظلم کی، حق تلفی کی مثالیں گنواتے ہیں تو اس پہ منڈھیاں ہلتی ہیں کہ ہاں ان عورتوں کے لیے تو کام ہونا چاہیے مگر عام مڈل کلاس عورت تو بقول شخصے ’‘ عیش ”کر رہی ہے شتر بے مہار ہو گئی ہے۔

ایسے میں اس سرسبز پر بہار موسم میں بھی مجھے جنوری کی سرد ٹھٹھرتی دھند بھری دو شامیں یاد آنے لگتی ہیں۔ جی جنوری کی وہ سرد دھند بھری شام جو تیزی سے رات کے گلے مل رہی تھی جب میں اپنے ڈرائیور کے ہمراہ چست پاجامے شرٹ میں ملبوس اس فربہ سی عورت کے قریب سے گزری جس کے پاس کئی موٹر سائیکل اور گاڑیاں آہستہ ہو کر پھر آگے بڑھ جاتی تھیں۔ وہ فربہ بھدی سی ادھیڑ عمر، پھیکے سانولے رنگ اور موٹے نقوش کی عورت مگر چونکہ وہ ایک چست پاجامے اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھی، رات کے وقت اکیلی تھی اس لئے ’‘ متوقع گاہک ”اپنی زبانیں لٹکائے، اپنی رانوں کے بیچ کھجاتے، رکتے اور آگے بڑھ جاتے اور ظاہر ہے میری گاڑی بھی وہاں سے زن سے گزر گئی کہ آخر میں بھی تو اسی بے حس معاشرے کا فرد تھی جسے گھر پہنچنا تھا، اک تقریب میں جانے کی جلدی تھی۔

اور شاید میں بھی اس عورت کے بارے کچھ منفی ہی سوچتی جو رات کے وقت اس نامعقول حلیے میں سڑک پہ تنہا جا رہی تھی اگر میں کچھ دیر پہلے اس عورت کو شہر کے اس بڑے پارلر میں روتے بلکتے نہ دیکھ چکی ہوتی اور جو میں اس عورت سے شناسا نہ ہوتی تو ۔ تو میں بھی اسی منفی سوچ کے ساتھ اس کے پاس سے نفرین بھیجتے ہوئے گزر جاتی، اب فرق صرف یہ پڑا تھا کہ میں دل میں ہمدردی رکھتے ہوئے اس کے پاس سے گزری تھی کہ آخر میں بھی تو اسی معاشرے کا ایک فرد تھی۔

جی یہ عورت شہر کے اس بہت مہنگے پارلر میں کیشیئر اور بکنگ اکاؤنٹنٹ کی جاب کر رہی تھی اور میں پارلر میں اپنے کام سے گئی تھی جس کے لئے تمسخرانہ طور پہ ڈینٹنگ پینٹنگ اور مرمت کا لفظ بولا جاتا ہے، اس کے باوجود کہ ہر مرد کو نک سک سے درست بیوی مطلوب ہے، عورت کا بطور انسان خود اپنی نظروں میں اچھا لگنے کا تصور ابھی ہمارے معاشرے میں ناپید ہے، تو میں نے شام کے وقت پارلر سے فراغت کے بعد دیکھا کہ یہی خاتون فون پہ بلک بلک کر رو رہی تھی اور اپنے رکشے والے سے جھگڑ رہی تھی کہ اس نے اس دھند بھری شام میں آنے سے معذرت کر لی تھی اور اب یہ فون پہ اس کی منت سماجت کر رہی تھی اور کبھی غصے میں بولنے لگتی ’‘ رمضان تم سردیوں میں ہمیشہ میرے ساتھ یہی کرتے ہو اب مجھے بتاؤ کہ میں اتنی رات کو اس موسم میں کیا کروں، گھر یہاں سے کتنی دور ہے، میں اکیلے کیسے جاؤں گی۔

”مگر رمضان پہ اس گریہ کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا اور اس نے فون کاٹ دیا، وہ روتی بلکتی آئی اور پارلر کا یونیفارم جو چست ٹی شرٹ اور پاجامے پہ مشتمل تھا کے اوپر پہننے کے لئے اپنا گاؤن نکالا تو یہ دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے کہ اس کا حجاب بری طرح بھیگا ہوا تھا شاید کسی سے اس پہ چائے یا پانی گر گیا تھا، یہ دیکھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اسی اثناء میں میرے میاں کی کال آ گئی کہ ڈرائیور کے ساتھ جلدی گھر پہنچوں تقریب پہ بروقت پہنچنا ضروری ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ انتہائی پریشانی میں روتی ہوئی اور بار بار آنسو پونچھتے ہوئے سیڑھیاں اتر گئی تھی۔

چند منٹ بعد میرے ڈرائیور کی کال آ گئی کہ باجی نیچے آ جائیں اور میں سڑک پہ چلتے ہوئے اس کی بے کسی کا نظارہ دیکھتے ہوئے خاموشی سے اس کے پاس سے گزر گئی، دل چاہا رک کر اسے لفٹ آفر کردوں مگر آخر میں بھی تو اسی دنیا کی فرد ہوں جس کے پاس ایسی ہمدردیوں کا نہ وقت ہے اور نہ اس کے نتائج بھگتنے کی ہمت و حوصلہ اور یوں میں ایسا نہ کر سکی۔ اس طرح یہ شام میرے وجود میں جیسے ٹھٹھر کر ٹھہر گئی اور اکثر مجھے تنگ کرنے اور سوچنے پہ مجبور کرتی رہی کہ اسی سرد موسم میں ایک اور شام نے مجھے ٹھٹھکا دیا تھا۔

یہ جاتی سردیوں کی شام تھی، کچھ دنوں سے لگ رہا تھا کہ سردی بس رخصت ہی لیا چاہتی ہے کہ دوپہر میں بارش شروع ہو گئی اور شام تک موسم خوشگوار حد تک سرد اور خنک ہو چکا تھا، سر شام کھانا کھا کر اپنی کالونی میں واک کرنا میرا معمول ہے، میں نے بارش میں بھیگی سڑک کو بچوں کی سی خوشی سے دیکھا اور سوچا سردیوں کی بارش کا پانی سڑکیں دھو دیتا ہے پانی کھڑا نہیں ہوتا، دور تک سڑک سنسان تھی، کالونی کے گیٹ مغرب کے بعد لاک کر دیے جاتے ہیں سو اطمینان، تنہائی اور خوشگوار موسم میرے سنگ تھے، میں لاشعوری طور پہ زیر لب گنگنانے لگی، مجھے بھول گیا تھا کہ میں سڑک پہ ہوں، راستے میں ایک سگریٹ کی ڈبیا پڑی ملی جو شاید کسی نے کچھ دیر پہلے پھینکی ہوگی کہ وہ بھیگی ہوئی نہیں تھی، میں شاید خوشگوار موڈ کے ساتھ بچپن کی کسی ساعت کی گرفت میں تھی، میں نے ڈبیا کو ٹھوکر لگائی وہ کچھ دور جا گری، میں نے آگے بڑھ کر پھر ٹھوکر لگائی وہ کچھ اور آگے چلی گئی، مجھے اس کھیل میں لطف آنے لگا، میں اسی طرح مشغول آگے بڑھنے لگی کہ اچانک دو نوجوان موٹر سائیکل پہ نمودار ہوئے یقیناً اجنبی تھے، وہ میری ’‘ حرکت ”دیکھ چکے تھے اور انہوں نے مجھے جن نظروں سے ٹٹولا، گھور کر دیکھا، بائیک کچھ دیر کو آہستہ ہوئی اور پھر زن سے آگے بڑھ گئی، یہ نظریں مجھے اس جنوری کی سرد رات جیسی شام کی یاد دلا گئیں جہاں ایک بنت حوا بے بس المیے سے دو چار اپنی منزل کی جانب گامزن تھی اور گھر پہنچ کر بھی اسے جانے کتنی منزلوں کو سر کرنا تھا۔

یہ دونوں شامیں میرے وجود میں ٹھہر سی گئی ہیں اور میں اس پر بہار موسم میں آپ سے بس اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کہ بطور انسان کیا آپ مجھے سنسان سڑک پہ بھیگے موسم میں کچھ پل کو ہی سہی اپنے اندر بسے معصوم بچے کو باہر آنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ کیا مجھے خالی سڑک پہ زیر لب خواہ مخواہ گنگنانے کی اجازت مل سکتی ہے؟ اور کیا کوئی عورت معاشرے میں رائج مروجہ لباس کے سانچے سے ہٹ کر ملبوس کسی سڑک پہ موجود ہو اور اس کی زبان، آنکھیں سارا وجود چیخ چیخ کر انکار کی صدا دے رہا ہو تو کیا آپ اسے شکار سمجھنے کی بجائے مصیبت زدہ انسان سمجھ سکتے ہیں؟ ویسے یہ بظاہر بے ضرر معصوم سا حق تو بہت انسانی نہیں؟ ان حقوق کو طلب کرنا فیمنسٹ کی ’‘ تہمت ”کیوں عائد کر دیتا ہے اور اگر یہ انسانی حق طلب کرنا فیمنزم ہے تو جی مجھے یہ تہمت قبول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments