پاک افغان تعلقات کا نیا موڑ


پاکستان کا داخلی اور علاقائی استحکام بنیادی طور پر افغانستان کے ساتھ تعلقات، دو طرفہ تعاون، سیکورٹی سے جڑے معاملات اور باہمی اعتماد کے ماحول سے جڑا ہوا ہے۔ ایک عمومی تجزیہ یہ تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاک افغان تعلقات میں ہمیں اعتماد سازی کے تناظر میں کافی بہتری نظر آئے گی۔ لیکن پاکستان کی داخلی سیکورٹی اور افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کے مسلسل حملوں کو اگر دیکھا جائے تو اعتماد سازی کے مقابلے میں بداعتمادی کا ماحول غالب نظر آتا ہے۔

پاک افغان تعلقات کی بہتری کی ایک بڑی کنجی اس وقت بھی پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ کیونکہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے بغیر نہ تو خطے میں ہم کوئی بڑا استحکام دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی یہ استحکام پاک افغان تعلقات میں دیکھا جا سکے گا۔ کیونکہ بھارت بھی براہ راست افغانستان میں جو بھی مسائل ہیں ان سے جڑا ہوا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ پاک افغان معاملات میں بہتری کی بجائے اور زیادہ بداعتمادی پیدا ہو تاکہ وہ یہ تاثر افغان طالبان اور افغان قوم میں پیدا کرسکے کہ پاکستان ان کے حالات میں خرابی کا ذمہ دار ہے۔

حالیہ دنوں میں جو پاکستان اور افغان طالبان کی قیادت یا حکومت کے درمیان جو تناؤ، محاذ آرائی یا الزام تراشی کی سیاست دیکھنے کو ملی وہ بھی کوئی حالات کی اچھی نشاندہی نہیں کرتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تسلسل کے ساتھ اس موقف کو دہرایا یا زور دیا جا رہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان حکومت کے درمیان الزام تراشی کے مقابلے میں ڈائیلاگ اور مفاہمت یا دو طرفہ تعاون کے راستے کو مضبوط بنایا جائے۔ مسئلہ الزامات کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر اور اس پر موثر حکمت عملی اختیار کر کے محفوظ راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔

اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں ایک بڑی مثبت پیش رفت پاکستانی حکومت اور سیکورٹی اداروں کے وفد کا دورہ کابل دیکھنے کو ملا۔ اس وفد کی قیادت ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی۔ جبکہ ان کے ہمراہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم، سیکرٹری خارجہ اسد مجید خان، افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندہ محمد صادق اور کابل میں پاکستان کے ناظم الامور عبدالرحمن نظامانی بھی شامل تھے۔ اس وفد نے کابل میں افغان حکومت اور طالبان کی سیاسی اور سیکورٹی قیادت کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔ ان میں افغان ڈپٹی وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر، قائم مقام وزیر خارجہ عامر خان متقی، وزیر دفاع ملا محمد یعقوب اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی شامل تھے۔

پاکستان کی جانب سے یہ دورہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب نہ صرف پاکستان افغانستان تعلقات میں کافی مسائل یا پیچیدگیاں موجود ہیں یا اس کے نتیجہ میں ہماری داخلی سیاست میں دہشت گردی یا سیکورٹی کے تناظر میں سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ حالیہ پشاور اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات نے ہماری سیکورٹی صورتحال پر ہمیں گہری تشویش میں مبتلا کیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ پاک افغانستان دورہ میں خطہ میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے خطرات، ٹی ٹی پی اور داعش کی سرگرمیوں جن میں خراسانی گروپ بھی شامل ہیں پر بات چیت، ان کی سرگرمیوں کی نگرانی، جوابدہی اور دوطرفہ تعاون برائے انسداد دہشت گردی جیسے امور شامل ہیں۔

مسئلہ محض سیاسی اور دہشت گردی کی حکمت عملی ہی نہیں بلکہ دو طرفہ سیاسی، انتظامی اور معاشی یا تجارت سے جڑے امکانات کو فوقیت دینی ہوگی۔ جو لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ پاک افغان تعلقات میں سیکورٹی یا دہشت گردی کو پس پشت ڈال کر محض تجارت تک محدود رکھا جائے یہ ممکن نہیں اور نہ ہی اس کے کوئی مثبت نتائج برآمد ہو سکیں گے۔ حالیہ ملاقات میں دو طرف بات چیت میں پاکستان سیکورٹی یا دہشت گردی کو تجارت کے ساتھ جوڑ کر ایجنڈے پر بات کرتا رہا جبکہ افغانستان تجارت کو سیکورٹی سے الگ رکھ کر بات چیت کرتے رہے جو ڈیڈ لاک کو بھی پیدا کرتا ہے۔

بنیادی طور پر مسئلہ حالیہ دہشت گردی کی صورت میں آیا ہے اور پاکستان سمجھتا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے اور اس پر افغان حکومت کو غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ٹی ٹی پی یا داعش میں سے کون دہشت گردی میں ملوث ہے اور کون خراسانی گروپ سے منسلک ہیں۔ افغان طالبان حکومت نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی سرزمین کسی بھی صورت میں پاکستان مخالف سرگرمیوں یا دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی۔

لیکن بدستور افغان حکومت اپنے اس وعدہ میں ناکامی سے دوچار ہے۔ افغان طالبان حکومت کا یہ موقف بھی درست نہیں کہ ٹی ٹی پی یا داعش کے جنگجو افغانستان میں نہیں ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو یہ کہاں ہیں اور کون پاکستان میں دہشت گردی کر رہا ہے اس کا تعین کیسے ہو گا اور کیسے دونوں ممالک مستقبل کے تناظر میں بہتری کے امکانات پیدا کر سکتے ہیں۔ افغان حکومت کو پاکستان کے اس نقطہ نظر کو سمجھنا ہو گا اور اس پر سنجیدگی سے کچھ کر کے دکھانا ہو گا کہ ٹی ٹی پی یا داعش کے جنگجو افغان سرزمین کو بطور پناہ گاہیں استعمال کر رہی ہیں۔

اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کا وفد نے کابل کا دورہ کیا اور اس امکان کو ممکن بنانے کی کوشش کی کہ اس کو ہر صورت میں نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ مگر جو نتیجہ نکلنا چاہیے تھا ابھی وہ کچھ نہیں نکل سکا جو پاکستان چاہتا تھا۔ حالانکہ پاکستان نے ناقابل تردید ثبوت افغان حکومت کو دیے کے کیسے ٹی ٹی پی کی موجودگی اور افغانستان میں ان کے مقام کی نشاندہی کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود افغان حکومت نے اس پر کوئی بڑی بات نہیں کی اور نہ ہی اس کا اعتراف کیا جو مسائل کی موجودگی کا احساس اب بھی دلاتا ہے۔

آئی ای اے نے وعدہ کیا کہ وہ ٹی ٹی پی عناصر کو کنٹرول کرنے کا وعدہ کیا۔ پاکستان نے دو ٹوک انداز میں افغان قیادت کو پیغام دیا کہ وہ پاکستان کی خیر سگالی یا دو طرفہ تعاون کے پہلووں کو ہماری کمزوری کی بنیاد پر نہ سمجھا جائے۔ پاکستان کے بقول ٹی ٹی پی یا دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس کارروائیاں کی جائیں۔ اسی طرح پاکستان نے افغان سرحد پر افغان فورسز کی اشتعال انگیزی پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اسی طرح پاکستان نے مختلف سرحدی کراسنگ پر افغان شہریوں کی بدانتظامی کے آئی ای اے کے موقف کو بھی مسترد کیا۔

پاکستانی وفد نے افغان حکومت کو بتایا کہ افغانستان کی جانب سے بار بار نامکمل اور جعلی دستاویزات کے ساتھ سفر کرنے والے افغان شہریوں کے لیے بارڈر کراسنگ پروٹوکول کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ قانونی نقل و حرکت کے طریقہ کار پر عمل کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ پاکستان نے پہلے ہی ان افغان شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں۔

پاکستانی وفد کے بقول ٹی ٹی پی کی کسی بھی قسم کی حمایت پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے اور افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی سے اسی طرح نمٹا جائے گا۔ پاکستان کے اندر کسی دہشت گرد سے ہے۔ یہ ہی نہیں بلکہ دہشت گردوں کے تمام سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو بھی یکساں نتائج کا سامنا چاہے وہ پاکستان کے اندر ہوں یا پاک افغان سرحد کے ساتھ خفیہ پناہ گاہوں میں رہائش پذیر ہیں۔

افغان حکومت کی جانب سے ان ملاقاتوں کا جو بیان جاری کیا گیا وہ بھی نامکمل ہے۔ مثلاً افغان سرحدوں پر دونوں اطراف سے تاجروں کے آنے جانے میں حائل رکاوٹیں دور کرنا، اقتصادی شعبوں میں فروغ اور دہشت گردی کو روکنے میں غیر معمولی اقدامات کا کوئی خاص ذکر دیکھنے کو نہیں مل سکا۔ اسی طرح یہ نقطہ بھی زیر بحث رہا کہ ٹی ٹی پی کس کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ افغان حکومت اسے پاکستان کا داخلی مسئلہ ہی سمجھتا ہے جبکہ اصولی طور پر یہ مسئلہ محض پاکستان کا نہیں بلکہ خود افغانستان کی حمایت اور موثر اقدامات کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔

افغانستان کی حکومت کا اس مسئلہ کی ذمہ داری محض پاکستان پر ڈالنا اور خود کو بری الزمہ قرار دینا درست نہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان تمام مسائل پر کسی بھی قسم کی شدت پسندی کی نہیں بلکہ دو طرفہ مذاکرات کے عمل کو باقاعدگی سے جاری رکھنا اور دو طرفہ اقدامات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس اہم مسئلہ پر ہمیں خود بھی ایک بڑی سفارت کاری کی ضرورت ہے اور اس مسئلہ کو عالمی دنیا سمیت علاقائی طاقتوں کے ساتھ جوڑ کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم نے اگر دہشت گردی یا سیکورٹی کے حالات کو بہتر بنانا ہے تو پھر ہمیں داخلی سیاسی استحکام کو بھی کنجی کے طور پر اپنی قومی ترجیحات کا حصہ بنانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments