خواتین کا عالمی دن اور صنفی تعصب


 

خواتین کا عالمی دن ہر سال 8 مارچ کو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے علاوہ ان کی زندگی گزارنے کے راستوں میں حائل رکاوٹوں کا ادراک کرتے ہوئے معاشرتی و سماجی حدود کی پاسداری کے ساتھ ان کا قلع قمع کرنا ہے۔

اسلام مرد اور عورت کے حوالے سے توازن برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے یعنی کہ عدل و انصاف اور حقوق میں مساوات اسلام کی تعلیمات کے بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ البتہ بعض مقامات پر عورتوں اور مردوں کے سلسلے میں احکام مختلف ہیں بالکل اسی طرح، جس طرح عورت اور مرد کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں مضبوط، ضدی، پراعتماد اور جارحانہ رہنما ہونا ایک مثالی مرد کی نشانیاں ہیں جبکہ مطیع، شائستہ، حساس، نرم مزاج اور پیروکار ہونا ایک مثالی عورت کی نشانیاں ہیں۔

یہاں اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ صنفی کردار صنف کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ لوگوں کی پرورش کی عکاسی کرتے ہیں۔ مختلف محققوں نے ثابت کیا ہے کہ معاشرے مختلف سماجی قاعدوں سے آگے نکل چکے ہیں اور صنفی کردار اس کے مطابق ڈھل گئے ہیں لیکن کچھ تعصبات ایسے ہیں جو دونوں صنفوں کو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے روکتے ہیں۔ ان تعصبات کو سمجھ کر ان کی تدارک کے لیے کوشش ہم سب پر فرض ہے تاکہ ہم ایک بہترین اور متوازن معاشرہ ترتیب دے سکیں۔

صنفی تعصب کی ابتدا اولاد کی پیدائش کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ بیٹا اور بیٹی کی پیدائش میں تفریق ثقافتی، معاشرتی اور معاشی حالات کے ساتھ منسوب ہے۔ مثال کے طور پر بیٹے کی پیدائش پر اطمینان کا مظاہرہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس کو والدین اپنے مستقبل کا محافظ سمجھتے ہیں۔ اور بیٹی اس اہمیت کی حامل نہیں ہوتی کیونکہ وہ پرائی سمجھی جاتی ہے اور والدین اس کو اپنا محافظ نہیں سمجھتے حالانکہ کئی ایسی بیٹیوں کی مثالیں موجود ہیں جو کہ بیٹوں سے زیادہ اپنے والدین کی خدمت کی ہیں اور ان کی زندگی کا سہارا بن چکے ہیں۔

یہاں پر اس بات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ صنفی تعصب کے حوالے سے ہماری سوچ اور اعمال کا ہما ری اولاد کی تربیت پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟ اس کی بنیاد پر اولاد کی پرورش کر کے ہم اپنے بچوں کے ساتھ نا انصافی تو نہیں کر رہے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اولاد کی تربیت میں حقوق اور انصاف کے توازن کو برقرار رکھیں جو کہ ہمارے افکار، گفتار اور کردار سے واضح نظر آئے۔ اگر ہم ایسا کرنے کے قابل ہو جائیں تب ہم اولاد کے کے درمیاں صنفی تعصب کی تدارک کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب مرد جنگوں میں لڑتے، شکار کرتے، جسمانی مشقت سے عمارتیں کھڑی کرتے، اور کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ جبکہ عورتیں گھر کے اندر رہ کر بچوں کی پرورش، کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور صفائی وغیرہ کا کام کرتی تھیں۔ عورت جسمانی لحاظ سے مرد کے برابر نہ تھی لہذا اس کو ہمیشہ کمزور اور کمتر تصور کیا گیا۔ اب حالات اس کے بر عکس ہیں مرد اب وہ مشقت والے کام نہیں کرتے کیونکہ ان کی جگہ مشینوں نے لے رکھی ہیں۔ اب جسمانی مشقت کی جگہ ذہنی مشقت نے لے لی ہے۔

اور اس میں عورتیں بھی برابر کی شریک ہیں۔ وہ ذریعہ معاش کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی ہیں۔ لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ ان کے کام کے معیار کو ہمیشہ ان کی ذات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے اور ان پر وہ اعتبار اور بھروسا نہیں کیا جاتا جو ایک مرد پر کیا جاتا ہے۔ مزید براں، عورتیں گھر کے باہر جتنا مشکل کام کریں گھریلو کام کاج کے ذمہ دار وہی ہوں گی گو یا کہ کمائی کے لیے باہر نکلنا ان کی اپنے کوئی تفریحی کاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

گھر کے باہر اور اندر کی ساری ذمہ داریاں خواتین پر ڈال کر ان کی تربیت اور کردار کی پیمائش اس کے حسن اخلاق اور اس کی سلیقہ مندی سے کیا جاتا ہے۔ اس کی پیشہ ورانہ زندگی میں جتنی بھی پریشانیاں اور مسائل کیوں نہ ہوں ان کو گھر والوں کے ساتھ بانٹنے کی اجازت نہیں ہو گی اور نہ ہی اسے ایسے مواقع ملیں گے جو ان پریشانیوں کو کم کرنے میں معاؤن ہوں۔ دوسری جانب مرد کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ ملازمت کے جتنے بھی مسائل ہیں نہ صرف ان کا کھلم کھلا اظہار کرے بلکہ اپنی دفتری نا آسودگی کو بھی گھریلو معاملات پر منتج کرے اور یوں اپنے اضطراب کو دور کرنے کے ہزار ذرائع بھی ڈھونڈ نکالے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اس تعصب کا کوئی حل ہے؟ دونوں صنفوں کے کاموں کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ کر ان میں توازن کس طرح پیدا کیا جا سکتا ہے؟ ان سوالوں کے اگر مثبت جواب دیے جائیں تو یقیناً اس تعصب کو ختم کرنے کا کوئی راستہ نکل آئے گا اور برابری کی بنیاد پر ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جا سکے گا۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں اپنی خدمات بخوبی انجام دیتی ہیں لیکن اپنی قابلیت اور حتی المقدور کوشش کے باوجود بھی انہیں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے بارے میں وہ پرانی تصورات اب بھی موجود ہیں جن کے مطابق عورتیں فیصلہ سازی میں کمزور ہیں، حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتیں، مسائل حل کرنے کی صلاحیت کم ہے اور اپنے کام میں ماہر نہیں ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ان تمام باتوں کو نفی کرنے کے لیے دلائل اور کئی مثالیں بھی مو جود ہیں۔

مگر ان کو ماننے والے بہت کم ہیں اور اکثر تو خواتین کے پیشہ ورانہ کار کردگی کو ان کی ذاتی خصوصیات، ظاہری شکل و صورت اور ملبوسات کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے۔ اس تعصب کو کم کرنے کے لیے اداروں کو اپنے پالیسیز پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور علاقائی، معاشرتی اور ثقافتی ضروریات کی بنا پر عورتوں کے لیے ان میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تبھی ہم عورتوں کو ایک بہترین پیشہ ور کی حیثیت سے دیکھ سکیں گے۔

عمومی طور پر وہ خواتین جو گھروں کے اندر رہتی ہیں، اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ صنفی تعصب کا شکار سمجھتی ہیں۔ صبح سے شام تک روزمرہ کے ایک ہی قسم کے کاموں میں مصروف رہ کر وہ اپنی زندگی کو ایک قید کے سوا کچھ نہیں سمجھتیں اور اس میں کوئی اعتراض والی بات بھی نہیں کیونکہ زندگی اگر ایک ہی ڈگر پر چلتی رہے اور کوئی تبدیلی نظر نہ آئے تو انسان کی سوچ بھی محدود رہتی ہے۔ گھر کے اندر رہنے والی خواتین کے پاس پہلے زمانے کی خواتین کے مقابلے میں وقت زیادہ ہے کیونکہ جدید مشینوں کی ایجاد نے ان کی کاموں کے بوجھ کو کافی حد تک کم کیا ہے اور وہ اپنے وقت کو کسی پیداواری کام کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔

لیکن اس کے لیے آگاہی، مواقع اور مہارت کی ضرورت ہے جس کی کمی ہے۔ اس کمی کو ختم کرنے لیے ایک طویل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جو کہ گھر میں بچے کی تربیت اور تعلیمی نظام میں اس کی تعلیم و تربیت کی منصوبہ بندی پر مشتمل ہے۔ بیٹیوں کی پرورش اور نشوونما اس طریقے سے ہو کہ وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ زندگی کی بنیادی مہارتیں بھی سیکھیں تاکہ مستقبل میں اپنی بہتر زندگی کا خود ضامن ہوں۔ تب جا کے صنفی تعصب کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

درج بالا تحریر میں تعصبات کے وجوہات میں بنیادی آئینی و اسلامی اصولوں سے لاعلمی، ہماری بیمار ذہنیت، اور عورتوں کا ان کے آئینی حقوق سے لاعلمی ہے۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ وہ ہے جو عورت کو صرف اور صرف گھر کی زینت بنائے رکھنے کا قائل ہے، جبکہ دوسرا طبقہ اس کے برعکس تمام بنیادی معاشرتی حدود و قیود کو روند کر عورت کی آزادی کی بات کرتا ہے۔ تاہم ان دونوں گروہوں کے دلائل اپنی جگہ، ہمیں اعتدال کا راستہ اپنانا ہو گا۔

برابری کا مطلب جسمانی برابری نہیں بلکہ سماجی، معاشی اور سیاسی اور معاشرتی برابری ہے۔ عورت کی جسمانی ساخت، مذہب، سماجی روایات، سیاسی نظام، معیشت اور قانون کو عورت کے استحصال کے بجائے اس کی آزادی اور حقوق کی برابری کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومتی سطح پر متعلقہ قوانین پر عمل درآمد جبکہ عوامی سطح پر اپنے سماجی رویوں کو فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرے تک تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سخت مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی ہم ایک متوازن، خوشحال اور تعصبات سے پاک معاشرہ کی توقع کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments