مارچ کیجیے


پاکستان میں ایک عام انسان کی عمر ایک سروے کے مطابق ساٹھ، ستر برس ہی ہوتی ہے۔ اس سال سانسیں چلتی رہیں تو اس دنیا کے رنگ دیکھتے ہوئے 34 برس بیت جائیں گے۔ اس حساب سے میں اپنی آدھی سے زیادہ زندگی گزار چکی ہوں۔ عورت ہونا، پاکستان میں اپنی آدھی سے زیادہ زندگی بسر کرنا کیسا تجربہ ہے یہی کہانی لکھنے بیٹھی ہوں۔

اگر ذہن پر زور ڈالوں تو ”عورت“ ہونے کا احساس پہلی بار تب ہوا جب لاہور سمن آباد (جہاں ہماری رہائش تھی ) کی گلیوں میں گھومتے ایک بار ایک انکل نے مجھ سے کہا۔
بیٹا آپ بڑی ہو گئی ہیں، دوپٹہ لیا کریں۔

میری عمر اس وقت 10 برس تھی۔ گھر میں چھوٹی بیٹی ہونے کی وجہ سے یا یوں کہہ لیجیے کہ والدین کے قدرے لبرل ہونے کی وجہ سے مجھ پر اس قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ ہونی بھی کیوں تھی۔ میری عمر ہی کیا تھی دس سال؟

پھر صاحب ذہن کے دریچے ذرا مزید کھلنے لگے تو اندازہ ہوا کہ مناسب لباس میں بھی سڑک پر چلتی آمنہ کو مرد حضرات حیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پھر ذرا غور کرنے پر یہ راز کھلا کہ جناب سڑک پر چلتی ہر عورت کو ایسے ہی دیکھا جاتا ہے۔ بڑی بہن سے اظہار کیا تو اس نے سمجھایا کہ یہ سب ”نارمل“ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سمجھایا کہ اپنا خیال خود رکھنا ہے اور مناسب لباس پہننا ہے۔

پھر ایک دن جب اقبال ٹاؤن میں اپنی بہن کے ساتھ برقع پہنے چہل قدمی کر رہی تھی تو ایک تیز بائیک قریب سے گزری، موٹر سائیکل سوار نے گزرتے گزرتے میرے ”برقع میں محفوظ جسم“ پر بڑی بے دردی سے ہاتھ مارا۔

اس دن احساس ہوا کہ صاحب لباس کا محفوظ رہنے سے تعلق نہیں۔ البتہ دل کی تسلی سے ہے۔

پھر کالج کے دنوں میں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کا موقع ملا۔ لاہور میں چلنے والی سفید ویگن میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھنے کا مطلب تھا، ڈرائیور کے خوا مخواہ کے فرینک بیہویئر کو برداشت کرنا۔ ویگن کے پچھلے حصے میں بیٹھنے کا مطلب تھا اپنے پیچھے بیٹھے مرد کی انگلیاں اپنی پیٹھ پر مستقل برداشت کرنا۔ جو خواتین ان ویگنوں میں سفر کر چکی ہیں یقیناً آج بھی ان انگلیاں کی غلاظت کو محسوس کرتی ہوں گی ۔

شادی کے بعد کراچی شہر میں رہنے کا تجربہ ہوا تو جانا کہ مرد، مرد ہے صاحب۔

زبان بدلنے کا مطلب یہ نہیں کہ عادات بدل جائیں۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا میرا تجربہ نہیں۔ کیونکہ جن کا تجربہ ہے وہ میرے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔

گاڑی چلانے کا تھوڑا سا اتفاق ہوا۔ اندازہ ہوا کہ گاڑی چلانے والی خواتین کس اذیت سے دوچار ہوتی ہیں۔ انھیں مرد ڈرائیور تمسخر بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔

اب جب بھی عورت مارچ میں سٹوڈنٹ خواتین کا کوئی پلے کارڈ دیکھتی ہوں اور کہیں سے کوئی سر گوشی سنائی دیتی ہے کہ جناب یہ ہیں عورت کے اصل مسائل؟ تو دل کرتا ہے چیخ کر کہوں کہ ہاں یہی ہیں عورت کے اصل مسائل۔

جب ایک خود مختار عورت اپنی گاڑی چلا کر عورت مارچ میں پہنچتی ہے تو پوچھا جاتا ہے اب یہ کریں گی عورتوں کی نمائندگی؟ انھیں مسائل ہی کیا ہیں؟ تو دل کرتا ہے انھیں عورت بنا کر کارپوریٹ ورلڈ کی سیر کروائی جائے، کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلوائی جائے تو انھیں سمجھ آئے، مسائل کس چڑیا کا نام ہیں۔

اسی معاشرے میں جب شوہر کو بیوی کی سر عام بے عزتی کرتے دیکھتی ہوں، مجمعے میں تشدد کرتے دیکھتی ہوں، پھر پلے کارڈ پر شوہر کے تشدد کی روداد پر کہیں سے کوئی آواز آتی ہے کہ اصل مسائل کی نشان دہی تو کیجئے۔

دل چاہتا ہے کہ کہوں کہ صاحب اپنی بیاہی بیٹی کی آنکھوں میں ایک بار غور سے دیکھ لیجیے شاید عورت کے ”اصل مسائل“ نظر آ جائیں۔

عورت ہر دور میں مشکلات سے گزرتی ہے۔ ہر دور میں اس کے اصل مسائل کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے لیکن یہ سبھی مسائل اصل ہیں۔

دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔
اس عورت مارچ کو ایک دوسرے کی ضد نہ بنائیں۔
مارچ کیجیے
افریقہ کی ان خواتین کے نام جو نسوانی ختنہ کا درد ساری عمر سہتی ہیں۔
مارچ کیجیے

چین کی اس خوفناک بربریت کی یاد میں جب بچی کو پیدا ہوتے ہی کنول پھول جیسے پاؤں کی خاطر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

مارچ کیجیے۔
ہر اس بچی کے لیے جسے قرآن سے بیاہ دیا گیا۔
مارچ کیجیے
نور مقدم کی چیخوں اور سسکیوں کے نام
مارچ کیجیے
ملالہ پر آوازیں کسنے والوں کے نام
مارچ کیجیے
تیزاب سے جھلس جانے والے چہروں کے نام
مارچ کیجیے
پسند کی شادی کرنے کی پاداش میں قتل ہو جانے والوں کے نام
مارچ کیجیے
غیرت کے نام پر تشدد سہنے والوں کے نام
مارچ کیجیے
ان خواتین کے لیے جنھیں تعلیم سے دور رکھا گیا
مارچ کیجیے
ان خواتین کے لیے جو راہ چلتے کئی غلاظت بھری نگاہیں خود پر برداشت کرتی ہیں
مارچ کیجیے
ہر اس بہو کے نام جس کے کچن میں ”اچانک“ ککر پھٹ گیا تھا۔
مارچ کیجیے
ہر اس بچی کے نام پر جسے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments