اس ماں نے اپنے بچے کو کتاب پڑھنے کی عادت کیسے ڈالی؟


میں نے اسے چھ سال کی عمر میں دیکھا تھا۔ جب میں اس کی ماں کو (جو میری قریبی دوست ہے ) ملنے گئی تھی۔ وہ لونگ روم کے ایک کونے میں اوپر جانے والی سیڑھیوں پر مگن بیٹھا تھا۔ سامنے ایک انگریزی کتاب کھلی ہوئی تھی۔ کمرے میں مختلف نوعیت کے کام ہو رہے تھے۔ اس کا چھوٹا بھائی اور اس کی ہم عمر میری اکلوتی نور نظر آپس میں کھیل رہے تھے۔ کبھی بلاکس، کبھی دوڑ بھاگ۔ کبھی دوستی، کبھی لڑائی۔ اور ایک طرف ہم دونوں بھی اپنی باتیں کر رہی تھیں۔

اور امریکی کچن ہونے کی وجہ سے، اس کے سب ہنگامے بھی ہمارے سامنے تھے۔ لیکن ماشاءاللہ مجال ہے کہ اس کی دلچسپی اور آنکھ ایک لمحے کو بھی ادھر ادھر بھٹکی ہو۔ یوں جیسے وہ اس ماحول کا حصہ ہی نہ ہو۔ بے خبر، مصروف، مطمئن۔ بچہ تھا لیکن کھیل کا لالچ اسے متوجہ نہیں کر رہا تھا۔ کم سن تھا لیکن انہماک کا عالم، کیا کہنے۔

مجھے حیرانی کے ساتھ دلچسپی بھی محسوس ہوئی۔ اپنی دوست سے استفسار کیا کہ اب کے ڈیجیٹل دور میں جہاں ہر کسی کو شکوہ ہے کہ بچے موبائل نہیں چھوڑتے۔ کھانا کھانا، اور چلنا بعد میں سیکھتے ہیں۔ موبائل سے چپکنا، لٹکنا اور چلانا پہلے سمجھ لیتے ہیں۔ ٹک کر نہیں بیٹھتے۔ کتاب کو بس کورس کے علاوہ ہاتھ نہیں لگاتے۔ تو کہاں تمہارے شہزادے کا ایسا نایاب شوق؟ اتنی کم عمری میں اور ایسی توجہ سے کتاب پڑھ رہا ہے۔ سچ میں کہیں اندر سے خوشی پھوٹ رہی ہے۔

میری دوست مسکرانے لگی۔ عاجزی سے کہنے لگی۔ اس میں ہمارا کیا کمال۔ بس مولا نے ایسا بچہ دیا ہے۔ جس کی دلچسپیاں تھوڑی ہمارے زمانے کی ہیں۔ میرے کافی اصرار پر بھی اس نے کوئی بھی کریڈٹ اپنے سر نہ لیا اور کسر نفسی سے کام لیتی رہی۔ بات آئی گئی ہو گی۔ اور میں واپس اپنے گھر واپس آ گئی۔ اللہ کی قدرت کہ میرا دانہ پانی دیار غیر میں لکھا گیا۔ رابطے فون اور ویڈیو کالز تک محدود ہو گئے۔ لیکن جب بھی دوست سے بات ہوئی، بسا اوقات وہ کتابی عاشق میرے ذہن میں ضرور آتا۔ یونہی تین سال گزر گئے۔ اور میں دوبارہ ملک خاندان، دوست احباب کو ملنے آئی۔

انھی مصروف دنوں میں خریداری کے دوران ایک برینڈڈ کپڑوں کی دکان پر کچھ دیکھ رہی تھی۔ کہ ایک بچے کی وجہ سے دھیان بار بار بٹنے لگا۔ بڑی دکان تھی۔ اور جدید طریقوں سے آراستہ بھی۔ وہ ایک اسٹول پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی اور وہی دل سے خوشی پھوٹی۔ جو کسی ایسی ہی بات پر خود بخود محسوس ہوتی ہے۔ میری دلچسپی کچھ لینے سے زیادہ اسی کی طرف ہونے لگی۔ تب ہار مان کر میں سب چھوڑ کے اس کے پاس آ گئی۔ سلام کیا۔ اس نے جواب دیا۔ اچنبھے سے دیکھا اور پھر کتاب۔ میں نے اسے دوبارہ بلایا۔ مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا۔ اور اس نے یوں دیکھا کہ آپ کون؟

میرے کہنے پر کہ وہ کس کے ساتھ ہے؟ ایک اجنبی نگاہ میری طرف کی جیسے کہا ہو؟ آپ کون؟ میں نے پھر پوچھا، ادھر اکیلے کیوں بیٹھے ہو؟ جواباً اس نے نرم لیکن الجھے لہجے میں کہا، کتاب پڑھ رہا ہوں۔ اس کے چہرے کے نقش مجھے جانے پہچانے لگے۔ نہ وہ بات پر آمادہ تھا نہ میری بے چینی کسی کروٹ بیٹھ رہی تھی۔ کہ اسی اثناء میں اس کے والدین وہاں آ گئے۔ میری حیرانی، بے تحاشا مسرت میں بدل گئی کہ وہ تو میری دوست تھی۔ جسے ملنے کا وقت اگلے ہفتے طے تھا۔ بے اختیار گلے ملے۔ قہقہوں کا تبادلہ ہوا۔ گرم جوشی، محبت کا احساس ہوا۔ تو یک دم میں نے اس بچے کی طرف اشارہ کیا تو اس کی ماں نے بتایا۔ میرا بڑا بیٹا جسے تم چھ سال کی عمر میں ملی تھی۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا، وہی ’بک لور‘ ۔ دوست نے اثبات میں سر ہلایا۔

تب میں مصر ہوئی کہ آج تو یہ راز بتانا پڑے گا کہ کیسے کتاب بینی کا شوق اس میں پیدا ہوا؟ ہم ساتھ والے ریسٹورنٹ میں بیٹھ گئے۔ مجھے جاننے کی جلدی تھی۔ میری دوست کہنے لگی، ہم نے کچھ کوشش کی، کچھ دعا۔ بس اللہ کا کرم ہے۔ تم جانتی تو ہو۔ مجھے کتاب سے انس ہے۔ کسی تفریق کے بنا میں پڑھتی ہوں تو شوہر بھی ایسا ہی مل گیا۔ جب پہلی دفعہ ماں، باپ بنے تو کھلونوں کے ساتھ کتابیں بھی آنے لگیں۔ چھوٹی، تصویری، رنگ برنگی۔

خود ہم پڑھتے، اسے سناتے۔ بڑے ہونے کے ساتھ اس نے گھر میں ہر جگہ کتابیں دیکھیں۔ ہمارے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر، لاؤنج کی الماری میں، اسٹڈی کے درازوں میں۔ ہمیں کتب خانوں میں جاتے دیکھا۔ کتابوں کی دکان پر گھنٹوں خریداری پر وقت لگاتے۔ تو کتاب سے محبت، اس سے دوستی اپنے آپ اس کی شخصیت میں اترنے لگی۔ اپنی سالگرہ پر کتابیں تحفتا مانگتا ہے۔ اسکول میں امتحانات کے دوران جب لائبریری کی کلاس بند ہو جاتی ہے، تو افسردہ ہوتا ہے۔ سفر، خریداری، کسی کے ہاں جب وہ بوریت محسوس کرتا ہے، کتاب میں دل لگا لیتا ہے۔ نو سال کی عمر میں تین سو کتابیں اس نے اپنی لائبریری میں جمع کی ہیں۔ اور میں جب جب اسے دیکھتی ہوں تو لاکھ شکر ادا کرتی ہوں۔

جب میں ادھر سے اٹھی تو بہت سے سوال ذہن میں تھے۔ کہ وہ ملک جہاں وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کی ایک کروڑ آبادی کے لئے صرف پانچ پبلک کتب خانے ہیں اور وہ بھی پاکستان بننے سے پہلے کے۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں تو یہ سہولت بھی کم یاب ہے۔ کتاب چھاپنا اور خریدنا جیب پر بھاری ہے۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اس ماحول کا ہے جو کوئی بھی نئی روح پیدا ہونے کے بعد دیکھتی ہے۔ جو اپنے ارد گرد ہوتا اور کرتا دیکھتے ہیں۔

اسی کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ انھی عادات اور دلچسپیوں کو اپنانے لگتے ہیں۔ موبائل اور ڈیجیٹل آلات کو خدا بنتا دیکھیں تو لازما بولنا بعد میں سیکھیں گے اور اسمارٹ فون کی ٹچ اسکرین پہلے انگلیوں کے نیچے حرکت کرے گی۔ اور اگر کتاب کسی کے ہاتھوں میں پکڑیں دیکھیں گے، تو کسی نہ کسی دن کتاب دوست بن جائیں گے۔ اس لئے محنت کریں۔ کتاب کو اہم مانیں، کتاب سے پیار کریں۔ تاکہ ہم میں سے کسی کو اس صدی میں کتاب سے عشق ختم ہونے کا غم نہ منانا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments